اے ملک کے روشن نفَسو! زندہ ضمیر و!

تاج ا لدین اشعرؔرامنگری

اے ملک کے روشن نفَسو! زندہ ضمیر و!

گرمجھ کو اجازت ہوتو دوبات کرو ں میں

کچھ رِستے ہوئے زخم دکھاؤں تمہیں دل کے

کچھ شکوۂ نامہریِ حالات کروں میں

اظہارِ خیالات سے تم خوش ہو کہ ناخوش

کچھ جرأتِ اظہار خیالات کروں میں

اے نکتہ رسو، دیدہ ورو، رمزشناسو!

کچھ ملک کی حالت کی خبر ہے کہ نہیں ہے

انسانیت اس ملک میں مظلوم ہے کتنی

حالت کی نزاکت پہ نظر ہے کہ نہیں ہے

ٹکراتی ہے کانوں سے کبھی شیون وفریاد

احساس پہ کچھ اس کا اثر ہے کہ نہیں ہے

سوچا ہے کبھی تم نے کہ تعداد کے بل پر

کمزوروں پہ کیا یورش ویلغار روا ہے

جائز ہے یہ کیا نسل کشی نوعِ بشر کی

جلّا د صفت وارپہ کیا وار روا ہے

کیا آگ لگانے کا ہے یہ مشغلہ اچھا

کیا خون بہانے کا یہ بیوپار روا ہے

رکتا ہی نہیں سلسلۂ ظلم وتباہی

ہر ماہ میں ہوجاتے ہیں دوچار فسادات

جی ڈرتا ہے اخبار کو ہاتھوں میں اٹھاتے

ہیں سر پہ لٹکتی ہوئی تلوار فسادات

مامون ہیں جاں اور نہ محفوظ ہیں ناموس

اک مستقل آزار ہیں خوں بارفسادات

قاتل سے نہیں کوئی بھی کیا پوچھنے والا ؟

کس جرم پہ بچوں کے گلے کاٹ رہے ہو

انسانوں کی اولاد ہو یا تم ہو درندے

لے کر جو مزے خون بشر چاٹ رہے ہو

کس بات پہ ودکان ومکاں پھونک دیا ہے؟

 کس بات پہ لاشوں سے زمیں پاٹ رہے ہو؟

افسوس کہ اس ملک میں غیرت نہیں باقی

انسانوں میں احساسِ شرافت نہیں باقی

ہرچند ہیں ہم مدعیِ امن واہنسا

یاں خونِ بشر کی کوئی حرمت نہیں باقی

بہنوں کی یہاں چھاتیاں کٹتی ہیں سرِعام

کیا آبروئے گوہرِ عصمت نہیں باقی

تم خاک بسر چاک گریباں نظر آتے

احساس اگر مردہ نظر کورنہ ہوتی

گرچند دھڑکتے ہوئے دل سینوں میں ہوتے

تہذیبِ وطن خوں میں شرابور نہ ہوتی

بے باک نہ یوں ہوتی کبھی ظلم کی تلوار

لاش امن کی یوں بے کفن وگورنہ ہوتی

تم پڑھ کے تڑپتے ہو ویتنام کی خبریں

اور ملک کی ہر بستی ویتنام ہوئی ہے

تبصرے بند ہیں۔