ٹوٹا پھوٹا ناچ رہا ہے اچھا خاصا ٹوٹ گیا

حفیظ نعمانی
مودی حکومت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ شادی کے اخراجات کے لیے بینک سے ڈھائی لاکھ روپے نکالے جاسکیں گے۔ اس اعلان کا یہ مطلب نہیں تھا کہ حکومت اپنے ملک کے شہریوں کی ہر شادی میں ڈھائی لاکھ روپے کی مدد کررہی ہے۔ بلکہ یہ تھا کہ لڑکی یا لڑکے کے باپ ، ماں،بھائی یا وہ خود اپنے ان لاکھوں روپے میں سے جو انھوں نے شادی کے لیے جمع کیے تھے ڈھائی لاکھ نکال سکتے ہیں۔
اس رقم کے نکالنے کے لیے ریزروبینک نے جیسی شرطیں لگائی ہیں ان سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ روپیہ ان کا نہیں ریزرو بینک کا ہے اور شرم کی بات یہ ہے کہ ملک کے وفادار اور اپنے ملک سے محبت کرنے والے ان ہندوستانیوں میں جن لوگوں نے وہ شرطیں بھی پوری کردیں تو جواب ملا کہ بینک میں روپیہ نہیں ہے دو ہزار یا چار ہزار لے جاؤ۔ ردولی اترپردیش کی ایک بڑی تحصیل ہے۔ وہ کبھی بارہ بنکی میں تھی۔ اب فیض آباد میں ہے۔ وہاں کی خبرہے کہ سیکڑوں گھر ہیں جہاں شادی ہے اورایک بھی ایسا نہیں ہے جسے ڈھائی لاکھ ملے ہوں۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ جو ملک کے لوگوں نے حفاظت کے خیال سے اپنے سارے روپے بینک میں رکھے تھے وہ کیا ہوئے؟ وہ کون بے ایمان ہے جس نے ان غریبوں کی عمر بھر کی کمائی ڈکار لی؟
ہر مذہب میں شادی کی رسمیں الگ الگ ہوتی ہیں لیکن مقصد سب کا صرف ایک ہوتا ہے کہ ایک لڑکے اور لڑکی عمر بھر کے لیے ایک دوسرے کے شریک ہو کر زندگی گذاریں اور آنے والے بچوں کو اچھا انسان بنائیں۔ ہم نے ایسے نہ جانے کتنے لوگوں کو دیکھا ہے کہ جنھوں نے شادی نہیں کی یا شادی تو کی مگر پیدا کرنے والے نے انہیں اولاد نہیں دی۔ ایسے لوگوں کو کتنا ہی پڑھایا جائے یا سمجھایا جائے وہ نہیں سمجھ سکتے کہ ایک لڑکی کو پیدا ہونے کے بعد اپنی حیثیت سے بڑھ کر اچھا کھلانا اچھا پہنانا اور اچھاپڑھانا اور اس کے باوجود یہ سب کرنا کہ وہ بڑی ہو کر کسی دوسرے گھر چلی جائے گی اور اگر سسرال والے چاہیں گے تو ماں باپ کے بیمار ہونے، معذور ہونے میں بھی نہ آنے دیں گے اور ہوسکتا ہے کہ مرنے میں بھی نہ آنے دیں۔ پھر بھی ماں باپ کی محبت وہی رہتی ہے۔
اور اسی طرح وہ لڑکے جو شادی کے بعد بیوی کی محبت میں ماں باپ کو بوجھ سمجھنے لگتے ہیں اور بیوی کی ضد پر اپنا چھوٹا سا آشیانہ الگ بنا کر ماں باپ سے دور ہوجاتے ہیں اور غیروں کی طرح ٹیلی فون پر خیریت لیتے رہتے ہیں۔ ان پر بھی ماں باپ اپنی ساری محبت اور کمائی لٹا کر اپنے سے اچھی تعلیم اور اپنے سے بڑا کاروبار کراتے ہیں۔ ہمیں کوئی باپ یا ماں ایسی نہیں ملی جو ان خطروں کے پیش نظر اپنے بچوں کو جاہل رکھے۔
یہ بات چاہے جتنی موٹی موٹی کتابوں میں مودی جی پڑھیں یا سیکڑوں آدمیوں سے سنیں وہ مان تو لیں گے لیکن ان کے اندر وہ جذبہ پیدا ہوہی نہیں سکتا جو ایک لڑکی اور لڑکے کے باپ کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ یہ انسان کے بس کی بات نہیں ہے یہ صرف پیدا کرنے والے کے اختیار کی بات ہے۔ جیسے ایک لڑکی کے پیٹ سے بچہ باہر آتا ہے تو ماں کے سینوں میں اس کا دودھ خود بخود آجاتا ہے۔ جبکہ کوئی بڑے سے بڑا ڈاکٹر کسی لڑکی کے سینے سے چاہے وہ کتنی ہی بڑی ہوجائے دودھ کا ایک قطرہ نہیں نکال سکتا۔ اسی طرح وہ نریندر مودی یا رام دیو کے دل میں وہ جذبہ نہیں ڈال سکتا جو بیٹے اور بیٹی کی شادی کے لیے تڑپتا ہے۔ مودی جی کی سمجھ میں اگر ہماری بات اب بھی نہ آئے تو وہ کرناٹک کے اس ممبر پارلیمنٹ کو بلا کر جس نے شہرت کی حد تک ۵ سو کروڑ روپے اپنی بیٹی کی شادی میں اس حال میں خرچ کیے ہیں کہ اسے معلوم ہوچکا تھا کہ اس کے سب سے بڑے لیڈر جس کے ہاتھ میں اس کی عزت اور ذلت ہے اس نے 5 سو اور ہزار کا ہر نوٹ غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔ معلوم کریں کہ وہ لڑکی جو کل دوسرے کے گھر کی ہوجائے گی اس کے لیے تم نے مجھے ذلیل کیوں کیا؟ تب وہ بتائے گا کہ اولاد کی محبت کیا ہوتی ہے؟ اس لیے کہ وہ بی جے پی کا ایم پی ہے۔
مودی جی کا ہر حکم نادرشاہی ہوتا ہے۔ انھوں نے اب تک جو حکم دیا یا جو حکم واپس لیا اب وہ اسے چھوڑ کر شادی کے معاملہ میں صاف صاف الفاظ میں حکم دیں کہ جو شادی کے لیے اپنے روپے نکالے اس میں من مانی نہ کرو۔ اس کے اپنے روپے ہیں سرکار کے نہیں۔ رہی ۸؍ نومبر سے پہلے جمع ہوئے یا بعد میں جمع ہونے کی بات تو نریندر مودی نے 14 ؍ نومبر کو غازی پور میں کہا تھا کہ میری جن بہنوں نے شادی کے لیے بچا بچا کر رکھے ہیں وہ بینک میں جمع کردیں، ڈھائی لاکھ تک کوئی افسر ان کی طرف دیکھے گا بھی نہیں۔ اگر ان پر اب پابندی لگتی ہے تو یہ دھوکہ اور فریب ہے جو ایک وزیر اعظم کے لیے شرم کی بات ہے۔
ہندوستان میں شادی کی تاریخ تبدیل کرنا وہ بھی مہینوں اور سال کے لیے کرنا ہنسی کھیل نہیں ہے۔ نہ جانے کتنے رشتے ٹوٹ جائیں گے اور نہ جانے کتنے جان دے دیں گے۔ اور ایک بار تاریخ نکل جانے کے بعد یہ ضروری نہیں کہ پھر وہی رشتہ باقی رہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لڑکے والوں کو دوسری اچھی لڑکی مل جائے اور لڑکی والوں کو دوسرا اس سے اچھا لڑکا۔ 18۔20، 25سال تک ایک بچہ کو اپنی ہر خوشی قربان کرکے پالنے کے بعد جب اس کی خوشی کا موقع آئے اور آدمی نہ قرض لے سکے نہ بھیک مانگ سکے ، زمین جائداد بھی نہ بیچ سکے تو پھر وہ جان دے دیگا اور اس کا شراپ صرف مودی کو جائے گا۔ اور جن مسلمانوں کے ٹوٹے ہوئے دلوں سے بددعا نکلے گی اس سے صرف حکومت ہی نہیں بہت کچھ برباد ہوجائے گا۔ جسے ایک مودی کیا کوئی نہیں جانتا۔ وہ مالک کہہ چکا ہے کہ میں ٹوٹے ہوئے دلوں کے قریب ہوں۔
آج ہم شاید چند تجربہ کاروں میں سے ایک ہیں جس نے اپنی شادی اس حال میں کی کہ ولیمہ میں باہر کے صرف10آدمی تھے۔ بارات کیا ہوتی ہے؟ یہ فرشتوں نے بھی نہیں دیکھا۔ اپنے تین بڑے بچوں کی شادی کی تو اپنے آپ کو نچوڑکر رکھ دیا اور برسوں کمر سیدھی نہیں ہوئی۔ اس کے بعد تین کی شادی ایسی ہوئی جیسے معیاری شادی ہوتی ہیں۔
دنیا کا مالک و خالق کس پر کب مہربان ہوجائے اور کتنا مہربان ہوجائے یہ کون جان سکتا ہے۔ وہ رحمان و رحیم مہربان ہوا اور اپنے نواسوں اور نواسیوں کی شادی سب اپنے ہاتھوں سے کی جن میں شاید ہی کوئی محبت کرنے والا ہو جو شرکت سے رہ گیا ہو۔ اور اب جب ڈھائی لاکھ وہ بھی اپنے روپے بھیک کی طرح لینے کا وقت آیا ہے تو کوئی نہیں ہے جس کی شادی کا مسئلہ سامنے ہو۔
رہا اوسط درجہ کی شادی کا خرچ تو ڈھائی لاکھ جس کے لیے لوگ خودکشی بھی کررہے ہیں ان میں تو شادی کیا منگنی بھی نہیں ہوگی؟ مودی نے جیسے بھیک کی طرح قوم سے 50 دن مانگے ہیں اسی طرح ہاتھ جوڑ کر اور کمر کو اتنا ہی جھکا کر قوم سے شادی کے لیے ایک سال کی بھیک وزیر اعظم کو مانگنا چاہیے اور وعدہ کرنا چاہیے کہ ایک سال کے بعد ہر شادی میں ایک لاکھ روپے سرکار دے گی۔ اس لیے کہ دیش کندن بن کر نکل چکا ہوگا اور وزیر اعظم سونے کی کار میں چل رہے ہوں گے۔ بلیک کا روپیہ ختم ہوچکا ہوگا ہر چیز آدھی قیمت پر آچکی ہوگی اور کالے دھن والوں کے ہاتھ میں بھیک کی کٹوری ہوگی اور دہشت گردی اور پاکستان جعلی نوٹ بنانے سے توبہ کرچکا ہوگا۔
مودی جی نے سب کی رائے معلوم کی ہے۔ اس میں بھی وہی ہیرپھیر ہے جو ان کے نوٹ بندی کے فیصلہ میں تھا۔ سو کی ایک بات یہ ہے کہ اگر انہیں یقین ہے کہ 30 دسمبر تک بینکوں میں نوٹوں کے بنڈل بھر جائیں گے تو پرانے نوٹ 30 دسمبر تک چلانے کے لیے اعلان کردیں اور اگراس میں شک ہو تو اعلان کردیں کہ جو پانی میں گئے وہ گئے جو جل گئے وہ بھی گئے اب جس کے پاس ہیں وہ اس وقت تک چلاتا رہے جب تک نئے نوٹ نہ آجائیں اور پرانے گھوم پھر کر سب بینک میں نہ آجائیں۔ اس لیے کہ صرف 10 دن ہیں جن میں اگر بیج اور کھاد نہ ملا تو دھرتی سوکھ جائے گی اور پھر قحط ایسا پڑے گا کہ آدمی آدمی کو کھانے کے لیے مجبور ہوجائے گا۔ اور اگر وہ اپنے کو پھنسا ہوامحسوس کررہے ہیں تو فوج کو بلا کر ملک اس کے حوالے کردیں۔
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔