قومی پرچم کےسفید حصے والے پاکستانی

ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں سیاہ فام باشندوں کو غلامی سے نجات دلانے کے علم بردارو ینڈل فلپس کا قول ہے: "حکومتیں اقلیّتوں کے حقوق کے تحفّظ کیلئے بنائی جاتی ہیں۔ امراء اور پیاروں کو تحفّظ درکار نہیں ہوتا۔ ان کے بہت سارے دوست اور محض چند دشمن ہوتے ہیں۔ ” اقلیّتی برادری سے تعلق رکھنے والے کچھ نامور پاکستانیوں کی رائے میں اِسلامی جمہوریۂ پاکستان محض برِ صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی بلاشرکتِ غیرے جدوجہد کا ہی نتیجہ نہیں بلکہ یہ متحدہ ہندوستان میں ہندوؤں کی غالب اکثریت سے تنگ جملہ اقلیّتوں کی مشترکہ کاوشوں اور قربانیوں کا ثمر ہے۔ مگر بابائے قومؒ کی رحلت کے بعد قومی قیادت کی ناقص پالیسیوں کے باعث اقلیّتی کمیونٹی سماجی ومعاشی پسماندگی اور امتیازی سلوک کا شکار ہوتی چلی گئی۔ مارٹن لوتھر کنگ نے کہا تھا: "آپ صرف اسی کے ذمہ دار نہیں ہیں جو آپ کہتے ہیں بلکہ اُس کے بھی ذمہ دار ہیں جو آپ نہیں کہتے۔” پاکستانی اقلیّتی برادری کاشکوہ یہ بھی ہے کہ اُن سے ہونے والی ناانصافیوں پر اکثریتی آبادی نے بہت کم آواز اٹھانے کی زحمت کی اور زیادہ تر خاموش تماشائی ہی بنی رہی ۔

23 مارچ 1940ء کی قراردادِ لاہور میں وعدہ کیا گیا : ” آئین میں اقلیّتوں کے مذہبی، ثقافتی، معاشی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق اور مفادات کیلئے ان کے ساتھ رابطہ کر کے مناسب، مؤثر اور لازمی تحفّظات مہیّا کئے جائیں گے ۔” آل انڈیا مسلم لیگ کے قانون ساز کنونشن منعقدہ نئی دہلی مورخہ8 تا 9 اپریل 1946ء سے خطاب کرتے ہوئے قائدِ اعظمؒ نے فرمایا تھا: "ہندوستان کے اِس وسیع خطۂ ارضی میں ہندو دھرم اور فلاسفی سے بالکل بر عکس دس کروڑ صاحبِ ایمان مسلمان بستے ہیں اور (تقسیمِ ہند نہ ہونے کی صورت میں) متحدہ ہندوستان کاآئین مسلمانوں، مسیحیوں اور دیگر اقلیّتوں کو سماجی ومعاشی طور پر ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا کر انھیں غلاموں سے بدتر اقلیّت میں بدلنے کا باعث بنے گا۔ ” 14جولائی 1947ء کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے قائدِ اعظمؒ نے فرمایا:” کسی بھی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے اقلیّتی افراد کوتحفّظ فراہم کیا جائے گا۔ ان کامذہب، عقیدہ اور ایمان محفوظ ہوگا۔ ان کی عبادات کی آزادی میں کسی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ انہیں ان کے مذہب، عقیدے، زندگی اور ثقافت کا تحفّظ دیا جائے گا۔ ذات اور نسل کے امتیاز کے بغیر وہ ہر لحاظ سے پاکستان کے شہری ہوں گے۔ انہیں ان کے حقوق اور استحقاق حاصل ہوں گے۔ اور بلاشبہ شہری ذمہ داریاں اس کے ہمراہ ہوں گی۔ چنانچہ وہ ریاست کے معاملات میں اپناکردار ادا کریں گے۔”

دیکھا جائے تو قانون ساز اسمبلی سے قائدِ اعظم ؒ کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کا تقریباََ ایک تہائی حصّہ اقلیّتوں سے متعلق ہے۔ آپ نے فرمایا: "ہندوستان کی تقسیم ناگزیر تھی۔ تاہم معرضِ وجود میں آنے والے دونوں ملکوں میں اقلیّتیں باقی رہ جائیں گی۔ پاکستان میں ہندو اور ہندوستان میں مسلمان۔ اب جب کہ پاکستان حاصل کیا جا چکا ہے، ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کی مخالفت ترک کر کے عوام کی بھلائی کیلئے مل جل کر کام کرنا چاہیئے۔ اگر آپ اپنا ماضی فراموش کر کے اور یہ بھول کر کہ ماضی میں کون کس کے ساتھ کیسے تعلقات کا حامل رہا، اپنے آپکو مساوی حقوق اور ذمہ داریاں رکھنے والے صرف اس ریاست کے شہری کی رُوح اور جذبے کے ساتھ باہم مِل کر کام کریں تو یقیناََ آپ ترقّی کی انتہاؤں کو چھو سکتے ہیں۔ آپ آزاد ہیں ۔ آپ پاکستان کی اس ریاست میں اپنے مندروں، اپنی مساجد اور اپنی عبادت کے دیگر مقامات پر جانے میں آزاد ہیں۔ آپ کا تعلق کسی مذہب، ذات یا عقیدے سے ہو، ریاست کے کاروبار سے اِس کا کوئی تعلق نہیں۔ مذہبی لحاظ سے نہیں، کیونکہ وہ تو ہر فرد کا اپنا ذاتی ایمان ہے، مگر سیاسی لحاظ سے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو ہی ہندو رہیں گے نہ مسلمان ہی مسلمان ، وہ تو بس ریاست کے شہری ہوں گے ۔ "

فروری1948ء کو ریڈیو پاکستان پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے عوام سے خطاب کرتے ہوئے قائدِ اعظمؒ نے فرمایا: ” بہر طور پاکستان ملائیت پر مبنی کوئی ریاست نہیں جہاں الہامی مشن پر مامور مذہبی مبلغین کی حکومت ہو۔ ہمارے ہاں بہت سارے غیر مسلم، ہندو، مسیحی اور پارسی بھی ہیں مگر وہ سب پاکستانی ہیں۔ انہیں دیگر شہریوں ہی کی طرح کے سب حقوق اور استحقاق حاصل ہوں گے اور وہ پاکستان کے معاملات میں اپنی اہلیت کے مطابق اپنا کردار ادا کریں گے۔” انہی رہنما اصولوں کے مطابق آئینِ پاکستان کے آرٹیکلز ۲۰ تا ۲۲ کے تحت قانون واخلاقیات کے اندر ہر شہری کو اپنی مرضی کا مذہب اور عقیدہ اختیار کرنے ، اُس کی تبلیغ کرنے اور مذہبی ادارہ قائم کرنے کی اجازت ہے اور کوئی بھی تعلیمی ادارہ طلبہ کو اُن کے اپنے مذہب کے علاوہ کسی دیگر مذہب کی تعلیم یارسومات و تقریبات میں شرکت کا پابند نہیں کر سکتا۔

قائدِ اعظمؒ کے مندرجہ بالا فرمودات، آل انڈیا مسلم لیگ کی قراردادوں کے متن اور آئینِ پاکستان کے تحت اقلیّتوں کے پاکستانی شہری کے طور پر حقوق اور ذمہ داریوں کا تعیّن کرنا مشکل نہیں ۔ عقیدے، ذات اور رنگ کے امتیاز کے بغیر وہ ریاستِ پاکستان کے برابر کے شہری ہیں جنھیں ترقی کرنے کے برابر کے مواقع فراہم کئے جانے چاہیئیں اور مذہب کی بنیاد پر ان سے کوئی تفریق روا نہیں رکھی جانی چاہیئے۔ قرآنی اصول بالکل واضح ہے۔ لااکراہ فی الدین ۔ دین میں جبر نہیں۔ تجربہ شاہد ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ حسنِ سلوک اور اعلیٰ اخلاق تبلیغِ اسلام کیلئے تلوار اور جبر سے بڑے ہتھیار ہیں۔ کچھ عرصہ قبل سابق پاکستانی کرکٹرزانضمام الحق اور محمد یوسف نے مِل کر ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم کے کپتان برائن لارا کو کراچی کے ایک ہوٹل میں کھانے پر بلایا اور اِسلام میں روزمرہ زندگی میں حسنِ معاملات کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے اسے دینِ اِسلام کی دعوت دی۔ برائن لارا یہ سب سن کر خاموش ہو گیا ۔ کھانا کھا کر ہوٹل سے رخصت ہوا تو محمد یوسف سے کہنے لگا، بے شک زندگی اسی طرح گزارنی چاہیئے جیسے مسلمانوں کو گزارنے کا حکم دیا گیا ہے مگر یہ تو بتاؤ کہ اِس طرح کی زندگی گزارنے والے مسلمان آج کل کہاں بستے ہیں؟

موہن داس کرم چند گاندھی نے لکھا تھا: "میں ہمیشہ سے بھی بڑھ کراِس بات کاقائل ہوں کہ اِسلام کیلئے جگہ بنانے کاکام تلوارنے نہیں بلکہ پیغمبرﷺکی کٹرترین سادگی، کامل انکساری اور وعدوں کی قابلِ بھروسہ پاسداری نے کیاتھا۔ یہ تلوارنہیں بلکہ آپﷺکی یہ صفاتِ عالیہ تھیں جنھوں نے راستے کی ہررکاوٹ کوہٹادیا اور ہرمصیبت کوفتح کیا۔ وقت آگیا ہے کہ ہم انفرادی واجتماعی اخلاقیات کا ازسرِ نوجائزہ لیں۔ ضروری ہے کہ بابائے قومؒ کے فرمودات کے مطابق پاکستان کو پائیدار جمہور ی روایات کی حامل اعتدال پسند اسلامی فلاحی ریاست بنانے کیلئے سنجیدہ اقدامات کئے جائیں اور قومی پرچم کے سفید حصّے کی مالک اقلیّتوں کو آئینِ پاکستان کے مطابق بھرپور مذہبی آزادی اور احساسِ تحفّظ فراہم کیا جائے تاکہ وہ پرچم کے ہرے رنگ والی غالب اکثریت کے شانہ بشانہ ترقّی کی منازل طے کر سکیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔