میڈیا کی طاقت

کنٹرولڈ میڈیا کا ایک بڑا شاہکار 17 دسمبر 1971ء کو اس وقت سامنے آیا جب مملکتِ پاکستان کے سب سے بڑے اور قابلِ اعتبار سمجھے جانے والے انگریزی اخبار روزنامہ ڈان نے فوجی صدر جنرل آغا محمد یحییٰ خان کا "قوم سے عہد” War till Victory (آخری فتح تک جنگ جاری رہے گی) شہ سرخی کی صورت میں چھاپا جس میں جنابِ صدر نے مشرقی پاکستان کے محاذ پر "لڑنے ” والے فوجی دستوں کو خراجِ تحسین بھی پیش کیا تھا۔ حالانکہ تلخ حقیقت یہ تھی کہ ایک ہزار میل دور ایک روز قبل16 دسمبر کو بَلو خیل ضلع میانوالی کے ٹائیگر نیازی کالا گوجراں ضلع جہلم کے ٹھیٹھ پنجابی جرنیل جگجیت سنگھ اروڑہ کے سامنے ہتھیار ڈال کر جنگی قیدی بن چکے تھے ۔ چشمِ تصور سے دیکھئے، تب اگر سوشل میڈیا موجود ہوتا اور ہتھیار ڈالنے کی باقاعدہ تقریبات کی ویڈیوزسوشل میڈیا پر شیئر کی جارہی ہوتیں تو پینتالیس سال پہلے پاکستانیوں کاردعمل کیاہوتا؟

پاکستان میں نوے کی دہائی کو پرنٹ میڈیا کی آزادی کی دہائی سمجھا جاتا ہے جب کہ 2001ء کے بعد سے یہاں الیکٹرانک میڈیا نے پھلنا پھولنا شروع کیا اور اس طرح ڈرامہ سیریل "وارث”دیکھنے کیلئے ٹھیک آٹھ بجے سڑکوں اور بازاروں کو سنسان کر کے سرکاری ٹیلیویژن کی سکرینوں کے سامنے جم کر بیٹھ جانے اور رات گیارہ بجے قومی ترانہ سن کر سو جانے والی پاکستانی قوم نے پرائیویٹ چینلوں پر حکومتِ وقت کے خلاف مذاکرے اور ٹاک شوزدیکھنے شروع کئے ۔ میڈیا کی بروقت رپورٹوں نے طاقت کے ایوانوں کو طویل غلام گردشوں کی خلوت سے اٹھاکر شفاف مچھلی گھروں میں لا پھینکا جہاں صاحبانِ اقتدار کی نجی زندگی بھی پرائیویٹ نہ رہی۔ سچ یہ ہے کہ دنیا بھر میں میڈیا کی طاقت کے سامنے ریاستوں کی طاقت بکھر کر کرچی کرچی ہو رہی ہے۔اگر ریاستی مشینری غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل اختیار کرکے گونگی بہری بنی رہے گی اس کی طاقت اور ساکھ مزید متاثر ہوگی۔ وہ وقت رخصت ہوچکا ہے جب ریاست اور عوام میں تعلق عمودی نوعیت کا ہوتا تھا۔ریاست حاکم تھی اور عوام محکوم۔ آج یہ تعلق افقی نوعیت کا ہو چکا ہے جہاں ریاستی مشینری اور عوام کے درمیان میڈیا ایک رابطہ کار کے طور پرموجود ہے۔ تجربہ شاہد ہے کہ میڈیا کی آزادی سے جمہوریت مضبوط ہوتی ہے۔ جمہوریت کی مضبوطی سے ریاستی جبر کی طاقت منتشر جبکہ فرد کی طاقت بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ جمہوریت کا انتخابی نظام ووٹ کی طاقت عطا کرکے ایک عام شہری کو طاقتور ووٹر میں بدل دیتا ہے ۔ طاقت کے نئے تحرکات میں عام شہری میونسپل سہولیات کا گاہک بن کر ریاستی دکاندار کیلئے زندگی بخش اہمیت اختیار کر چکا ہے ۔ مزید یہ کہ عام شہری کو یہ سہولیات ریاست کی طرف سے بطور احسان نہیں بلکہ بطور حق حاصل ہوتی ہیں۔

ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں ٹیلیویژن دیکھنے والے ناظرین کی مجموعی تعداد ساڑھے تیرہ کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے جو کل ملکی آبادی کا کم وبیش پچھتر فی صد ہے۔ ان ناظرین کا پچپن فیصد یعنی تقریباََ ساڑھے سات کروڑ سیٹلائٹ اور کیبل ٹیلیویژن دیکھنے والے ہیں۔ پاکستان میں پرائیویٹ ٹیلیویژن چینل چلانے کیلئے تاحال جاری کردہ لائسنسوں کی تعداد 92 ہے جن میں سے 85 چینل عملی طور پر نشریات دکھا رہے ہیں۔ ان 85 چینلوں میں سے 51 تفریحی چینل ہیں جبکہ 35 چینل خبریں اور حالاتِ حاضرہ کے پروگرام دکھانے کا لائسنس رکھتے ہیں۔ تاہم بچوں ، خواتین اور فیملی کیلئے سرکاری ٹی وی کے علاوہ کوئی معقول پاکستانی چینل میسر نہیں۔ کم سِن بچے بھارتی چینلوں پر چھوٹا بھیم کے کارٹون دیکھ کر ہندی زبان وکلچر سے آشنا ہو رہے ہیں ۔ پر وں کو پنکھ، سپہ سالار کو سینا پتی ، حفاظت کو سُرَکھشت ، اختتام کو انت اور خاندان کو پریوار کہنا عام سی بات ہوچلی ہے۔

پاکستان میں عام طور پر الیکٹرانک میڈیا کے فروغ کا سہرا جنرل پرویز مشرف کے سر باندھا جاتا ہے ۔ تاہم ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ پرائیویٹ ٹیلیویژن چینل چلانے کیلئے 2003ء میں صرف چار، 2004ء میں گیارہ، 2005ء میں صرف ایک، 2006ء میں محض تین اور 2007ء میں سترہ لائسنس جاری کئے گئے۔ اس کے بعد سال2008ء میں اکٹھے تیس، 2009ء میں سترہ اور 2010ء میں چھ لائسنس جاری کئے گئے۔ جبکہ سال 2011ء اور 2012ء میں کوئی لائسنس جاری نہیں کیا گیا اور سال 2013ء میں بھی صرف دو لائسنس جاری کئے گئے۔ اس کے بعد شاید آج تک مزید کوئی لائسنس جاری نہیں کیا گیا۔ تاہم ریاستی طاقت کے بل بوتے پر حکومتیں معلومات کے بہاؤکو روک سکتی ہیں نہ میڈیا کو فی الحقیقت کنٹرول کرسکتی ہیں۔ ریگولیٹری اداروں کے ذریعے کسی پرائیویٹ ٹیلیویژن چینل کا لائسنس معطل یا منسوخ کیا جاسکتا ہے مگر سوشل میڈیا کے انقلاب نے صورتحال یکسر بدل کر رکھ دی ہے۔ دنیا بھر میں فیس بک کے ایک ارب انسٹھ کروڑ ، واٹس ایپ کے اسی کروڑ اور ٹویٹر اور دیگر سوشل میڈیا سائٹس کے کروڑوں استعمال کنندگان کی طرف سے تازہ ترین معلومات اپ لوڈ کئے جانے کو روکنا شاید اب کسی کے بس کی بات نہیں رہی۔ سوشل میڈیا ایک ایسا آزادانہ پبلک پلیٹ فارم ہے جہاں ہر شہری کو اپنی آواز پہنچانے کیلئے مساوی مواقع میسر ہیں اور وہ کسی ماہر صحافی اور کھوجی کی طرح سمارٹ فون اورلیپ ٹاپ کے ذریعے اپنے آس پاس بکھری حقیقتوں کو اپ لوڈ اور اپنے من پسند خوابوں کو ڈاؤن لوڈ کررہاہے۔ اس طرح ایک عام سا شہری محض چند ہزار کے سمارٹ فون پر کسی واقعہ کی فوٹیج اور ویڈیو بنا کر ٹیلیویژن چینلوں کو بھجوا کر یا سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرکے محض چند لمحوں میں ملک بھر میں جذبات کی آگ لگادینے، کمیونٹی کو کسی معاملے پر اکٹھا کرنے، لوگوں کے ذہن اور ان کی رائے تبدیل کرنے، لوگوں کے جذبات سے کھیلنے، انھیں کسی جائز یاناجائز فعل پر اکسا نے، طاقتور حکومتوں کو گرانے اور دنیا بھر کی سیاست میں بھونچال برپا کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔ بینڈوڈتھ اور سمارٹ فونز کی قیمتیں آئے روز گر رہی ہیں۔ چنانچہ ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں کل موبائل فون سیٹوں کا تقریباََ پندرہ سے بیس فیصد سمارٹ فونز پر مشتمل ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ سال ۲۰۲۰ء تک سمارٹ فونز کل موبائل فونز کا پچاس سے ساٹھ فیصد ہو جائیں گے۔ اس طرح وقت کے ساتھ ساتھ صحافت پیسہ کمانے والے پیشے کی بجائے ایک ایسا زبردست مشغلہ بنتا جارہا ہے جہاں ہر کوئی دوسروں کو اپنے مطلب برانڈ کی سچائی کاآئینہ دکھانے میں مشغول ہے۔

1996ء میں آغاز کردہ امریکن نیوز چینل فاکس نیوز کے چیف ایگزیکٹو نے سچ ہی کہا تھا: "میڈیاسب سے طاقتور قوت ہے، سیاست اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں” میڈیا صرف یہی نہیں بتاتا کہ دنیا میں کس وقت کیا وقوع پذیر ہوا بلکہ یہ بھی سکھاتاہے کہ کس واقعے پر کس طرح کا ردِ عمل اور رویہ اختیار کرنا ہے۔ یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جو لوگوں کو مجبور کردیتا ہے کہ وہ کیا دیکھیں اور کس طرح اور کس زاویئے سے دیکھیں ۔سچ پوچھئے تو صحافت کاپیشہ یا مشغلہ ایک ناقابلِ یقین اور حیران کن طاقت ہے جسے بھلائی کے فروغ، سماجی اصلاحات، طاقتورحلقوں کا محاسبہ کرنے اور عوام الناس کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لانے کیلئے ایک زبردست ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مگر کیا "تحقیقی صحافیوں کی غیر رجسٹرڈ مگر سب سے بڑی عالمی تنظیم ” یعنی سوشل میڈیا سے منسلک اربوں "صحافی ” واقعتاََ ایسا کر رہے ہیں؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔