ٹیلی ویژن اور جدید نسل

فانیؔ ایاز گولوی

یہ سب کے سامنے عیاں ہے کہ دور جدیدمیں ہماری نوجوان نسل کس اور جا رہی ہے۔ مغربی تہذیب کے عریانیت  میں غرق ہو تے ہوئے اس نتیجے پر پہنچ گئی ہے کہ ان کو اب اخلاق، پیار، محبت،رشتے داری،دوستی،مدد،اپنو ں کی تڑپ جیسے الفاظ شاید معلوم نہیں۔ ایسا لگتا ہے یہ نسل ایک دوسرے کو جانتی ہی نہیں اور ہمارے رگ لہو سے کوئی جنا ہی نہیں ہے۔ یہ اب خواب سا  رہ گیا ہے۔بے حیائی ہمارے گھروں میں اسقدر بس چکی ہے کہ ہمیں اب یہ پہچان کرنا مشکل ہو گیا ہے یہ مسلم ہے یا غیر مسلم یا اگر سلام کریں تو کس کو کریں اب سلام کے لئے اپنی پہچان بھی ختم کر دی ہے۔ اب ہم جدیدیت  modernizationکی جانب قدم اٹھا رہے ہیں۔ ہمارا لباس، کھانا، پینا، اٹھنا، بیٹھنا،جاگنا سونا، گفتگو کرنا بھی غیر وں کی نقش و قدم میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ہما را اسلام ایک مکمل دین ہے جس میں پاک خانے سے لیکر ایوانوں تک کا رہن سہن بتایا گیا ہے مگر ہم ان چیزوں سے بے خبر ہیں۔ ہم نے مسلمان ہونے کے لئے کلمہ تو پڑھ لیا لیکن اس پر اترنے کی کوشش نہ کی۔

اگر غور سے دیکھا جائے ہمارے گھروں میں سب سے بڑی بیماری ٹی وی ہے جس میں دنیا بھر کی بے حیائی کو ہم خرید کر گھروں میں آسانی سے داخل کرتے ہیں۔ اور ہماری نوجوان بیٹے اور بیٹیاں اس عریانیت کے سمندر میں غرق ہورہے ہیں۔ راتوں کی نیندیں تک حرام کر دی ہیں۔ عورتیں تو ڈراموں میں مشغول رہتی ہیں اور بچے فلموں میں۔ اگر کسی سے یہ سوا ل کرنے کی جسارت کی اور پوچھ لیا جناب ٹی، وی کیوں لگایا ہے جواب میں یہ ہی ملے گا کبھی کبھی نیوز سنتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو مدعا ہے ٹائم پاس کرتے ہیں۔ خدا نے شاید اس انسان کو ٹائم پاس کرنے کے لئے بنایا تھاکہ جا میرے بندے تو دنیا میں وقت گزار کر آنا تجھے میں بہشت عطا کر دوں گا تجھے میں بہشت کے اعلیٰ ترین محلوں میں رکھوں گا۔ تو میرا پیارا بندہ ہے تجھے میں نے اشرف المخلوقات بنایا ہے یہ سب ہجر و شجر تیرے لئے یہ بحرو بر تیرے لئے یہ چاند وسورج تیرے لئے یہ ٹھنڈی ٹھنڈ ی فضائیں تیرے لئے۔یہ صحت و تندرستی تیرے لئے یہ پیارو محبت تیرے لئے یہ سب آسائیش کی چیزیں تیرے لیے اور تو صر ف عیش و آرام کرنے کے لئے۔کیوں کہ خدا کو بڑا نا ز تھا کہ میں نے دنیا میں ایک نائب بنایا یہ میری عبادت کرے گا اور تیرا خیال ہے کہ میں ٹائم پاس کروں کتنی عظیم سوچ ہے تیری تو عاقل بالغ بھی ہو ا لیکن تجھے خدائی سمجھ میں نہ آئی۔

ان گناہگار آنکھوں نے دیکھا ہے ماں بیٹی اکٹھی بیٹھی ہوئی ہیں اور وہا ں ٹی وی پر ننگے مرد وزن  ڈانس کر رہے ہیں باپ بھی سامنے بیٹھا ہوا ہے اور غور سے ان کی بے حیائی کو دیکھ رہا ہے۔اس کو اپنی جگہ ناز ہوتا ہو گا۔کہ میرے بچے ماڈرن modrenہیں۔ بھلا تمہاری اولاد ان فلموں سے کیا سیکھے گی وہ اندھا پیار جس کو دیکھ کر لڑکیا ں لڑکوں کے ساتھ بھاگ جاتی ہیں اور کورٹ میریج کرتی ہیں اور بعد میں تمہیں انگھوٹھا دکھاتی ہیں۔ پھر تم ہائے ہائے کی صدائیں دنیا کے سامنے بلند کرتے ہو میری اولاد نافرمان ہے یہ مانتی نہیں ہے اس میں سب آپ کا ہی قصور ہوتا ہے۔ پہلے آپ نہیں مانتے تھے اب تو دکھایا ہم نے شادی کر کے۔

ان ڈراموں سے عورتیں کیا سیکھتی ہیں گھریلو جھگڑے اور ہماری بیٹیاں ایسا لباس پہنتی ہے جس کو دیکھ کر پہچان نہیں آتی ہے یہ مسلم ہے یا غیر مسلم۔ سر پر دوپٹا نہیں رکھتی اور باپ کہنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ جب بچوں کا قد اپنے سے اوپر ہو جاتا ہے تو پھر کہنے کی ہمت بھی نہیں ہوتی۔ اس کے لئے بھی ایک وقت ہوتا ہے۔ مگر پھر وہ بیت گیا ہوتا ہے۔دنیا کی تعلیم کے لئے بیس بیس سال گھروں کو خیر آباد کہہ دیتے ہیں لیکن دینی تعلیم کے لئے ہم مولوی صاحب سے بحث مباحثہ چھیڑتے ہیں مولوی صاحب مفت میں نہیں پڑھا سکتا ہے کیا یہ پیسے لیتے ہیں ؟کیوں کہ ان بے چاروں میں نفس کی کوئی شے نہیں ہوتی ہ۔ یہ بغیر نفس کے ہوتے ہیں۔ اور پریوار بھی نہیں ہوتا ہے اس بچارے کی کوئی خوہشات نہیں ہوتی۔ تو مہینے میں پچاس ہزار تنخواہ لیتا ہے اور بڑا بنگلہ ہو بڑی کار ہو اور وہ بے چارہ تمہارے سامنے بھیک مانگے یہ کہاں کا انصاف  ہے ہم نے دس دس ہزار ٹویشن فیس دینا منظور کیا لیکن اللہ کا کلام سیکھنے کے لئے بچاس روپے دینے میں بھی تھرتھراہٹ محسوس ہوتی ہے۔ آخر جب تمہاری اولاد اس دنیائے  فانی سے کوچ کر جائے تو قبر میں جب اسے سوالات ہو ں گے کیا جواب دے گا؟رات کو دو بجے ٹی وی کے سامنے ننگی تصویریں دیکھتا ہے اوراس وقت موبائل بستر کے اندر سرڈال کر نہ جانے ہمارے نوجوان کیا کیا برائی دیکھتے ہیں۔ اور صبح فجر باجماعت پڑھنے کی امید کیا رکھی جائے وہ تو دس بجے تک حیوانوں کی طر ح پڑا رہتا ہے۔ حیوان کی مشاہبت بھی نہیں دے سکتے کیوں کہ مرغ تو صبح کے وقت بانگ دیتا  ہے اور انسان تو اس سے بدتر ہے  جو یا د الٰہی سے غافل ہے۔

ہم نے اپنے بچوں کو مغربی تہذیب کا پیروکار بنایا ہے ماں باپ خود بچے کو ایسے ایسے ڈریس لے کر دیتے ہیں جن سے سارا جسم عیاں ہوتا ہے بیٹیاں سر پر دوپٹہ اُوڑنے کے لئے تیار نہیں کیوں کہ جب وہ چھوٹے ہوتے ہیں تب انہیں عادت نہیں کرائی جاتی ہے اور جب نوجوانی کے جوش میں آتے ہیں پھر تو کہتے ہیں مگر پھر اپنی جان کو مالش کر کے رکھنی پڑتی ہے کہیں نوجوان بچے کا دماغ گھوم گیا تو خیر نہیں۔ پھر جو کہے گا وہ کرنا پڑھتا ہے جب وقت تھا سدھارنے کا تب کمبخت نے یہ کہہ دیا کہ یہ بچہ ہے اور بعد میں بُرے نتائج ظاہر ہوئے۔ میں یہ نہیں کہتا ٹیلی ویژن مت لگائو موبائل مت لو مگر ایک دسویں جماعت کی لڑکی کو دس ہزار کے موبائل کی کیا ضرورت ہے یا پھر ان کو ٹی وی پر فلمیں دیکھنے کے لئے کیوں نہیں منع کیا جاتا ہے۔

اگر صحیح طریقے کے ساتھ دیکھا جائے اسلامی چیزیں بھی میسر ہوتی ہیں لیکن پہلے ان کو اس تعلیم سے آگاہ ہونا چاہئے جس سے وہ اچھے اور برے کی پہچان کرلیں۔ ان کی عادات اچھی ہونی چاہئے۔ پھر وہ کہیں اچھائی کو دیکھ سکیں گے۔ ورنہ آنکھوں دیکھا حال ہے اس دہر میں کیا کیا ہو رہا ہے سات سال کی بچی کے ساتھ عصمت دری ہوتی ہے کیا یہ درند گی نہیں۔ وہ بھی تو کسی کی اولاد ہے۔ ٹیلی ویژن برائی کے جڑ ہے ہم دنیا میں ٹائم پاس کرنے کے لئے نہیں آئے ہیں بلکہ ہم عبادت کے لئے آئے ہیں۔ ہمیں اپنا مقام سمجھنا ہو گا۔ آنے والی نسلوں کو اچھے راستے کی جانب گامزن کرنا ہو گا۔ ہمیں اپنے گھروں کا ماحول اچھا بنانا ہوگا۔ جب تک نہ ہم ان برائیوں کا خاتمہ کریں گے اور اپنے سچے دین کی جانب گامزن ہوں گے تب تک ہم خسارے میں رہیں گے۔ ہمیں اپنے بچوں کو وہ رہ  دکھانا ہے جس پر میرے آقا ﷺ نے پتھر کھائے ہمیں تو وراست میں دین ملا ہے ہمیں قدر نہیں اسلئے ہمیں اپنے دین کی قدر کرنی چاہئے۔ ان گھریلو بُرائیوں کا خاتمہ کرنا چائے تب جا کر ہماری آخرت کا کچھ بنے گا ورنہ ہم خسارے میں ہی رہیں گے۔

ہمارے  بچے قوم کے مستقبل ہوتے ہیں۔ اگر ہم بچوں کی صحیح تربیت نہ دیں تو آنے والے وقت میں بچوں کو بربادی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ہر ایک بچے کے پیچھے اس کے ماں باپ کا ہاتھ ہوتا ہے۔ زیادہ تو ماں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ بچے کی تربیت ماں کے گود سے ہی شروع ہوتی ہے جس صحبت میں ماں اپنے بچے کو رکھے گی وہ اس کو آخر تک رہے گی وہ بھی مائیں تھی جن جن مائوں کے  بطن سے نبی اور بڑے بڑے اولیائے کرام نے جنم لیا ہے وہ پاک دامن ہوا کرتی تھیں۔ اگر ہم اپنے بچوں کوٹیلی ویژن پر کھیل یا ننگی فلمیں دکھائیں گے تو کس حد تک ہمارے بچے ترقی کر سکیں گے۔

اسلام نے بچوں کی تربیت کے بارے میں بہت اہمیت دی ہے۔لیکن ہم اس سے دور ہیں۔ ٹی وی چینل کی تفریح کے نام پر کیا کیا نہیں دکھاتے ہیں۔ اس میں داستانیں بُرائیوں سے بھر ی پڑی ہیں۔ جس میں جھوٹی پیار کی کہانیاں ایسے ایسے ڈرامے تیار کئے جاتے ہیں جن سے بچوں کا ذہین اس طرف راغب ہو جاتا ہے اور اس کو یہاں پر سچ کرنے کی کوشیش میں لگا رہتا ہے۔کبھی بالوں کے اسٹائل، کپڑوں کا فیشن زیب و ذینت ایسی ایسی تباہ کاریاں اس ٹی وی سے نشر ہورہی ہیں جس سے ہماریی نسل سچ کر کے دکھاتے ہیں۔ جہاں ماں باپ نے بچے کی پرورش کرنی تھی وہا ں ہم نے بچو ں کے ٹی وی کے سامنے رکھ دیاچار سال کا بچہ ہی جب ٹی وی اسکرین پر بیٹھ جائے گا تو سوچ لو اس کے دل و دماغ میں کیا چیزیں بسے گی۔ وہ تو عریانت کا شکار ہو ں گے۔ اس کے ذہین میں وہ سین آئیں گے جو میڈیا اسے دکھا رہا ہے۔ جس طرح میڈیا اس کے ذہین بنا رہا ہے۔ ویسا ہی سماج میں بچا تیا ر ہو گا۔

اگر ہم یوں بھی کہیں کے آج کے زمانے میں میڈیا ہی بچوں کی پرورش کر رہا ہے مبالغہ نہ ہو گا۔پھر اگر اس کے سا منے ادب کی بات کہو گے یا نماز کی بات کہو گے پھر اس کی کوئی بھی قیمت نہیں ہو گی۔ تب اس کا دل کالے داغ سے سیاہ ہو چکا ہو گا۔ پھر اگر ہم لاکھ کوشس کریں گے۔ پھر ہم ناکام رہ جائیں گے۔جہاں بچوں کو پڑھائی کی جانب رجحان کرنا  تھا وہاں ہم نے ان کے ذہین میں ننگی فلموں کے سین دکھا دیئے۔ ان کے کانوں میں ائیر فون ہوں گے ایسا لگے گا بچا مشین میں آگیا ہے۔اگر کسی بڑے کے ساتھ راستے میں ٹکرئوہو گا اس کو یہ پتہ نہیں ہو گا بڑے کے ساتھ کیسے پیش آنا ہے وہ ائیر فون لگا کر ہل رہا ہو گا اور موڈ بنا کر آپ کے سامنے سے چلا جائے گا اور آپ کے قلب میں افسوس کی دھڑکنیں تیز ہوں گی۔ کہ یہ کیسے بچے ہیں جو سلام تک نہیں کرتے۔ اور آج کی ماڈرن مائیں بچوں کو موبائل لگا کر دیتی ہیں یا پھر ٹی وی کے سامنے بچوں کو رکھتی ہیں اور پھر گھر کا کام کرتی ہیں گویا ایسا ہوتا ہے کہ جسے گھر میں ٹی وی رکھنا فرض ہو گیا ہو۔

اگر کسی غریب کے پاس پیسے بھی نہیں ہوں گے مگر ادھار لے کر ٹی وی خریدلے گا۔ کبھی غورکیا جائے اس ناچیز کی باتوں پر مکان گرنے کے لئے تیار ہوں گے مگر چھت پرڈش لگی ہو گی۔ پہننے کے لئے پوشاک نہیں ہوں گے ڈش ہو گا کھانے کے لئے خوراک نہیں ہو گی مگر گھر میں ڈش ہو گی۔اسی طر ح سے بچوں پر غلیظ اثرات ٹی وی کے ذریعے بچوں کے ذہین میں گھر کر جا تے ہیں۔ اور وہ برائی کا شکار ہو جاتے ہیں آپ کو اس جدید دور میں ہر ایک گلی میں نوجوان ملیں گے جو موبائل میں مشغول ہو ں گے۔ جب گھر میں قد م رکھیں گے تو ٹی وی کی طرف گامزن ہوں گے۔اب آپ خود ہیں اندازہ لگائے کہ اس حالات میں کون سا بچہ نیک سیرت بنے گا اورکس بچے سے یہ اُمید لگائی جائے گی کہ وہ نماز پڑھے گا اور مرنے کے بعد والدین کے لئے دعائے مغفر ت کرے گا حالانکہ بچہ ماں باپ کے لئے صدقہ جاریہ ہے۔ جو بچہ دنیا میں جیسا کرے گا وہ ثواب ماں باپ کے لحد میں پہچے گا۔اللہ تعالیٰ ہمیں نیک بننے کی توفیق عطا کرے آمین۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    پہلے رشتوں میں بہت طاقت ہوتی تھی پاکیزگی ہوتی تھی خالہ, چچا ,تائی وغیرہ کے رشتے بہن بھائیوں جیسے تھے آج رشتے وہ نہیں رہے, قدر نہیں رشتوں کی, لڑکا لڑکی عشق کا پہلا سبق کزن سے شروع کرتے ہیں ان t.v کے ڈراموں نے رشتوں کے تقدس کو برباد کر دیا ہے اللہ پاک ہماری نسلوں کو حیا دے.

تبصرے بند ہیں۔