پاکستانی قومیت کی اصل بنیاد کیا ہے؟

9/11 کے بعد کے کڑے وقتوں میں اس وقت کے فوجی سربراہ مملکت جنرل پرویز مشرف نے "سب سے پہلے پاکستان” کا حقیقت پسندانہ نعرہ لگایا تو کوئی نصف درجن موقع پرستوں اور ایک نام نہاد قانون دان نے "وادئ سندھ کی تہذیب ” کا شوشہ چھوڑا اور اِسلامی شناخت کو ترک کر کے پاکستانی قومیّت کی کچھ لادین قسم کی ایک نئی تعریف گھڑنے کی کوشش کی۔ پالتو کتوں کے ہمراہ فوجی صدر کی تصاویر کندھوں پر اٹھائے پاکستان کااِسلامی تشخّص بدلنے کے خواہش مندوں کو شاید یہ حقیقت معلوم ہی نہیں تھی کہ ایٹمی طاقت سے لیس دنیا کی پانچویں بڑی افواجِ پاکستان کا رہنما اُصول "ایمان، تقویٰ ، جہادِ فی سبیل اللہ” ہے جو کم وبیش ہر فوجی یونٹ کی مرکزی عمارت پر جلّی حروف میں لکھا ہوا ہے۔ مسلّح افواج اور جملہ سِول آرمڈ فورسز اپنی بنیادی پریڈ "جلدی چل” عنایت حسین بھٹی کے گائے ایک مِلّی نغمے”اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ کی رحمت کا سایہ، توحید کا پرچم لہرایا، اے مردِ مجاہد جاگ ذرا، اب وقتِ شہادت ہے آیا” کی تال پر کرتی ہیں ۔

اِس میں شک نہیں کہ وطن کا عمومی مادی تصوّر اُس کے جغرافیائی خدوخال، روایات، لباس، تہذیب وتمدّن، لوک کہانیوں اور گیتوں سے ہی ابھرتا ہے اور وطن کی مٹّی سے پیار ایک فطری یا جبلّی رویّہ۔ اسی لئے تو اقوامِ عالم میں حُبّ الوطنی سے متعلقہ لٹریچر اور مِلّی نغموں میں وطن پر جان نچھاور کرنے کی باتیں پڑھنے سُننے کو ملتی ہیں۔ پاکستان کا کیس مگر مدر لینڈ یا فادر لینڈ جیسے مادی تصوّراتِ وطنیت سے سراسر جدا ہے۔ قومی پرچم کے سفید حِصّے کے مالک، وطنِ عزیز کے غیر مسلم سپوتوں کی قربانیاں سر آنکھوں پر، مگر عقیدۂ آخرت پر ایمان رکھنے والامسلمان سپاہی جان کی قربانی وطن کی مٹّی، درختوں، وادیوں ، صحراؤں، پہاڑوں اور دریاؤں کیلئے نہیں دیتا۔ بلکہ اِسلامی مملکت میں اِسلامی نظام کے قیام اور تحفّظ اور خالصتاََ اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے اِس امید کے ساتھ کہ روزِ آخرت اُس کا انجام سیّدالشہداء حمزہؓ بن عبدالمطلب اور حسینؓ بن علیؓ کے ساتھ ہو گا۔ جنابِ عالیٰ ! یہی تو وہ جذبہ ہے جِس کی بنیاد پر جری صفت سپاہی دہشت گردوں کی طرف سے اللہ اکبر کے نعرے سن کرکسی ابہام کا شکار ہوئے بغیر اُن کے خلاف سینہ سپر ہو کر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ ریاست کے خلاف برسرِ پیکار نعرۂ تکبیر لگانے والے گُمراہ جنگجو بیرونی ایجنڈے کے تحت وطنِ عزیز میں اِسلام کو بدنام کرکے دراصل اِسلامی جمہوریہ کو لادین ریاست میں بدلنے کی خواہش رکھنے والوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔

شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ کے فرزند جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال مرحوم کے مطابق: "بالیقین ہم پاکستانی ہیں اور اقوامِ عالم میں پاکستانی قومیت ہماری شناخت ہے۔ لیکن یہ ریاستِ پاکستان کے اتحاد کی صرف ایک ظاہری اور ثانوی بنیاد ہے۔ بطور ایک قوم ہماری نشوونما کی اصل بنیاد اِسلام ہے جو ہمیں ایک قوم کے طور پر پختہ طور پر متحد اور ریاست کے اتحاد کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ تاہم پاکستان کی علاقائی شناخت کسی طور بھی اِسلام کے ساتھ مزاحم نہیں کیونکہ پاکستان حاصل کر لینے کے بعد مُسلم قومیت یا پاکستانی قومیت میں کوئی فرق باقی نہیں رہا۔ یہ دونوں ایک اور بالکل یکساں چیز ہیں۔ یہاں تک کہ کشمیر کے علاقے پر ہمارا دعویٰ بھی اسی اصول (مُسلم قومیّت ) کی بنیاد پر ہے۔ نتیجہ کے طور پر پاکستانیوں کے ایک قوم ہونے کی بنیاد اِسلام ہے۔ ” جسٹس جاوید اقبال مزید لکھتے ہیں: ” پاکستان بننے سے بہت پہلے اِسلام نے ایک قوم بنانے کی طاقت کے طور پر کام کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ برِ صغیر پاک وہند کے مسلمانوں میں ایک قومی شعور پیدا ہوا اور انھوں نے اپنے حقِ خود ارادیت اور ایک آزاد وطن کے قیام کیلئے مِل کر جدوجہد کی ۔ چنانچہ تاریخی حقیقت جو جھٹلائی نہیں جا سکتی وہ یہ ہے کہ ایک علیحدہ قوم (وطن) کے مطالبے سے کہیں پہلے متحدہ ہندوستان میں مُسلم قومیّت کا قیام عمل میں آگیا تھا۔ حقیقت یہی ہے کہ مُسلم قومیت نے جدوجہد کی اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ چنانچہ تکنیکی بنیادوں پر پاکستان قومیّت کی کسی دیگر تعریف کی بنیاد پرمعرضِ وجود میں نہیں آیا۔ یہ صرف اور صرف مسلمان قوم کی علیحدہ علاقائی شناخت حاصل کرنے کی جدوجہدکا ایک اثر، نتیجہ یا پھل ہے ۔”

ایک اور جگہ فرزندِاقبال فرماتے ہیں: "اِسلامی تصورِ الٰہیات میں مذہب اور دین کے الفاظ میں واضح فرق ہے۔ مذہب سے مراد کسی کا ذاتی عقیدہ، نقطۂ نظر یاراستہ ہے جب کہ دین سے مراد اِسلام کے وہ آفاقی اصول ہیں جِن کا اطلاق تمام انسانیت پر ہوتا ہے۔ چنانچہ اِس لحاظ سے پاکستان کا کوئی خصوصی مذہب (یا فرقہ) نہیں ہے کیونکہ اِس کی بنیاد کسی کے ذاتی نقطۂ نظر یا اِسلام کے کسی فرقے پرہے نہ ہی یہ کسی مذہب (فرقے) کو نمایاں کرنے کیلئے ہے۔ یہ ہے ریاستِ پاکستان کا وہ خاص پہلو جِس کی وضاحت قائدِ اعظمؒ نے 11اگست 1947ء کو قانون ساز اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کی تھی۔ پاکستانیوں کیلئے اِسلام اُن کے ایک قوم ہونے اور حُبّ الوطنی کی بُنیاد ہے۔ لیکن اِسلام میں فرقہ واریت کی ہرگز گُنجائش نہیں۔ پاکستان کسی طور بھی مُلّائیت پر مبنی مذہبی ریاست نہیں ہے۔ یہی وہ نقطہ ہے جِس کی وضاحت قائدِ اعظمؒ نے 19فروری1948ء کو اپنے ریکارڈشُدہ پیغام میں کی اور فرمایا: کوئی غلطی پر نہ رہے۔ پاکستان کوئی مذہبی ریاست یا اِس طرح کی کوئی چیز نہیں۔ اِسلام ہم سے دیگر عقائد سے متعلق برداشت کا تقاضا کرتا ہے اور ہم کسی بھی عقیدے سے تعلّق رکھنے والوں کو ، جو ایک سچّے اور وفادار پاکستانی شہری کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنے کیلئے خود سے خواہشمند ہوں اور اِس کیلئے تیار ہوں، خوش آمدید کہتے ہیں ۔ اِسلام میں رُوحانی اور دنیاوی ذمہ داریاں نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں بلکہ ہر مسلمان پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنی دنیاوی ذمہ داریاں سرانجام دیتے ہوئے مسلسل رُوحانی اقدار کا احساس کرے۔ چُنانچہ کُھلے دِل سے برداشت کا جذبہ اور اِسلام اور دیگر عقائدکے ماننے والوں کے مابین غیرجانبداری جو سیکولرازم کا خاصہ سمجھے جاتے ہیں ، اِسلام کا لازمی حصّہ ہیں اور اِسی وجہ سے اِسلامی ریاست ایک مثالی سیکولر ریاست کے معیارات سے ہم آہنگ ہوتی ہے۔ ” (مضمون ہذٰاکی تیّاری میں جاوید اقبال،آئیڈیالوجی آف پاکستان، سنگِ میل پبلیکیشنز، لاہور 2005، صفحات 12تا 16سے مدد لی گئی)۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔