حرم کا رَش اور حقیقی زادِ راہ کی قِلّت

صاحبِ نصاب مسلمانوں پر کم از کم ایک حج فرض ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے: اور لوگوں پر اللہ کیلئے اُس کے گھر کا حج فرض ہے جو کوئی اُس کے راستے کی طرف استطاعت رکھتا ہو، اور جو کوئی کفر (انکار) کرے تو اللہ تعالیٰ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے۔ سرکارِ دو عالم ﷺسے دریافت کیا گیا، کون سا عمل افضل ہے؟ فرمایا، اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لانا، اُس کے بعد اللہ کے راستے میں جہاد کرنا اور اُس کے بعد حجِ مبرور ۔ کچھ دیگر احادیثِ مبارکہ کے مطابق: ایک عمرے سے دوسرے عمرے تک کے تمام درمیانی گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اور حجِ مبرور کی جزا جنت کے سوا کچھ نہیں (بخاری و مسلم) ، رمضان کا عمرہ حج کے برابر ہے (بخاری) ۔ سفرِ حج کیلئے خرچ اور توشہ ہمراہ لینے بابت قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اور اپنے ساتھ زادِ راہ لے لیا کرو ، پس تحقیق بہترین زادِ راہ تو تقویٰ ہے۔ دلوں کی پرہیز گاری کی اہمیت بابت قرآنِ کریم میں ایک اور جگہ فرمایا: اللہ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ اُن کے خُون، بلکہ اُسے تو تمھارے دِل کا تقویٰ پہنچتا ہے۔

ایک بزرگ کے مطابق انھوں نے سن 1972ء میں پہلا حج کیا تھا۔ اُس سال تقریباََ چھ لاکھ عازمینِ حج حرم شریف پہنچے تھے۔ دُنیا بھرمیں حاجیوں کی اتنی بڑی تعداد کا تہلکہ مچ گیا ۔ چھ لاکھ اہلِ ایمان جب جوش و جذبے کے ساتھ ہم آواز ہو کرلبیک الھم لبیک کا تلبیہ پڑھتے تو زمین دہل جاتی اور مکّہ کے پہاڑ گونجتے ہوئے گویا اُن کے ہمنوا ہو جاتے ۔ اُس زمانے میں ‘سفینۂ عابد ‘ نامی بحری جہاز چلا کرتا تھااور کئی دنوں کے سفر کے بعد سرزمینِ حرم میں داخل ہوتا تھا۔ بحری سفر کے دوران عازمینِ حج بلند آواز سے تلبیہ پڑھتے تو لگتا جیسے سمندر کی لہریں بھی اُن کے ہم آواز ہو گئی ہوں۔ حکومت پاکستان نے اگلے برس سے سفرِ حج کیلئے دوبارہ بحری سروس شروع کرنے کا اعلان کیا تو ‘ سفینۂ عابد’ کے حاجیوں کا ایمان افروز تلبیہ کانوں میں گونجنے لگا۔

آجکل ٹیلی ویژن کی سکرین پر طوافِ کعبہ کے مناظر پر نگاہ پڑتے ہی اکثر احباب کے منہ سے فی البدیہہ ادا ہونے والا فقرہ ہے: ماشااللہ کس قدر رَش ہے! حالیہ برسوں میں دُنیا بھر سے کم و بیش ساٹھ ستّر لاکھ عازمینِ حج حرمِ پاک کو روانہ ہوتے ہیں۔اخباری خبروں کے مطابق ان دنوں عمرہ کرنے کیلئے سعودی عرب پہنچنے والے عازمین میں پاکستانیوں کی تعداد ماشااللہ سب سے زیادہ ہے۔ اِن میں سے زیادہ تر عازمین نفلی عمرہ کرنے والے ہوتے ہیں۔ صحنِ حرم کھچا کھچ بھرنے لگا مگر حجاج و عمار کی زبانیں لبّیک کی صداؤں کو چھوڑ کر آپ کا پیکج کتنا ہے؟ رہائش حرم شریف سے کتنی دور ہے؟ کھانا پیکج میں شامل ہے؟ آپ بھی ساہیوال سے تشریف لائے ہیں؟ریال بہت مہنگا ہو گیا، جیسی گفتگو میں مصروف ہو گئیں اور دِل تقویٰ سے خالی ہونے لگے۔ رہا تلبیہ، تو اُسے پڑھنے کے مسائل دریافت کرتے کرتے وقت گزر جاتا ہے مثلاََ پست آواز سے پڑھناچاہیئے یا بآوازِ بلند ؟ یک آواز ہو کر پڑھنا ہے کہ الگ الگ؟ عورتیں کیسے پڑھیں گی؟

حج کی سخت کوش عبادت کیلئے جواں سالی میں یہ فریضہ ادا کرنا بہتر ہے تاہم برِّصغیر پاک و ہندکے عازمین کی اکثریت عموماََ عمر کے آخری حصّے میں حج و عمرہ پر روانہ ہوتی ہے۔ تیس چالیس سال قبل معاملہ یوں تھا کہ روانگی سے مہینوں قبل عازمینِ حرم کو کچھ عجیب چُپ سی لگ جایا کرتی تھی۔ شاید اللہ کے گھر کی حاضری کا رُعب زبانوں پر تالے لگا دیتا تھا۔ حج سے واپسی پر بھی نہ جانے کیوں یہ بزرگ خاموش خاموش رہا کرتے تھے اور تھوڑے ہی عرصے بعد اللہ کو پیارے ہو جاتے تھے۔ اب مگر شوقِ دیدار، ندامت کے آنسوؤں ، زیرِ لب دعاؤں اور خشیتِ الٰہی کی خاموشی کی جگہ لڑائی جھگڑوں، غیبت، فتویٰ بازی، خالص زم زم میں بازاری پانی کی ملاوٹ، مدینہ طیّبہ کی کھجوروں کے نام پر خیر پوری کھجوروں اورعرب کے خالص سونے کے زیورات کی خرید وفروخت نے لے لی ہے۔ تحائف کے نام پر رشوت میں عمرے کی ٹکٹیں لے کرہر سال عازمِ حرم ہونے کی خبریں بھی زبانِ زدِ عام ہیں۔

عمومی انفاق فی سبیل اللہ کا معاملہ ہو توحرمِ پاک میں شبِ قدر کی دعا میں شریک ہونے کیلئے لاکھوں خرچ کرنے والے لاکھوں مسلمان زکواۃ اور عشر کے نصاب اور شرح فی صد کی تحقیق میں انتہائی باریک بین اور مال پر سال گزرنے کو ہر صورت یقینی بناتے ہیں۔ ایسے میں شبِ قدر کی دعاؤں کی قبولیت کی کیا سند؟ حضرت عمرؓ بن خطاب سے منسوب ایک قول کہیں پڑھا تھا: اڑھائی فی صد کا حساب تو منافق کرتے ہیں۔مولانا محمد زکریا ؒ نے فضائلِ صدقات میں ربیع بن سلیمانؒ کا واقعہ رقم کیا جنھوں نے حج کیلئے جمع کردہ اپنا زادِراہ صدقہ کر دیا تو خواب میں رسول اللہ ﷺکی طرف سے بشارت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کا حج قبول فرما کر ایک فرشتے کو حکم دیا کہ قیامت تک ہر سال اُن کی طرف حج کرے ۔ نبی ﷺ نے ایک آدمی کا ذکر فرمایا جو طویل سفر کر کے ایسی حالت میں آتا ہے کہ اُس کے بال منتشر ہیں، جسم اور کپڑے غبار آلود ہیں، وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا ئے گڑگڑا کر پکارتا ہے، یارب! یارب ! حالانکہ اُس کا کھانا حرام، پینا حرام اور پہننا حرام ہے اور حرام غذا سے اُس کی نشوونما ہوئی ہے (پھر اُس کی دعا کیونکر قبول ہو؟)۔ بعض علماء کے مطابق اِس حدیثِ پاک میں طویل سفر سے سفرِ حج وعمرہ مراد ہے۔

ایک اور جگہ فرمایا: قسم ہے اُس ذات کی جِس کے قبضہ میں محمدﷺ کی جان ہے ، جو بندہ حرام مال کا ایک لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالے تو چالیس دِن تک اُس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا اور جس آدمی کا گوشت (جسم) حرام مال سے بنا ہو پس آگ (جہنّم) ہی اُس گوشت کے زیادہ لائق ہے۔ اقبال کا شعر ہے: نمازوروزہ وقربانی وحج، یہ سب باقی ہے تُو باقی نہیں ہے۔ اپنی مشہور نظم ‘ابلیس کی مجلسِ شوریٰ’ میں اقبال ؒ نے لکھا: ہے طواف وحج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا، کُند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغِ بے نیام۔ مرزا غالب نے اپنی خطاؤں کا اعتراف یُوں کیا : کعبے کِس منہ سے جاؤ گے غالب؟ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔ علامہ جلال الدّین محمّد بلخی (مولانا روم ؒ ) نے دلوں کے تقویٰ پر زور دیتے ہوئے فرمایا : دِل بدست آور کہ حجِ اکبر است، ایں ہزاراں کعبہ یک دِل بہتراست۔ کعبہ تعمیرِ خلیلِ اطہر است، دِل تجلّیِ جلیلِ اکبر است۔

تو اے حرمِ پاک کے خوش بخت مسافرو، روانگی سے قبل کہیں دلوں کی پرہیزگاری ہمراہ لینا نہ بھول جانا کہ تمھارے لئے بہترین زادِ راہ بس تقویٰ ہی ہے اور ریالوں کی گٹھڑیاں، احرام کی مہنگی چادریں، فائیو سٹار ہوٹلوں کی دعوتیں، گل پاشیاں اور مبارک سلامت کی ریاکارانہ صدائیں ہرگز نہیں!

تبصرے بند ہیں۔