پاکستان کی کرکٹ کی دنیا دین کی طرف مائل ہے!

 عبدالعزیز

 پاکستان ہندستان سے الگ ہوکر ایک ملک بنا۔ جو لوگ پاکستان کے حق میں تھے ان میں سے زیادہ تر لوگ سیاسی ذہن رکھتے تھے۔ اسلام سے ان کا برائے نام رشتہ تھا مگر وہ جانتے تھے کہ اسلام کا نام لئے بغیر وہ عوام کو اپنی طرف راغب نہیں کرسکتے۔ سیاست دانوں کی زبان پر اسلام تھا مگر ان کے دل میں نہ ایمان تھا اور نہ اسلام کی حقانیت اور سچائی کا علم تھا۔ ان میں سے کچھ لوگ مسلم فرقہ پرستی کے بھی شکار تھے۔ ہندستان میں ہندو فرقہ پرستی کو مسلم فرقہ پرستی سے بھی جلا ملی۔ فرقہ پرستی انسانی اور اخلاقی رشتوں کو خراب کرتی چلی جاتی ہے۔ آج تک دونوں ملکوں کے عوام میں انسانی رشتہ کی قدر ضرور ہے مگر سیاست دانوں اور حکمرانوں کے مفادات کچھ ایسے ہیں کہ انسانی رشتوں کو پنپنے نہیں دیتے۔ امن و امان، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، اخوت و محبت اسلام اور مسلمانوں کی اکثریت خواہ ہندستان میں ہو یا پاکستان میں اس کو نہ مسلم مفادات کا علم ہے اور نہ اسلامی مفادات سے کوئی واقفیت ہے جس کی وجہ سے وہ طاقتیں جو دونوں ملکوں میں انسان دوستی اور بھائی چارہ کی خواہاں ہیں انھیں کامیابی نہیں مل رہی ہے وہ طاقتیں آج کامیاب ہیں جو فرقہ پرستی کو اپنے اپنے ملکوں میں ہوا دیتی ہیں ۔

ہمارے ملک میں اس وقت فرقہ پرستی شباب پر ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ فرقہ پرستی کی حکمرانی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ پاکستانی حکمرانوں میں میاں نواز شریف کے انداز سے لگتا تھا کہ وہ دونوں ملکوں میں دوستی کے حق میں ہیں اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ الیکشن کے دوران انھوں نے ہندستان دشمنی کے بجائے ہندستان دوستی کا ذکر سب سے بڑھ چڑھ کر کیا۔ الیکشن کے بعد نریندر مودی نے بھی فرقہ پرست پارٹی کے سب سے قد آور لیڈر ہونے کے باوجود دوستی کا ہاتھ بڑھایا مگر ان طاقتوں نے نواز اور مودی کی اسکیموں پر پانی پھیر دیا جو کسی حال میں دونوں ملکوں میں میل جول اور دوستی نہیں چاہتی ہیں ۔ یہ تو قصہ ہے فرقہ پرستی کا۔ مجھے بات کرنی ہے پاکستان کی کرکٹ کی دنیا کی جس میں کچھ لوگ ایسے ہیں جن میں دین کی سمجھ بوجھ پیدا ہوگئی ہے۔ یہ ایسے لوگ ہیں جو کرکٹ کے میدان میں کامیاب کرکٹر تھے جن کو ہندستان کے کرکٹر داعیِ دین بننے سے پہلے بھی پسند کرتے تھے۔

ان میں سے پہلا نام سعید انور کا ہے۔ سعید انور پاکستان کے اوپنر بلے باز تھے اور بہت اچھے بلے باز تھے۔ عمران خان کی کپتانی میں بہت نام پیدا کر چکے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ عمران ہی نے سعید انور کو آگے بڑھانے میں بڑا رول ادا کیا تھا۔ سعید انور کی تبلیغی جماعت پاکستان کے مولانا طارق جمیل سے قربت ہوئی۔مولانا کی گفتگوؤں اور اخلاق سے قریب ہوتے چلے گئے اور ایک پرجوش مبلغ دین بن گئے۔ اسی دوران پاکستان کے ایک مشہور گلوکار (گویا) جنید جمشید اپنے اسکول کے ایک ساتھی کی پے درپے محنت سے دین کی طرف مائل ہوئے۔ مولانا طارق جمیل کی کوششوں سے جنید جمشید نے فلمستان کو چھوڑ کر دین کی دنیا میں قدم رکھنا شروع کیا اور وہ بھی داعی دین بن گئے۔ مولانا طارق جمیل، جنید جمشید اور سعید انور کی تبلیغوں کا اثر کئی کرکٹر پر پڑتا رہا۔ سعید انور کے بعد ثقلین حیدر اور مشتاق احمد بھی تبلیغی کاموں سے جڑ گئے۔ غالباً انضمام الحق ان سب کے نشانے پر تھے۔ انضمام الحق دین سے کوئی واقفیت نہ ہونے کے باوجود اپنے خاندانی پس منظر کی وجہ سے مذہبی ذہن رکھتے تھے۔ مذکورہ شخصیتوں کا ان پر اثر پڑتا گیا اور وہ بھی بہت جلد بدل گئے۔ کرکٹ کی دنیا کی جن شخصیتوں کا ذکر راقم نے کیا ہے ان کا حلیہ بالکل بدل گیا ہے۔ ان کے چہرہ پر لمبی داڑھی، سر پر ٹوپی یا امامہ رہتا ہے۔ جن لوگوں نے ان کو کرکٹ کھیلتے ہوئے برسوں کھیل کے میدان میں دیکھا جب تک ان کا نام نہ لیا جائے یا جب تک یہ حضرات گفتگو شروع نہ کردیں پہچاننا مشکل ہے۔ یہ لوگ یورپی ممالک میں دین کی تبلیغ و اشاعت کیلئے جاتے ہیں ۔ جب ان میں سے کسی کو امریکہ یا برطانیہ یا کسی اور ملک میں کوئی چھوٹا یا بڑا افسرا پہچان لیتا ہے تو ان سے گھنٹوں باتیں کرتا ہے۔

سعید انور اپنا ایک واقعہ بتاتے ہیں کہ جب وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ امریکہ کے ایک ہوائی اڈہ پر پہنچے تو مسافروں کی بڑی بے رحمی سے تلاشی لی جارہی تھی۔ سعید انور کو دیکھ کر بڑی پریشانی ہوئی۔ اللہ سے دعا گو ہوئے کہ یا اللہ جو کچھ بھول چوک ہوئی ہے، غلطیاں ہوئی ہیں معاف فرما اور میرے خاندان والوں کیلئے آسانیاں فرمادے۔ سعید انور قطار میں کھڑے تھے کہ ایئر پورٹ کے آئی جی درجے کا ایک افسر سعید انور کے پاس آیا ، دریافت کیا ’’کیا آپ سعید انور ہیں ؟‘‘ سعید انور نے کہاکہ جی ہاں ! میرا نام سعید انور ہے۔ افسر نے کہاکہ میں آپ کا بہت بڑا معتقد (fan)ہوں ۔ آپ کی کرکٹ کی وجہ سے نہیں میں تو کرکٹ کو ایک تھکا دینے والا کھیل (Boring Game) سمجھتا ہوں ۔ بہت لمبا گیم ہوتا ہے۔ مجھے تو تمہاری تغیر کلی (CompleteTransfermation) سے دلچسپی ہے۔ تم کیسے اس قدر بدل گئے۔ افسر نے کہاکہ مجھے جب معلوم ہوا کہ تم اس جہاز سے آرہے ہو تو مجھے تم سے ملاقات کا بڑا اشتیاق ہوا۔ تم سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔ سعید انور بتاتے ہیں کہ ان کا کوئی سامان Check نہیں ہوا اور نہ ان کے اہل خاندان کی تلاشی لی گئی۔ سعید انور نے اسے دین کی کرامت بتایا ہے۔ اس طرح کئی اور ہوائی اڈوں پر ان کے ساتھ ہوا۔ ایک بیرونی ہوائی اڈے پر تو کئی افسران ملے۔ ایک دوسرے ہوائی اڈے پر تو لگ بھگ بیس افسران نے ایک ساتھ ملاقات کی اور گھنٹوں باتیں کرتے رہے اور سعید انور ان سب کو دین کا نسخہ بتاتے رہے۔ ایک غیر مسلم بھی ان کی تبلیغ سے حلقہ اسلام میں آیا۔

  انضمام الحق: سعید انور اور انضمام الحق کی تقریریں سوشل میڈیا پر لگاتار آرہی ہیں ۔ انضمام الحق کی تقریر میں تاثیر بہت ہے۔ خاص طور سے جو اپنے گزرے ہوئے دنوں کے واقعات بتاتا ہے وہ بہت متاثر کن ہوتے ہیں ۔ وہ اپنا ایک واقعہ بتاتا ہے کہ ایک بیرونی ملک میں کئی میچ اس کی ٹیم کو اس کی کپتانی میں کھیلنا تھا۔ جب اس کی ٹیم مغرب یا عشا کی نماز میدان میں ادا کرتی تو دیگر ملکوں کے کھلاڑی منظر بڑے شوق سے دیکھتے تھے۔ ایک بار واقعہ یہ ہوا کہ جب ہم لوگ نماز سے فارغ ہوئے تو سری لنکا کے کھلاڑی مرلی دھرن اور نیوزی لینڈ کے فلیمنگ ہم لوگوں کے پاس آئے۔ دونوں نے کہاکہ آپ لوگ اپنے ہاتھ پاؤں Clean (صاف) کرتے ہو پھر ایک شخص گانا گاتا ہے پھر سب مل کر ایک ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ، ایک ساتھ جھکتے ہیں اور سجدہ ایک لیڈر شپ (قیادت) کے تحت کرتے ہیں تو بڑا اچھا لگتا ہے۔ جب ہم لوگوں نے بتایاکہ ہم لوگ عبادت سے پہلے وضو کرتے ہیں ۔ وضو کیا ہے ان لوگوں کو بتایا پھر بتایا کہ وہ گانا نہیں ہوتا بلکہ وہ اذان اور دعوت ہے جو ایک شخص دیتا ہے پھر بتایا کہ جس نے ہم لوگوں کو پیدا کیا ہے سب کچھ عنایت کرتا ہے اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ اس کی عظمت و بزرگی کا اعتراف کرتے ہیں ۔ اس کا گن گاتے ہیں ۔ مرلی دھرن نے کہاکہ میں چاہتا ہوں کہ جب تم لوگ عبادت کرو تو میں کرسی لگاکر تم لوگوں کے قریب بیٹھ کر قریب سے مشاہدہ کروں ۔ انضمام الحق نے کہاکہ ہم لوگوں نے اسے اجازت دے دی۔

  لندن میں اپنے ایک واقعہ کا ذکر کیا کہ وہاں کئی کھلاڑیوں کو میرے بدل جانے پر تعجب ہوا۔ سب کچھ پوچھا اور کہاکہ تم لوگوں کا مذہب صحیح ہے مگر تم لوگ (مسلمان) اچھے نہیں ہو۔

 ایک واقعہ کراچی کا بتایا کہ ہندستان اور پاکستان کی ٹیم ایک ہی ہوٹل میں ٹھہری ہوئی تھی۔ مغرب کے بعد اکثر مولانا طارق جمیل آجاتے تھے اور تذکیر کرتے تھے۔ پاکستانی کھلاڑی سب کان لگاکر سنتے تھے۔ یہ دیکھ کر کئی ہندستانی پلیئر مثلاً ہربھجن سنگھ، ویرندر سہواگ اور رنیا وغیرہ ہم لوگوں کے ساتھ طارق جمیل کی باتیں غور سے سنتے تھے۔ مجلس ختم ہوجانے کے بعد طارق صاحب کی باتیں سن کر ہندستانی کھلاڑی کہتے تھے کہ مولانا صاحب کی سب باتیں درست ہیں بہت دل کو چھوتی ہیں ۔

انضمام الحق نے چنڈی گڑھ کا واقعہ بتاتے ہوئے کہاکہ ہم لوگوں نے ایک مولوی صاحب کا انتظام کیا تھا۔ ان کی امامت میں جب ہم لوگ میدان میں جمعہ کی نماز اداکررہے تھے تو بہت سے سکھ جمع ہوگئے اور نماز کے منظر کو دیکھنے لگے۔ ہم لوگوں سے مل کر سب نے کہاکہ تم لوگوں کی عبادت کا منظر بہت اچھا لگتا ہے۔ انضمام الحق نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ مسلمانوں کی اکثریت نماز کو ترک کئے ہوئے ہے اور غیروں کو ہماری عبادت پرکشش معلوم ہوتی ہے۔ کس قدر سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے کہ ہماری چیزیں غیروں کو پسند ہیں اور اپنے جن پر نماز پڑھنا فرض قرار دیا گیا ہے جسے پڑھے بغیر کوئی مسلمان رہ نہیں سکتا اسے کوئی احساس ہی نہیں ہے کہ وہ کہاں جارہا ہے اور اس کا کیا انجام ہونے والا ہے۔

 تبلیغی جماعت نے دین کو سیاست سے جدا کر رکھا ہے جو دین کا لازمی حصہ ہے ؎ ’’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘۔ ممکن ہے ان کے بزرگوں کو مصلحتاً ایسا کرنا پڑا ہو مگر معاملہ یہ ہے کہ دین مکمل ضابطہ حیات کا نام ہے۔ ہر شعبہ زندگی میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ خاص طور سے سیاست ایسا شعبۂ زندگی ہے کہ جب تک اس میں بڑی تبدیلی نہیں ہوتی معاشرہ بدل نہیں سکتا۔ اس کی وجہ ہے کہ سیاست یا حکومت ساری برائیوں کا سر چشمہ ہے۔ پاکستان کی فلمی دنیا اسی طرح عریانیت، بے حیائی اور بد اخلاقی کا مظاہرہ کرتی ہے جس طرح ہندستان یا دیگر ملک کی فلمی دنیا کرتی ہے۔ سیاسی پارٹیاں یا سیاسی افراد معاشرہ کے ذہن کو بگاڑنے کی سب سے زیادہ کوشش کرتے ہیں ۔ حکومت انہی فساد پسندوں اور بگاڑ چاہنے والوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ اسلام میں تبلیغ اور عبادت کا بڑا مقام ہے مگر عبادت اور تبلیغ ہی کافی نہیں ہے۔ اللہ کے رسول سے بڑھ کر عبادت کرنے والا کون ہوسکتا ہے؟ تبلیغ آپ سے بڑھ کر کون کرسکتا ہے؟ آپؐ کے صحابہ سے زیادہ آپ کے نقش قدم پر چلنے والا کون ہوسکتا ہے، مگر عبادت کے ساتھ فرد کی تربیت ،معاشرہ کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل کا محض تصور ہی نہیں تھا بلکہ اسے عملی جامہ پہناکر دنیا کو دکھایا۔ سید قطب شہیدؒ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں :

 اور محمدؐ بن عبداللہ کی آخری کامیابی یہ تھی کہ شریعت اسلامیہ کو زندگی کا بنیادی مرکز اور لوگوں  کے معاملات کا حقیقی منظم بنادیا۔

اسلام ایک عقیدہ ہے جس کی بیج سے شریعت کی کونپل پھوٹتی ہے۔ اس شریعت پر ایک نظام قائم ہوتا ہے۔ اگر ہم اسلام کو ایک درخت سے تشبیہ دیں تو عقیدہ اس کا بیج شریعت اس کا تنا اور نظام شرعی اس کا پھل ہے۔

تنا بیج کے بغیر جڑ نہیں پکڑ سکتا اور اس بیج کی کوئی قیمت نہیں جس سے تنا نہ ملے۔ اس تنے کا کوئی فائدہ نہیں جو پھل نہ دے۔ اس لئے اسلام نے ضروری قرار دیا کہ اس کی شریعت ہی زندگی کی حاکم ہے۔

اس وقت سے اسلام ایک اجتماعی نظام ہوگیا۔ یہ مسلمانوں کے تعلقات کا مرکزی سررشتہ تھا وہ ان کے لئے ایسا نظام حکومت بن گیا جس کی بنیاد پر غیروں سے معاملات کرتے تھے۔ پھر اسلام زمین کے دوسرے گوشوں میں پھیلنے لگا جہاں بھی اس کا عقیدہ پہنچا ، اس کی شریعت اس کا نظام بھی پہونچا۔ جس نے چاہا اسے قبول کرلیا اور جس نے چاہاقبول نہیں کیا ’’دین میں اکراہ نہیں ہے‘‘۔

 تبلیغی جماعت کا سیاست سے دور رہنے سے ایک فائدہ تو ضرور ہے۔ ہر ملک میں تبلیغی کام انجام دے سکتی ہے۔ اگر پاکستان کے دیندار کرکٹر ہمارے ملک میں قدم رنجہ فرمائیں اور چند اجتماعات اور مجلسوں کو اپنے نورانی چہرہ کے ساتھ خطاب فرمائیں ۔ یہاں کے لوگوں سے بات چیت کریں اور ان کا مشن اور مقصد دونوں ملکوں کے رشتوں کو ہموار اور شگفتہ کرنا ہو تو ایک بڑا کام ہوسکتا ہے۔ یہاں کے جو مسلمان کرکٹر ہوئے تو اپنے اخلاق و کردار سے غیروں سے بھی بدتر ثابت ہوئے۔ کاش ان میں بھی پاکستان کے کھلاڑیوں جیسی تبدیلی اور انقلاب پیدا ہوجاتا یہ بھی اپنے وطن عزیز میں دین کا کام کرنے لگتے تو بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ انضمام اور سعید انور کی بات شاید دنیا کے کھلاڑی سن کر متاثر ہوسکتے ہیں ۔

 سوشل میڈیا میں ان کی تقریریں یا تاثرات آتے رہتے ہیں ۔ جو لوگ دین سے دور ہیں ان کو ان کی تقریریں سنانا چاہئے۔ اس سے بھی کچھ لوگ متاثر ہوسکتے ہیں اور بدل سکتے ہیں ۔

تبصرے بند ہیں۔