کشمیری پتھربازوں کو معافی، نیوز اینكروں کو ملے گی صافی!

رويش کمار

2015 اور 2016 کے سال میں نیوز چینلز پر پتھربازوں کی تصویریں چلتی تھیں. اینكروں کی آنکھوں سے اپلے کی طرح آگ اور دھواں نکلتا تھا. اینكروں کے چکر میں آکر آپ بھی جِس-تِس کو للكارنے میں لگے تھے. کتنا پروپگنڈہ ہوا تھا، جس کا مقصد تھا آپ کے ذہن میں ہندو مسلم سیاست کی ایک اور پرت چڑھانا.

کیا ان اینكروں نے اب آپ کو چیخ چیخ کر بتایا ہے، کیا آپ نے چیخ چیخ کران سے  پوچھا ہے کہ فوج پر پتھر چلانے والوں پر اتنا رحم کیوں؟ میں اس وقت بھی کشمیر کے سوال سے الگ تھا، اب بھی ہوں. کیونکہ میں کم جانتا ہوں. وہاں کی باریک بینی نہیں سمجھ سکا. جتنے کشمیری نوجوانوں سے بات کی، وہ مجھے اچھے ہی لگے. ان کو اچھا نہیں لگا تو بس اتنا کہ یہ اینكرز کیوں کشمیر میں آگ لگا رہے ہیں.

کشمیر میں پی ڈی پی اور بی جے پی کی حکومت ہے. اس حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ 2008-2017 کے درمیان730 9، پتھربازوں سے مقدمے واپس لئے جائیں گے. حکومت ان 4000 لوگوں کو معافی دینے جا رہی ہے جو گزشتہ دو سالوں سے پتھر بازی میں ملوث ہیں. محبوبہ مفتی نے اسمبلی میں یہ جانکاری دی ہے اور دینک ہندوستان نے اس خبر کو شائع کیا ہے. آپ اس اخبار کا پرانا ورژن دیکھ سکتے ہیں کہ جب پتھر بازی ہو رہی تھی تب کس طرح کی خبریں شائع ہو رہی تھیں.

ابھی اینكروں کو بھی فوج کی توہین کی باتوں کو واپس لے لینا چاہئے. بیچارے یہ اینکرز کہیں کے نہیں رہے. انہیں صافی پینی چاہئے. بچپن میں یہ کڑوی دوا میں نے بھی پی ہے. کہتے ہیں خون صاف ہوتا ہے.

لیکن کئی ماہ تک ان تصاویر کو چینل پر چلا کر، چیخ  چیخ کر، حکومت کا کام کر دیا. آج جب پتھربازوں کو معافی دی جا رہی ہے تو آپ دوبارہ ان اینكرز اور چینلز کی طرف دیکھئے، پوچھئے کہ کیا ہو رہا ہے. کس طرح خبریں کچھ وقت کے بعد مرتی ہیں مگر پہلے آپ  کومار جاتی ہیں.

ہر دوسرے دن کشمیر سے فوج کے افسروں اور جوانوں کے مرنے کی خبر آ رہی ہے. دہشت گرد بھی مارے جا رہے ہیں مگر اپنے جوانوں اور افسروں کو مرتے دیکھ افسوس ہو رہا ہے. ہم کیا حاصل کر رہے ہیں، کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہے. کوئی ایمانداری سے بات نہیں کر سکتے کیونکہ کشمیر پر کیا بات کرنا ہے، اب یہ دونوں طرف سے بھیڑ اور بندوق کی نوک پر طے ہوتا ہے.

کیپٹن کپل شہید ہوئے ہیں. ان کے ساتھ تین نوجوان روشن، رام اوتار اور شبھم بھی شہید ہوئے ہیں. کب تک ہم جھوٹی للکار بھیجتے رہیں گے. میں جنگ کا بھی حامی نہیں ہوں. بات چیت کے راستے کو كايرانا بتا کر طویل وقت کے لئے بند کر دیا گیا ہے. ہمارے جوانوں کی شہادت بیکار جارہی ہے. وہ امن کے لئے جان دے رہے ہیں، امن قائم نہیں ہو رہا ہے.

میں نے شہید لکھ دیا ہے ویسے حکومت نے ابھی تک شہید کسے کہنا ہے اس کی وضاحت نہیں کی ہے. 28 اپریل 2015 کے اخباروں میں خبر شائع ہوئی. وزیر داخلہ نے پارلیمنٹ میں بتایا ہے کہ اب بھی شہید کی تعریف واضح نہیں ہے. کوئی سرکاری حکم نہیں ہے. گزشتہ دسمبر میں بھی خبر شائع ہوئی جس حق اطلاعات کے تحت حاصل کی گئی ہے کہ شہید کسے کہنا ہے تو نہ تو حکم ہے نہ ہی وضاحت ہے.

شہید کا تصور کس مذہب سے آتا ہے وہ بھی دیکھ لینا چاہئے. جس کے نہ کہے جانے پر کسی اور مذہب کے لوگ چراغ پا ہو جاتے ہیں.

اتوار کے دینک ہندوستان میں راج ناتھ سنگھ کا بیان چھپا ہے. انہوں نے کہا ہے کہ کسی کی ماں نے دودھ نہیں پلایا جو کشمیر کو بھارت سے الگ کر دے. اخبار کی ہیڈلان میں کہا گیا ہے کہ راج ناتھ نے پاکستان کو کڑی نصیحت دی. میں سمجھتا تھا وہ صرف کڑی مذمت ہی کرتے ہیں، اچھا لگا کہ وہ کڑی نصیحت بھی کرتے ہیں. انہیں ان کی وزارت کا نام کڑی وزارت (کڑی منترالائے) یا کڑا وزارت رکھ لینا چاہئے.

کشمیر میں حکومت کی کیا پالیسی ہے، سمجھ نہیں آتا ہے. پہلے پتھربازو کے خلاف حکومت کا رویہ جارحانہ رہا، باقی ہندوستان کو بتاتے رہے کہ ہم جھکنے والے نہیں ہیں. اب کم از کم جب 9000 پتھربازوں سے کیس واپس لئے جا رہے ہیں تو اس کا بھی اعلان وزیر داخلہ اور وزیر اعظم کو کم سے کم ٹویٹ سے تو کر ہی دینی چاہئے. پتہ تو چلے کہ کشمیر میں ہماری پالیسی تبدیل ہو رہی ہے. ان کے پاس وقت نہیں ہے تو کم از کم کچھ نیوز اینكروں کو اس فیصلے کا خیر مقدم کرنا چاہئے. یہ سب چپکے چپکے ہو رہا ہے.

گجرات کے پنچ محل ضلع میں ایک دلت عورت کی اَنتِم یاترا نکل رہی تھی. اپر کاسٹ کے لوگوں نے یاترا کو اس راستے سے جانے سے روک دیا. بعد میں پولیس کی حفاظت میں انتِم یاترا نکلی.

نوئیڈا میں ایک داروغہ نے جم ٹرینر کو مار دیا. پھر اسے انکاؤنٹر کے اکاؤنٹ میں دکھا دیا. پنجاب میں ایک داروغہ کی چھیڑخانی سے تنگ آکر طلباء نے پولیس کو گھیرا تو ڈی سی پی نے طالب علموں کے سامنے خود کو گولی مار لی. گائے کو بھی شناخت کی ضرورت پڑ گئی. اس بار کے بجٹ میں 50 کروڑ کا انتظام کیا گیا ہے. دس سال بعد پتہ چلے گا اس لطيفے کا مطلب. ابھی تو لوگ نشے میں ہیں.

مترجم: محمد اسعد فلاحی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔