سلطنت اور دین کا تعلق – (آخری قسط )

 تحریر: سید سلیمان ندوی ۔۔۔ ترتیب:عبدالعزیز
امام راغب اصفہانی نے مفردات میں لکھا ہے کہ خلافت کے اصل معنی نیابت اور قایم مقامی کے ہیں، لیکن اس نیابت اور قایم مقامی کی تین صورتیں ہیں: ’’خلافت کے کے معنی کسی کے نائب ہونے کے ہیں اب یہ نیابت اصل کی عدم موجودگی کے سبب سے ہو یا اس کی موت کے سبب سے ہو یا اس کی موت کے سبب سے ہو یا اس کے اپنے منصب سے عاجز ہونے کے سبب سے ہو یا نائب کی نیابت کی عزت بخشنے کیلئے ہو‘‘ (ص:55، مصر)۔
پھر امام راغب نے متعدد آیتیں نقل کی ہیں جن میں یہ تیسرے معنی ان کے نزدیک مناسب ہیں اور یہی معنی اللہ تعالیٰ کی نیابت کیلئے موزوں ہوسکتے ہیں، مفتی آلوسیؔ زادہ صاحب روح المعانی تک نے ہر آیت پر جس میں یہ لفظ آیا ہے، تینوں معنوں کیلئے مختلف قول نقل کئے ہیں اور خود کوئی فیصلہ کن بات نہیں کہی ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ کس آیت میں خلافت کے کون سے معنی لینے چاہئیں۔ میرے دل میں یہ بات آتی ہے اور روز مرہ کا یہ عام محاورہ بھی ہے کہ جہاں متکلم یہ ظاہر کر دے کہ یہ شخص فلاں کا جانشین ہے وہاں تو اسی فلاں کا جانشین ہونا مقصود ہوگا اور جہاں متکلم اس کی تصریح نہ کرے تو اس سے مقصود خود اسی متکلم کی جانشینی اور قایم مقامی ہوگی۔ اس اصول پر قرآن پاک کی ہر اس آیت میں جس میں اس جانشینی مراد ہوگی اور جہاں تصریح نہیں ہے وہاں خود متکلم قرآن یعنی اللہ تعالیٰ کی نیابت اور قایم مقامی ثابت ہوگی جیسے قرآن پاک میں ایک آیت ہے:
’’اور خرچ کرو اس (مال) میں سے جس میں تم کو اس نے نائب بنایا ہے‘‘ (حدید:1)۔
اب اس آیت میں یہ ذکر نہیں کہ کس کا نائب بنایا ہے ، اس لئے مفسرین دونوں طرف گئے ہیں۔ کچھ نے کہا ایک کے بعد دوسرے کو اس مال کا نائب بنایا، جیسے باپ کے بعد بیٹا نائب ہوتا ہے۔ کچھ نے کہا کہ مال در حقیقت اللہ تعالیٰ کی ملک ہے، اس نے جس کے حوالہ اپنے مال و دولت کو کیا ہے، اس کو اپنا امین اور نائب بنایا ہے کہ وہ اس کی طرف سے اس امورِ خیر میں اس کو صرف کرے، میں نے جو اصول اوپر پیش کیا ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں دوسرے معنی صحیح ہیں۔ کشاف، بیضاوی اور روح المعانی وغیرہ میں بھی اسی معنی کو مقدم رکھا ہے۔ کشاف میں ہے:
’’وہ مال جو تمہارے قبضے میں ہے (درحقیقت تمہارا نہیں ہے) اللہ تعالیٰ کا ہے کیونکہ اسی نے اس کو بنایا ہے، اسی نے تمہارے تمتع کیلئے اس کا تم کو مالک بنایا ہے اور تم کو اس کے تصرف کا اختیار بخشا ہے‘‘ ۔
بیضاوی میں ہے: ’’وہ مال جس کے تصرف میں اللہ تعالیٰ نے تم کو جانشین بنایا ہے‘‘۔
روح المعانی میں ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کو اپنا اس (مال) کے تصرف میں جانشین بنایا ہے نہ یہ کہ تم واقعی اس کے مالک ہو‘‘۔
اس سے معلوم ہوا کہ ان مفسرین کے نزدیک اموال کی ملکیت درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ہے اور بنی آدم ان مملوکات کے تصرف میں اللہ تعالیٰ کی اجازت سے اس کے وکیل و نائب ہیں۔
اب ہم اصل آیت کی طرف رجوع کرتے ہیں جو اس باب کا سر عنوان ہے، یعنی ’’اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘ (بقرہ:4)۔
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے تعمیم کے ساتھ انہی سابقہ دونوں معنوں کو یکے بعد دیگرے لکھ دیا ہے اور کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ طبری میں یہ دونوں قول ہیں، ایک یہ کہ ایک مخلوق کے بعد دوسری مخلوق کی جانشینی کا ذکر ہے، دوسرا یہ کہ یہ اللہ تعالیٰ اپنی نیابت کا ذکر فرما رہا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کی روایت کے حوالہ سے لکھا ہے:
’’میں اپنی طرف سے زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں جو میرا خلیفہ ہوگا، میری مخلوقات کے درمیان حکم کرنے میں‘‘۔
اس کے اوپر ابن زید کی تفسیر کا مطلب یہ بیان کیا ہے: ’’اللہ تعالیٰ فرشتوں کو خبر دے رہا ہے کہ وہ زمین میں اپنا ایک خلیفہ بنا رہا ہے جو اس کے حکم کے مطابق اس کی مخلوقات میں فیصلہ یا حکومت کرے گا‘‘ (ص:104، مصر)۔
اس سلسلہ میں بیضاوی کی تصریح زیادہ حکیمانہ ہے: ’’اور اس سے مراد آدم علیہ السلام ہیں، کیونکہ وہ اس کی زمین میں اللہ تعالیٰ کے خلیفہ تھے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو خلیفہ بنایا زمین کی آبادی اور لوگوں کی نگرانی اور نفوس کی تکمیل اور اللہ تعالیٰ کے احکام نافذ کرنے میں اللہ تعالیٰ اس کا محتاج نہیں کہ کوئی اس کا خلیفہ ہو، بلکہ اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی تلقی کسی واسطہ کے بغیر ممکن نہ تھی‘‘۔
لیکن قرآن پاک کی آیتوں سے جو ابھی اوپر گزری ہیں اور جن میں اللہ تعالیٰ نے سارے بنی آدم کو خلفاء فرمایا ہے، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے توسط سے اس خلافت الٰہی کی سند ان کے متبوعین تک کو عطا ہوئی ہے اور سارے بنی آدم اس شرف سے ممتاز ہیں۔
آیت میں خلافت کی جو تفسیر ابھی بیان ہوئی ہے اس کی ترجیح کے حسب ذیل اسباب ہیں:
(1 تمام مفسرین نے شروع سے اس مطلب کو لکھا ہے۔
(2 روایات سے اور قرآن پاک کے اشارے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ ایک مخلوق کے بعد دوسری مخلوق کو پیدا کرتا رہا۔ اس لحاظ سے آدمؑ کی تخلیق کوئی نئی بات نہ تھی، لیکن جس اہتمام سے، جس شان سے اور جس اہمیت سے حضرت آدمؑ کی پیدائش، اللہ کی نیابت، فرشتوں کے سجدہ کرنے اور جنت کے داخلہ، پھر ان کی عدول حکمی اور دنیا میں آباد ہونے اور سلسلۂ انبیاء قایم کرنے وغیرہ کی خصوصیات و فضائل جو بیان کئے گئے ہیں ان سے پہلے کی مخلوقات میں کوئی ممتاز نہیں ہوا۔ یہ اہتمام اس بات کی دلیل ہے کہ نیابت گزشتہ مخلوق کی نہیں بلکہ خالق کی تھی۔
(3 اوپر تفصیل سے تمام آیتوں کو لکھ کر جو اصول ممہد کیا گیا ہے اور جس کا منشا یہ ہے کہ متکلم کے جس کلام میں نیابت کی توضیح مذکور ہوگی اس میں اسی مذکور کی نیابت سمجھی جائے گی اور جو کلام اس توضیح سے خالی ہوگا وہاں لا محالہ اسی متکلم کی نیابت مراد ہوگی۔ جیسے کسی بادشاہ نے کہا کہ میں نے زید کو نائب بنایا۔ اب اگر کلام میں اس کی توضیح مذکور ہے یا سیاق و سباق سے مفہوم ہوتا ہے کہ کس کا نائب بنانا مقصود ہے، تو اسی کی نیابت سمجھی جائے گی اور اگر اس توضیح سے کلام کلیتاً خالی ہے تو مقصود خود بادشاہ کا اپنا نائب بنانا ہے۔ اس اصول پر ظاہر ہے کہ اس آیت میں اور نہ اس سے آگے اور نہ اس کے پیچھے کسی ایسے شخص کی توضیح ہے جس کا آدم کو نائب بنانا سمجھا جائے۔ ایسی حالت میں بلا شبہ خود اپنا نائب بنانا متعین ہوجائے گا۔
(4 اس معنی کی تائید میں اور بھی آیتیں ہیں جن سے آدمؑ کے شرف و کرامت کا اظہار ہوتا ہے، فرمایا:
’’ ہم نے آدمؑ کے بیٹوں (بنی آدم) کو عزت بخشی اور ان کو خشکی اور تری میں ہم اٹھائے ہیں اور ان کو پاک چیزیں روزی کیں اور ہم نے ان کو اپنی بہتیری مخلوقات پر بزرگی دی‘‘ (بنی اسرائیل:7)۔
دوسری آیت میں فرمایا: ’’ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا‘‘ (تین:1)۔
پھر آسمان سے لے کر زمین تک جو کچھ ہے سب اس کیلئے بنا ہے اور سب اس کے کام میں لگے ہیں: ’’اور جتنی چیزیں آسمانوں میں ہیں اور جتنی چیزیں زمین میں ہیں، ان سب کو اپنی طرف سے مسخر بنایا، بے شک اس میں ان لوگوں کیلئے دلائل ہیں جو سوچتے ہیں‘‘ (جاثیہ:2)۔
اور یہی نیابت الٰہی کی حقیقت ہے، قرآن میں ایک جگہ نہیں بیسیوں مقامات میں تمام مخلوقات الٰہی کو انسان کا تابعدار اور مسخر اور اسی کیلئے ان کا پیدا کیا جانا بہ تفصیل مذکور ہے۔ مزید تشریح کیلئے چند آیتیں اور لکھی جاتی ہیں: ’’اور اس نے جو کچھ زمین میں ہے سب تمہارے لئے پیدا کیا‘‘ (بقرہ:3)۔
’’اور وہی تو ہے جس نے دریا کو (تمہارے) اختیار میں کیا‘‘ (نحل:2)۔
’’اللہ ہی تو ہے جس نے دریا کو تمہارے قابو میں کر دیا‘‘ (جاثیہ:1)۔
’’اور کشتیوں (جہازوں) کو تمہارے زیر فرمان کر دیا‘‘ (ابراہیم:5)۔
’’اور نہروں کو بھی تمہارے زیر فرمان کیا‘‘ (ابراہیم:5)۔
ان آیات سے ثابت ہے کہ انسان اس کائنات کا مقصود اصلی ہے اور اسی کو ساری مخلوقات کی سرداری بخشی گئی ہے اور یہی خلافت الٰہی کا منشا ہے، ایک اور آیت میں ارشاد ہے: ’’ہم نے (بار) امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو انھوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اس کو اٹھالیا، بیشک وہ ظالم اور جاہل تھا‘‘ (احزاب:9)۔
اس آیت سے ظاہر ہے کہ ساری مخلوقات میں سے امانت و نیابت الٰہی کے بار کا اٹھانے والا انسان ہی ہے۔ یہ امانت الٰہی کیا ہے، یہ اسی نیابت و خلافت کے بیان کا دوسرا پیرایہ ہے، نائب حقیقت میں کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا کہ اصل مالک کی طرف سے صرف ایک وکیل اور امین کی حیثیت رکھتا ہے، اس لئے انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ صرف مالک کی امانت ہے جو اس کو ملی ہے تاکہ نیابت کے فرض سے عہدہ بر آ ہوسکے۔ اس کا علم اور اس کے دوسرے کمالات و محاسن داد صاف سب اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہیں، اور اسی کے خزانے سے اس کو چند روز کیلئے عاریت طے ہیں۔ یہ حدیث کہ فان اللہ خلق آدم علی صورتہٖ (اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے) اسی معانی کی طرف مشیر ہے اور مشہو قول تخلقوا باخلاق اللہ (اللہ کے اخلاق سے متصف ہو) کی تشریح بھی یہی ہے۔
اس تفصیل سے واضح ہوگا کہ اسلام کا نظریۂ سلطنت و ریاست ایک ایسے تصور پر مبنی ہے، جو انسانیت کو بلند سے بلند نقطہ تک پہنچاتا ، اور جس کے اندر مادی و روحانی، سیاسی اور اخلاقی، دنیاوی اور دینی دونوں تصورات باہم دست و گریباں ہیں۔
اب اس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ خلق عالم کا مقصود اور مخلوقات کا سردار اپنے اصل مالک کے سامنے اپنی بندگی اور عبودیت اور غلامی کا اقرار کرے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کی غرض بتادی ہے:
’’میں نے انسان اور جن کو اسی لے بنایا کہ وہ میری بندگی کریں‘‘۔
اس کی حیثیت اس ایجنٹ کی ہے جس کا فرض صرف اپنے مالک کے احکام کی تنقیذ ہے، اس کے ساتھ میں شریعتِ الٰہی کا فرمان ہے، اس کے احکام کو خود بجا لانا اور ساری دنیا کو اس کے بجا لانے پر آمادہ کرنا اس کا سب سے بڑا فرض ہے، وہ صرف اپنے مالک کی مرضی کا تابع اور اس کے حکم کا بندہ ہے۔

تبصرے بند ہیں۔