پارلیمنٹ میں تین طلاق بل: کتنی حقیقت کتنا فسانہ

محمد ریاض قاسمی منچریال

میری تو آنکھیں تھک گئی ہیں ایسی مضحکہ خیز خبریں پڑھ پڑھ کر اور کان پک گئے ہیں جھوٹ سُن سُن کر۔ ہر روز اخبارات میں ایسی خبریں اور بیانات لگے ہوتے ہیں جن کا سچ اور حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایسے اشتہارات لگوائے جا رہے ہیں جو جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ ٹی وی پر ایسی تقریریں، ٹاک شوز میں گفتگو اور سیاسی ڈرامے چل رہے ہیں کہ بندہ حیران رہ جائے۔ سیاستدان اس قدر ڈھٹائی سے جھوٹ بولتے ہیں کہ اعصاب جھنّا جاتے ہیں جیسے چند روز پہلے پارلمینٹ میں جھوٹ کو اتنا اچھالا گیا ہے کہ وہ سچ بن گیا.

در اصل اس تحریر کا مقصد ان چند حقائق کو واضح کرنا ہے جو چند روز پہلے27-12-2018  کو پارلیمنٹ میں تین طلاق بل کو لیکر ایک خاص ذہنیت نے کچھ ایسی باتیں کہی ہیں جنہیں سن کر شاید خود انہیں کو بعد میں ہنسی آیے اور کچھ لوگوں نے تو اپنے دین و ایمان کا سودا کرکے اسلامی تعلیمات کے خلاف صرف زہر افشانی ہی نہیں بلکہ اس کی دھجیاں اڑائی ہیں کچھ لوگوں نے بار بار پارٹی کی ایک دو رٹی رٹائی چیزوں کو کہتے ہوئے بل کو پاس کرانے کی بہت جلدی میں تھے کیونکہ ان کو اس بات کا پتہ تھا کہ اگر جلد از جلد اس بل کو پاس نہیں کیا جائے گا تو ان پر آفت آ سکتی ہے، اس لیے انہوں نے تین طلاق بل کو تین طلاق کی طرح بہت جلدی یعنی طلاق طلاق طلاق کہہ کر بل کو پاس کرانے کی بہت کوششیں کیں ہے اور وہ ایک حد تک کامیاب بھی ہوئے اور اکثر حد تک ناکام بھی.

کتنی حقیقت، کتنا فسانہ:

سب سے اہم چیز جو بار بار کہیں جا رہی تھی وہ یہ کہ جب تین طلاق پر مسلم ممالک میں پابندی ہے تو ہندوستان میں اس پر پابندی کیوں نہیں؟ سنجیدگی سے اس بات کی تحقیق کرے تو پتہ چلے گا کہ یہ حقیقت نہیں ہے بلکہ فریب، دھوکہ دہی اور گمراہ کرنے کا آسان ذریعہ ہے، آئیے دکیھتے ہیں کہ کیا واقعتاً تین طلاق پر اسلامی ممالک میں پابندی ہے یا محض آنکھ مچولی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے؟، اس بل کو پیش کرتے ہوئے مختلف زعفران ممبران نے چیختے چلاتے، اپنی عینک کو اونچی نیچی کرتے، پانی پیتے پیتے ایسی ایسی واہیات کہتے جا رہے تھے کہ شاید غالب نے انھیں کو دیکھتے ہوئے کہا تھا کہ

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

کسی نے کہا 430 اسلامی ممالک میں اس پر پابندی ہے تو کسی نے کہا کہ 22 اسلامی ممالک میں یہ قانون ہے اور کسی نے 20 کہا، بس جس کے منہ میں جتنی باتیں آئیں وہ کہتا چلا گیا، مگر حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی اسلامی ملک میں تین طلاق پر پابندی نہیں ہے اور کسی بھی ملک میں اس پر سزا بھی نہیں ہے، ہاں! جن ممالک میں تین طلاق پر پابندی کی بات کی جا رہی ہے وہ تین طلاق پر پابندی نہیں ہے، بعض ممالک میں تین طلاق کو تین ہی سمجھا جاتا ہے اور بعض ممالک میں تین طلاق کو ایک ہی طلاق سمجھا جاتا ہے، لیکن ایسا قانون کسی بھی اسلامی یا غیر اسلامی ملک میں بھی نہیں ہے کیونکہ یہ صرف شریعت کے خلاف ہی نہیں ہیں بلکہ تمام ممالک کے آئین کے خلاف بھی ہیں، یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جو اپنے آپ کو قانون ذات سمجھتے اور کہلواتے ہیں وہ بھی اس موٹے سے فرق کو سمجھ نہیں سکے، ممکن ہے کہ سمجھا بھی ہو مگر اس کا اظہار کرکے ایک خاص قسم کی ذہنیت کے خلاف محاذ کھڑا نہ کرنا چاہتے ہو، آپ ملاحظہ کرتے چلیں کہ کسی بھی ملک میں تین طلاق پر پابندی نہیں ہیں.

   کہیں بھی تین طلاق پر پابندی نہیں ہے:

کوئی بھی اسلامی ملک ہو یا غیر اسلامی، وہاں تین طلاق پر پابندی نہیں ہے، یہ لوگ بڑے بلند و بالا دعوے کرتے ہیں کہ بہت سارے ممالک میں اس پر پابندی ہے، ہم ان ہی ممالک کے قوانین کو دیکھتے ہیں کہ یہ دعوے کس حد تک حقیقت ہیں اورکس حد تک فسانہ ہے، ان ممالک نے عائلی قوانین کا جو مجموعہ شائع کیا ہے،  ان کا مطالعہ کر نے سے صاف واضح ہوجاتا ہے کہ یہ بہت ہی بڑا دھوکہ ہے ذیل میں چند مسلم ممالک کا اس سلسلہ میں قانونی متن ملاحظہ فرمائیں :

مصراور شام میں تین طلاق کا قانون :

ڈاکٹر وہبہ زحیلی علیہ الرحمۃ مصر اور شام کا قانون طلاق بیان فرماتے ہیں :

وقد اخذ القانون فی مصر وسوریۃ بھذا الرأی،  نص القانون السوری علی مایلی :

م۹۱؛ یملک الزوج علی زوجتہ ثلاث طلقات ۔

م۹۲؛ الطلاق المقترن بعدد لفظا أو اشارۃ لا یقع الا واحدا ۔

(الفقہ الاسلامی وادلتہ :اقوال الفقھاء فی الطلاق الثلاث بلفظ واحد ۷ ؍ ۴۰۶، )

مصری اور شامی قانون میں اسی رائے کولیا گیا ہے، چنانچہ شامی قانون میں درج ذیل صراحت کی گئی ہے : دفعہ:۹۱؎:۔ شوہر کو بیوی پر تین طلاق کا اختیار ہو گا،  دفعہ۹۲؎: طلاق میں عددکا ذکر خواہ لفظوں میں ہو یا اشاروں میں ہو، اس سے بہر صورت ایک ہی طلاق پڑے گی۔

بحرین میں تین طلاق کا قانون :

مملکۃ البحرین وزارۃ العدل و الشئو ن الاسلامیہ والاوقاف‘‘ کی جانب سے شائع کر دہ ’’ قانون اسرہ ‘‘ کے دفعہ ۸۸؎ کے تیسرے شق میں ہے :

لا یقع الطلاق المقترن بالعدد لفظا أو کنایۃ أو بالاشارۃ الا طلقۃ واحدۃ۔

یعنی طلاق میں عددکا ذکر خواہ لفظوں میں ہو یا کنایۃ ہو یا اشارہ سے ہو، بہر صورت ایک ہی طلاق پڑے گی۔

قطر میں تین طلاق کا قانون:

قطر ‘‘ کی جانب سے ’’قوانین اسرہ ‘‘ کا مجموعہ ’’المیزان ‘‘کے نام سے شائع ہوا ہے،  اس کے دفعہ ۱۰۸؎ کے چوتھے شق میں ہے:

لا یقع الطلاق المتتابع او المقترن بالعدد لفظا او کتابۃ اوراشارۃ الا طلقۃ واحدۃ ( المیزان :ص:۴۰؍ مادہ:۱۰۸)

یعنی پے در پے دی گئی طلاق،  یا طلاق کے ساتھ عدد کا تذکرہ ہو خواہ عدد کا تلفظ ہو یا لکھ کر دیا ہو یا اشارہ سے ہو ان تمام صورتوں میں ایک ہی طلاق پڑے گی ۔

اسی ’’المیزان ‘‘کے دفعہ ۱۱۱؎ کی ایک شق ہے :

الطلاق البائن بینونۃ کبری لا تحل المطلقۃ بعدہ لمطلقھا الا بعد انقضاء عدتھا من زوج آخر دخولا حقیقیا یعتد بہ شرعا فی زواج صحیح ۔ (المیزان :ص:۴۱؍ م :۱۱۱)

ہر وہ شخص جو منصف مزاج ہوگا وہ ان چند عبارتوں کو دیکھ کر بآسانی سمجھ جاییگا کہ بہت ہی شاطرانہ انداز میں قوم و ملت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئ ہے.

گمراہ کرنے کا نیا انداز:

بعض نے فتوی کا مذاق اڑانا شروع کیا اور یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ سب سے پہلے انگریزوں نے فتاوی کا مذاق اڑانا شروع کیا جب کہ شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ کے ایک فتوی کی وجہ سے انگریزوں کی حکومت خطرے میں پڑ گئ تھی، اور آج بھی وہی لوگ فتوی کا مذاق اڑاتے ہیں جن کی زندگیوں میں فتوے نے کہیں نہ کہیں اپنا اثر ڈالا ہو، ممکن ہے کہ مذاق اڑانے والے کو بھی کبھی اس سے پالا پڑا ہو.

 بعض نے اس طلاق کو نربھیا والے قانون پر قیاس کرتے ہوئے کہا کہ جب نربھیا والے قانون میں اتنی سختی ہے تو پھر طلاق بل میں سختی کیوں نہیں ہونی چاہیے اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے نزدیک تین طلاق دینے والا اور ریپ کرنے والا دونوں برابر ہیں، ذرا بولنے سے پہلے اس بات کو سونچ ہی لیتے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں، لگتا ہے کہ قیاس کے اصول اچھی طرح یاد نہیں ہیں، کاش آپ کسی مدرسہ میں تعلیم حاصل کی ہوتی کیونکہ ایک عام مدرسہ کا طالب علم بھی اس قیاس کو در کریگا اور کہیگا کہ یہ قیاس، قیاس مع الفارق ہے، اس طرح تین طلاق کو نربھیا کیس پر قیاس کر کے پورے ملک کے لوگوں کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کی ہے.

اور ایک بات جو عام طور سے کہی جا رہی تھی اور خاص کر زعفرانی لیڈر کے جو دگج لیڈر مانے جاتے ہیں ان میں سے ہر ایک نے کہا کہ ہم اس بل کے ذریعہ سیاست نہیں کرنا چاہتے اور پھر وہ خود سیاست کرنے میں لگ جاتے ہیں یعنی اس انداز سے گمراہ کرنا چاہتے ہیں کہ سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے.

اور ایک بات جو عام طور سے کہی جارہی تھی جبکہ تین طلاق صحیح نہیں ہیں تو اس پر سزا کیوں نہیں ہونی چاہیے، تو ہم اس کے بارے میں کہتے ہیں تین طلاق صحیح نہیں ہے اس کا کیا مطلب یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو صحیح نہ ہو آپ اس پر سزا دیتے چلے جائیں گے؟

ایک اور بات بار بار کہیں جا رہی تھی کہ ہم اور ہمارے باڈی عورت کے محافظ ہیں یہ سن کر تو ہر ایک کو ہنسی آ ہی گئی کیونکہ آپ خود ایک طرف کہہ رہے ہیں کہ ہم عورتوں کے محافظ ہیں اور آپ خود اس بل کے ذریعہ عورتوں کو اس کے گھر سے اس کے خاندان اور اس کے مذہب سے نکالنے پر تلے ہوئے ہیں، کیا آپ خود عورتوں کی حفاظت کے نام پر سیاست نہیں کر رہے ہیں؟

اور بعض نے کہا کہ جب کورٹ نے تین طلاق کو مسترد کردیا تو اب اس پر پابندی کیوں نہیں ہونی چاہئے، تو میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ صاحب ذرا آپ اپنے دامن داغدار میں جھانکے اور پھر کہیں کہ کیا سپریم کورٹ نے شبریمالا کے بارے میں بھی کہا مگر آپ خود اس پر کیوں عمل نہیں کرتے، ذرا اور آگے بڑھ کر دیکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے بابری مسجد پر خاموشی کا حکم دیا ہے مگر آئے دن آپ اس کو ہندو مسلم مسئلہ بنا کر اس سے سیاست کرتے ہیں واہ صاحب! آپ کریں تو چمتکار، ہم کریں تو بلتکار.

اس بل کی خامیاں:

اس بل کے ذریعے صرف ایک طبقہ کو نشانہ بنایا گیا ہے، اس بل کو کریمنل بناناغلط ہے کیونکہ یہ آپسی اور پرسنل معاملہ ہے آپ اسکو کریمنل نہیں بنا سکتے، یہ بل شریعت کے خلاف تو ہے ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہندوستانی آئین دفعہ 14، 15، 16، 17، دفعہ 26، اور دفعہ 29 کے خلاف بھی ہے.

قابل ذکر بات:

قابل ذکر بات یہ ہے کہ تمام سیکولر  لیڈروں نے اس بل کی کھل کر مذمت کی اور دو تین خواتین مثلا رنجیت راجن ایم پی بہار وغیرہ نے اس بل کی کھل کر اور بڑھ چڑھ کر مذمت کی اور قرآن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو اس بات پر فخر ہونا چاہئے کہ قرآن میں اتنے اڈوانس قوانین موجود ہیں اور یہ کہہ کر اس خاتون نے ایک لیڈر جو پارلمینٹ میں میر جعفر اور میر صادق کا فریضہ انجام دے رہے تھے ان سے مخاطب ہوکر کہا کہ آپ کو قرآن و حدیث پڑھنا چاہئے پھر آخر میں اس خاتون نے معزز سپیکر سے درخواست کی کہ قرآن ہی کے اس قانون کو سارے مسلمانوں پر لاگو کیا جائے.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔