پروفیسر رفیع العماد فینان: بے مثال شخصیت، با کمال استاد

ڈاکٹر شمس کمال انجم

خبرملی کہ ۳۱/ اکتوبر ۲۰۱۶ء کو ہم سب کے  Favourite Teacherپر وفیسر رفیع العماد فینان جامعہ ملیہ اسلامیہ کے عربی شعبے سے کم وبیش چار دہائی تک عربی زبان وادب کی خدمت کے بعد سبکدوش ہوگئے۔ یہ خبر سن کر ایک بار پھر میں اپنی پرانی یادوں میں کھوگیا۔ ذہن کے پردے پر ان کی سنہری یادوں کی فلم چلے لگی اور میں انہی سنہرے دنوں کی تلاش میں سرگرداں ہوگیااور یہ تحریر معرض وجود میں آگئی۔

یہ ۱۹۹۱ــ-۱۹۹۲ء کی بات ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے عربی شعبے کے بی اے آنرز اور ڈپلوما ان موڈرن عربک میں ہمارا داخلہ ہوا تھا۔ پروفیسر ضیاء الحسن ندوی شعبے کے صدر تھے۔ پروفیسر زبیر احمد فاروقی، پروفیسر شفیق احمد خان ندوی، پروفیسر فرحانہ طیب صدیقی، پروفیسر خالد حامدی اور ڈاکٹر ابو الحسنات کے علاوہ پروفیسر رفیع العماد فینان شعبے کے اساتذہ میں شامل تھے۔ پروفیسر ضیاء الحسن ندوی کے علاوہ غالبا سبھی اساتذہ اس وقت لیکچرریا ریڈر تھے اور بعد میں سب کے سب پروفیسر بنے۔ ڈاکٹر ابو الحسنات ایڈہاک لیکچرر کی حیثیت سے پڑھاتے تھے۔ غالبا اسی سال موجودہ صدر شعبہ پروفیسر محمد ایوب ندوی بھی شعبے سے وابستہ ہوئے۔ پروفیسر فرحانہ ہم لوگوں کو بی اے سال اول میں نحو اور ٹرانسلیشن پڑھاتی تھیں۔ ڈاکٹر ابو الحسات ڈپلوما ان موڈرن عربک میں مو لانا وحید الزماں کیرانوی کی کتاب القراء ۃ الواضحہ اور پروفیسر رفیع العماد فینان گرامرپڑھاتے تھے۔

یہ پروفیسر فینان کے شباب کا زمانہ تھا۔ یہی کوئی اڑتیس، انتالیس سال کی عمر کی لپیٹ میں رہے ہوں گے۔ لمباقد، گورا رنگ، خوب صورت کتابی چہرہ، کلین شیو، پیشانی کی طرف سے پیچھے کی طرف مڑے ہوئے لمبے لمبے قدرے سنہرے بال جنہیں وہ پڑھاتے وقت اکثر وبیشتر اپنی دونوں ہتھیلیوں سے کاندھے کی طرف سے سنبھالتے رہتے تھے۔ چہرے مہرے سے بالکل انگریز۔ فینان صاحب کا نام آتے ہی ایک نہایت اسمارٹ شخص کا تصور، قابل ترین، ذہین اور اپنے سبجکٹ میں اکسپرٹ اور ماہر استاد کی تصویر، ایک مربی کی شخصیت، ایک شفیق انسان کا قابل احترام رعب طلبہ کے ذہن ودماغ پر مرتسم ہوجایا کرتا تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس وقت جامعہ ملیہ اسلامیہ کے عربی شعبے میں پڑھنے والے طلبہ کے درمیان شعبے کے اساتذہ میں پروفیسر فینان کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل تھی۔ طلبہ کے درمیان ان کا کثرت سے ذکر خیر ہوتا تھا، طلبہ ان سے واقعۃ ڈرتے بھی تھے اور ان سے پڑھنے کی خواہش بھی کرتے تھے اور ان کا احترام بھی کرتے تھے۔ ان کا عجیب وغریب رعب دبدبہ اور احترام طلبہ کے دلوں پر بیٹھا ہوا تھا۔ طلبہ کی محفلیں ان کے’’ ذکر جمیل‘‘ کے بغیر نامکمل اور تشنہ رہاکرتی تھیں۔ وہ اس قدر مقبول تھے کہ جیسے پورا جامعہ نگر ان سے واقف تھا۔ خاص طور سے اردو اور عربی حلقے میں ان کا’’ ٹی آر پی‘‘ سب سے زیادہ تھا۔ شام کے پروگراموں میں وہ ڈپلوماان موڈرن عربک اور اڈوانس ڈپلوما میں بالترتیب عربی گرامر اورعربی انگریزی- انگریزی عربی ٹرانسلیشن پڑھاتے تھے۔ یہ بات بہت مشہور تھی کہ اڈوانس ڈپلوما کی کلاس میں جس نے فینان صاحب کے ٹرانسلیشن کو جھیل لیا اسے ٹرانسلیٹر بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اڈوانس ڈپلوما کا ٹرانسلیشن بالکل ایم اے کے معیار کا ہوتا تھا۔ عربی وانگریزی اخبارات کے تراشے پر وہ، طلبہ کو مشق کراتے تھے۔ اور بہت محنت، خلوص اور لگن سے نہ صرف تمام اسباق تیار کرتے تھے بلکہ اسی محنت، لگن اور خلوص سے پڑھاتے بھی تھے۔ ایک ایک سبق کو تیار کرتے۔ اس کے بعد کمپیوٹر آپریٹر کے پاس جاتے۔ اس سے کتابت کراتے۔ اپنی جیب سے اس کی قیمت ادا کرتے۔ اسے کاپی پر چسپاں کرتے۔ ایک ایک لفظ کا معنی اپنی خو بصورت تحریر میں اپنے ہاتھ سے لکھتے۔ اسے فوٹو اسٹیٹ کراکے ایک طرف کاپی پر چسپاں کرتے اور پڑھانے سے پہلے وہ طلبہ کو دیدیتے۔ طلبہ اس کو فوٹو اسٹیٹ کراتے۔ مشکل الفاظ کے معنی یاد کرتے پھرفینان صاحب کلاس میں ان کے ترجمے کی مشق کراتے۔ فینان صاحب اس اسلوب تدریس کے خود موجد تھے۔ بعد میں بہت سارے لوگوں نے اسی اسٹائل میں ٹرانسلیشن پڑھانے کی کوشش کی۔

شعبۂ اردوکی طرف سے عربی شعبے کی طرف آتے ہوئے گراؤنڈ فلور پر بالکل دائیں طرف پہلے کارنر میں، فارسی شعبے سے بالکل متصل جو کمرہ ہے اسی میں اس وقت ڈپلوما کی کلاس ہوا کرتی تھی۔ اور جہاں اس وقت عربی کے صدر شعبہ کا دفتر ہے اس میں بی اے فرسٹ ایر کی کلاس ہوتی تھی۔ ڈپلوما میں تقریبا چالیس کے قریب طالب علم تھے۔ کچھ تو ایسے بھی تھے تو فینان صاحب سے اجازت لے کر بغیر داخلے کے پڑھنے آتے تھے۔ فینان صاحب کی کلاس کا جب وقت ہوتا تھا اور وہ کلاس کے لیے آتے تھے توپانچ دس میٹر پہلے ہی سے جب ان کے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی تھی توتمام طلبہ اپنی اپنی جگہوں پر پورے وقار کے ساتھ اس طرح بیٹھ جاتے جیسے ان کے سروں پر پرندے ہوں۔ ان کی کلاس میں ہر طالب عالم پوری محنت، لگن، شوق اور آموختہ کی تیاری کے ساتھ حاضر ہوتاتھا۔ انہوں نے اس وقت جو پڑھایا اورجس طرح پڑھایا وہ آج بھی اسی طر ح ازبر ہے۔ وہ کاپی جس پر انہوں نے گرامر کے اسباق لکھوائے تھے آج بھی میرے پاس ایک استاد کی خوب صورت یادوں کی شکل میں ’’کتاب مقدس‘‘ کی طرح محفوظ ہے۔

ڈپلوما میں وہ ’’عربی گرامر‘‘ یعنی عربی نحو کا مضمون پڑھاتے تھے۔ تمام تعریفات کو وہ مثالوں سے مزین کرتے تھے۔ مثالیں ایسے جدید جملوں پر مشتمل ہوا کرتی تھیں جن کا انگریزی میں ترجمہ بھی وہ لکھوایا کرتے تھے۔ ہر سبق کے آخر میں وہ اسی سبق سے متعلق آٹھ دس جملوں کی Exerciseاور تمرین بھی دیا کرتے تھے جو عربی کے ساتھ اردو اور انگریزی ترجمے پربھی مشتمل ہوا کرتی تھی۔ یوں گرامر کا مضمون گرامر کے ساتھ ساتھ سیمی ٹرانسلیشن اور ترجمے کے مضمون میں تبدیل ہوجایا کرتا تھا اور طالب علم کو اس سے دوہرا فائدہ ہوا کرتا تھا۔ گرامر کی مشق تو ہوتی ہی تھی، عربی مثالوں کا انگریزی ترجمہ لکھوانے سے’’ ترجمے‘‘ کی ’’خاموش تربیت ‘‘بھی ہوتی تھی۔ ان کی اکسر سائز سے ٹرانسلیشن کے سبجکٹ میں کام آنے والے بہت سارے الفاظ ومعانی زباں زد ہوجاتے تھے۔ فینان صاحب کی لکھوائی ہوئی بعض مثالیں بہت خوب صورت اور بامحاورہ ہوتی تھیں۔ عربی کے افعال ناقصہ میں ایک لفظ مَادَامَ بھی ہے جس کاانگریزی متبادل  as long asہے۔ فینان صاحب نے مَادَامَ کی جومثال اس وقت لکھوائی تھی وہ مجھے آج بھی یاد ہے۔ انہوں نے لکھوایا تھا: اُسکتْ مَادامَ السُکوتُ نافعًا۔ اس کا انگریزی ٹرانسلیشن بھی  بعینہ یا د ہے جو یہ تھا: Keep quite as long as silence is beneficial۔

قابل ذکربات یہ ہے کہ دوران درس عربی اور انگریزی کے مشکل الفاظ جب آتے تھے تو وہ اس کے تلفظ پر مکمل دھیان دیتے تھے۔ پوری کلاس سے’’ دس دس مرتبہ‘‘ وہ لفظ کہلواتے تھے پھر آگے بڑھتے تھے۔ مذکور بالا مثال میں ایک لفظ  beneficial  بھی ہے جسے آج بھی بہت سارے پڑھے لکھے لوگ بے نی فی شی یل پڑھتے ہیں جو کہ بالکل غلط تلفظ ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے فینان صاحب نے اس لفظ کو بارہا ہر طالب علم سے کہلوایا۔ یہاں تک کہ سب نے درست ادائیگی کرلی۔ ایک لفظ ہے اسٹیشن جو کہ اردو اور انگریزی دونوں میں اسی طرح بولا جاتا ہے۔ اس لفظ کی ادائیگی کے وقت بہت سارے لوگ اش -ٹے- شن بولتے ہیں۔ فینان صاحب نے اس لفظ کی خوب خوب پریکٹس کرائی۔ یہاں تک کہ صحیح ادائیگی ہوگئی۔ انہیں معلوم تھا کہ ان کے مخاطب طلبہ میں سے بیشتر مدارس کے فارغ ہیں جنہیں انگریزی سے ابھی ابھی واسطہ پڑاہے اس لیے وہ بڑی باریکی سے اور ایک اکسپرٹ کی طرح تربیت کرتے تھے۔

عربی گرامر میں ایک موضوع ہے’’ عدد معدود‘‘ کا۔ اگر عدد معدود کا concept واضح نہ ہو تو ’’تین لڑکے اور تین لڑکیاں ‘‘ جیسے سیدھے سادے جملے کی بھی عربی بولنے میں غلطی ہوجائے گی اور بہت سارے لوگوں سے یہ غلطی ہوتی بھی ہے۔ ہم نے پہلے بھی یہ سبق پڑھا تھا مگر اس کا  concept واضح نہیں تھا۔ پروفیسر فینان نے ایسی باریکی اور’’ استادانہ مہارت‘‘سے ’’عدد معدود‘‘ کا سبق پڑھایا کہ اس کے بعد اس کا conceptکبھی ذہن ودماغ سے محو نہیں ہوا۔

 پروفیسر فینان سے ایک سال’’ ڈپلوما اِن موڈرن عربک‘‘میں پڑھا مگر انہیں کبھی کلاس میں بیٹھے ہوئے نہیں دیکھا۔ نہ انہیں کبھی غیر حاضریا تاخیر سے آتے ہوئے پایا۔ ہمیشہ وہ ٹائم سے پہلے آتے تھے۔ اپنے چیمبر میں یا کہیں اور بیٹھ کرکلاس کے وقت کا انتظار کرتے تھے اور ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر وہ کلاس میں حاضر ہوجایا کرتے تھے۔ کلاس میں ان کا اسٹائل یہ تھا کہ طلبہ سے پہلے وہ پچھلا سبق سنتے تھے پھر نیا سبق شروع کرتے تھے۔ بے انتہا ’’نفیس ‘‘طبیعت کے مالک ہونے کے باوجود کبھی بھی چاک سے بلیک بورڈ پر لکھنے میں تردد وتذبذب نہیں کرتے تھے۔ اس وقت سمسٹر سسٹم نہیں تھا۔ نہ ہی انٹر نل اسس منٹ کا کوئی نظام آج کی طر ح اس وقت نافذ تھا مگر فینان صاحب کی تدریسی صلاحیت، تجربہ اور ان کا vision  دیکھیے کہ وہ اس وقت بھی امتحان سے قبل دو مرتبہ’’ کلاس ٹیسٹ‘‘ کا باقاعدہ اہتمام کرتے تھے۔ گھر سے سوالات بناکرلاتے تھے۔ class test  لیتے تھے۔ اس کے بعد گھر لے جاکر Answer Sheet  چیک کرتے تھے اوریونیورسٹی امتحان کی طرح مارکنگ کرتے تھے۔ کلاس میں ایک ایک طالب علم کواس کی Answer Sheet  دیتے تھے اور غلطیوں کی نشاندہی کرتے تھے۔ وہ اگر چاہتے تو یہ سب نہ کرتے، نہ ہی انہیں یہ سب کرنے کی ضرورت تھی مگر وہ حقیقی معنوں میں استاد تھے۔ طلبہ کو اپنا علم مانو گھول کر پلادینا چاہتے تھے۔ ہر اچھا استاد ایسا ہی ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ اتنا pain  لیتے تھے۔ اور اسی لیے طلبہ ان سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ ان کا احترام کرتے تھے اور ان سے پڑھنے کی خواہش کرتے تھے۔

جامعہ میں ایک سال بی اے عربک اور ڈپلوماان موڈرن عربک میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد میرا داخلہ سعودی عرب کی مدینہ یونیورسٹی میں ہوگیا اور میں بلا چوں وچرا وہاں چلا گیا۔ وہاں جاکر میں نے فینان صاحب کو اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کئی خطوط لکھے۔ وہ ان خطوط کا جواب بھی دیتے اور ہلکی پھلکی اصلاح بھی کرتے۔ چار سال کے بعد جب میں وہاں سے فارغ التحصیل ہوا تو میں نے وہاں ملازمت کی کوشش نہیں کی۔ ہر چند کہ ملازمت کا کوئی سلسلہ ہوسکتا تھا مگر میرے ذہن میں یہ بات راسخ ہوچکی تھی کہ مجھے ایم اے اور پی ایچ ڈی کرنی ہے۔ لہٰذا بی اے کی تحصیل کے بعد جب میں واپس آیا تو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے عربی شعبے میں پروفیسر زبیر احمد فاروقی صاحب شعبے کے صدر تھے۔ جامعہ میں داخلے کی کاروائی مکمل ہوچکی تھی۔ میں نے فورا دہلی یونیورسٹی کا رخ کیا۔ وہاں ابھی داخلے کا سلسلہ چل رہا تھا۔ لہٰذا میرا داخلہ ہوگیا۔ اس وقت وہاں تقریبا دو سال قبل پروفیسر محمد نعمان خان صاحب کابحیثیت ریڈر تقرر عمل میں آیا تھا اور وہی صدر شعبہ تھے۔ پرفیسر نثار احمد فاروقی اور پروفیسرمحمد سلیمان اشرف اور پروفیسر محسن عثمانی ندوی شعبے کے موقر اساتذہ میں شامل تھے۔ غالبااسی سال پروفیسر ولی اختر ندوی کا تقرر عمل میں آیا تھا۔ یہ۹۸-۱۹۹۷ء کی بات ہے۔ اس وقت دہلی یونیورسٹی میں طلبہ کے لیے حاضری ضروری نہیں تھی۔ میرا قیام جامعہ نگر میں تھا جہاں سے دہلی یونیورسٹی آنے اور جانے میں تین چار گھنٹے لگ جاتے تھے لہٰذا میں نے دوبارہ اپنے استاد محترم پروفیسر فینان صاحب کی خدمت میں حاضری دی۔ اب ان کی اجازت سے میں ایم اے عربی کی کلاس میں ان سے ٹرانسلیشن پڑھنے لگا۔ پوری پابندی کے ساتھ میں نے ان سے ایک سال تک ٹرانسلیشن پڑھا۔ ٹرانسلیشن ہر چند کہ بہت خشک مضمون ہے مگر فینان صاحب کی خصوصیت یہ تھی کہ ٹرانسلیشن کی کلاس گویا جنرل نالج کی کلاس ہوجایا کرتی تھی۔ کوئی ایسی نامانوس اصطلاح یا مشکل لفظ نہیں ہوتاتھا جس کی تہ میں جاکر وہ اس کی تشریح نہ کرتے ہوں۔ ٹرانسلیشن کے دائرے سے نکل کر جب مختلف لفظوں کی وہ تشریح کرتے تو ایسا لگتا کہ ان کومختلف موضوعات پر کتنی گہری دسترس ہے۔ اس وقت انھوں نے عربی سے انگریزی اور انگریزی سے عربی میں جن موضوعات پر ترجمے کی مشق کرائی ان میں Patek Philip watch, Dubai National Bank, Saddam a hero in Valley, Barkly, Jaguar Car,  JK Pharmaceuticals,  Popov Swimmer, Su’ad Husni, Taliban, Indo Pak talks, Bloodless form of brain surgery, Golden Eye وغیرہ اہم موضوعات کے علاوہ کچھ دیگرسیاسی موضوعات بھی شامل تھے۔ مجھے اسی کلاس میں پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ 007کے نام سے کوئی انگریزی فلم بھی ہے اور بہت مشہور ہے۔ پہلی مرتبہ فینان صاحب کی زبانی معلوم ہوا کہ جیمس بونڈ کے نام سے انگریزی فلموں کا کوئی بہت مشہور ہیرو ہے۔ بارکلی نام سے کوئی مشہورسگریٹ ہوتی ہے۔ جیگوار کار نام کی کوئی مشہور زمانہ اور مہنگی کار بھی دنیا میں پائی جاتی ہے۔ سعاد حسنی نام کی کوئی عرب ہیروئن ہے جسے عربی اسکرین کی سنڈریلا کہاجاتاہے اور جسے شزوفرینیا کی بیماری لاحق تھی۔ دونوں کی فینان صاحب نے کیا لاجواب تشریحات کی تھیں۔ طب سے متعلق مذکورہ عنوان سے ایک پیراگراف کے ترجمے کی بھی مشق کرائی تھی۔ یہ پیراگراف بہت مشکل تھا مگر آپ نے طبی اصطلاحات کی اس طرح تشریح کی جیسے ہم لوگ میڈیکل کے طالب علم ہوں نہ کہ ٹرانسلیشن کے۔ ٹرانسلیشن بھی وہ اتنا خوب صورت اور معیاری کرتے ا ور کراتے تھے کہ کئی مرتبہ عربی سے انگریزی اور انگریزی سے عربی جملے محاورہ اور ضرب المثل کی شکل اختیار کرجاتے تھے۔ میرے پاس ان کے پڑھائے ہوئے ٹرانسلیشن کی کاپیاں آج بھی محفوظ ہیں۔ ٹرانسلیشن کی کاپیوں کو بھی وہ چیک کرتے تھے۔ مارکنگ کرتے تھے اور اپنا دستخط ثبت کرتے تھے۔

  بچوں سے وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ نئے نئے الفاظ اور ان کے معنی پر دھیان دو۔ روزانہ انگریزی اور عربی کے اخبار پڑھو۔ ٹی وی یا ریڈیو پر انگریزی اور عربی خبریں سنو۔ جو نئے الفاظ پردۂ سماعت سے ٹکرائیں ان کے معنی یاد کرلیا کرو۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب نہ تو ہر گھرمیں ٹی وی ہوتا تھا۔ نہ ہر کس وناکس کو عربی اخبار میسر تھے۔ کبھی کوئی سینئراستاد کسی عرب ایمبسی سے یا کسی عرب شیخ سے عربی اخبار حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا تویہ معجزہ ہی ہوتا تھا۔ آج کے زمانے میں انٹر نیٹ اور یو ٹیوب نے ساری مشکل حل کردی ہے۔ عالم عرب کے اخبارات اور عرب وعجم کے ٹی وی چینل انگلیوں کی گرفت میں سمٹ گئے ہیں۔ اب وہ معذرت قابل قبول نہیں کہ عجم میں بیٹھ کر عربوں سے استفادہ ممکن نہیں۔ عجمیوں کے لیے عربوں کی طرح لکھنے اور بولنے کی استطاعت کا تصور مشکل ہے۔ مجھے یاد ہے فینان صاحب نے بتایا کہ وہ آج بھی نئے نئے الفاظ کے معنی یاد کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس وقت ان کے پاس گاڑی نہیں تھی۔ انہوں نے بتایاکہ وہ کاغذ پر نئے نئے الفاظ اور ان کے معنی لکھ کر رکھ لیتے ہیں۔ جب کہیں جانے کے لیے بس اسٹاپ پر بس کا انتظار کرتے ہیں یا بس میں بیٹھے ہوتے ہیں یا رکشے سے کہیں جاتے ہیں تو اپنی جیب سے کاغذ کا وہی ٹکڑا نکال کر نئے نئے الفاظ کے معنی زبان زد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اکثر کہتے تھے کہ کلاس آتے جاتے، بسوں میں بیٹھ کر سڑک کے آس پاس کے پیڑ پودوں کو دیکھ کر کیا ملتا ہے۔ وہی سڑکیں اور وہی گھسے پٹے منظر جن کودیکھنے کے بجائے اپنی کاپی یا کاغذ نکال کر نئے نئے الفاظ یا اشعار یاد کیا کرو۔ انہوں نے بتایا کہ ڈی ٹی سی کی بسوں میں آتے جاتے انھوں نے عربی کے ہزاروں اشعار یاد کیے ہیں۔ ان کی اس سنت پر بہت سارے طلبہ عمل بھی کرتے تھے۔ خود میں نے بھی نئے نئے لفظ ومعنی کی کاپیاں بنائی ہوئی تھیں۔ الگ الگ کاغذوں پر نئے نئے الفاظ لکھ کر انہیں یاد کرنے کا اہتمام کرتے تھے۔ بس اسٹاپ پر بھی اور بسوں میں بھی۔

  پروفیسر فینان صاحب عربی کے مشہور اسکالر پروفیسر خورشید احمد فارق کے صاحبزادے ہیں۔ فارق صاحب خود عربی کے بہت بڑے اسکالر اور عالم تھے اور دہلی یونیورسٹی میں عربی شعبے کے پہلے صدر بھی۔ انہوں نے بہت ساری قابل ذکر کتابیں لکھیں ہیں جن میں ’’جائزے‘‘ ان کی معرکۃ الآراء تالیف ہے اور بارہ چودہ جلدوں پر مشتمل ہے۔ میں نے فینان صاحب سے پوچھا کہ آپ نے عربی کی تعلیم کیوں حاصل کی۔ عربی کے علاوہ کسی اور سبجکٹ میں جاسکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میری انگریزی بہت اچھی تھی۔ گویامجھے انگریزی پر عبور حاصل تھا۔ والد صاحب نے کہا تمہاری انگریزی اچھی ہے لہذا اگر عربی پر عبور حاصل کرلو گے تو بہت اچھے ٹرانسلیٹر بن جاؤ گے۔ لہٰذا انہوں نے دہلی یونیورسٹی میں ایم اے عربی میں ان کا داخلہ کرادیا۔ فینان صاحب نے عربی سے ایم اے کیا اور عربی زبان پر اتنی جانکاہی سے محنت کی کہ اس پر انہیں عبور حاصل ہوگیا اور وہ پورے ملک کے جانے مانے ٹرانسلیٹر اور انٹر پریٹر بن گئے۔ فلسطینی صدرمرحوم یاسر عرفات ایک مرتبہ جب دہلی آئے تو پروفیسر فینان نے ہی ان کی تقریر کی ترجمانی کی تھی۔ ان کی ترجمانی سے فلسطینی صدر بہت متاثر ہوئے اور ان کی بہت تعریف کی۔ یعنی یہ ان کے لیے کسی Achievement سے کم نہیں تھا۔ اس بات کا وہ اکثر ذکر کیا کرتے تھے، فخر کرتے تھے اور خوش ہوتے تھے۔ کیوں نہ ہو یہ خوشی کا مقام تھا ہی۔

  پروفیسر فینان صاحب نے شعبے کی صدارت کبھی قبول نہیں کی۔ جب بھی ان کی باری آئی تو ان کا لیٹر پہلے ہی سے تیار رہا اور انھوں نے انتظامیہ کو لکھ کر بھیج دیاکہ مجھے اس میں دلچسپی نہیں ہے۔ میں نے ایک مرتبہ ان سے پوچھا کہ آپ صدر شعبہ کیوں نہیں بننا چاہتے ؟ تو انہوں نے اس پر ایک لمبا لیکچر دے دیا۔ کہنے لگے میں صدر شعبہ بن کر کیا کروں گا۔ بچوں کے آئی کارڈ پر دستخط؟ ایسی صدارت سے کیا فائدہ؟ پھر انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ صدر شعبہ کے فرائض کیا ہوتے ہیں۔ اسے کیاکیا کرنا چاہیے۔ اسے اختیارات بھی ہونے چاہیے۔ ربر اسٹیمپ نہیں۔ انہوں نے کہا مجھے اختیار دو اور میں صدر شعبہ بننے کے لیے تیار ہوں۔ اس کے بعددیکھو کہ میں بحیثیت صدر شعبہ کیا کیا کرتا ہوں اور انہوں نے اپنے پروگراموں کی ایک طویل فہرست سامنے رکھ دی۔ جس سے ان کے گہرے  Vision  کا پتہ چلتا ہے۔ انہوں نے کہا اور میں لفظ بہ لفظ نقل کرتا ہوں کہ’’ صدر کو تو کوئی اختیار ہوتا نہیں، اگر کوئی مجھے صرف ایک دن کا وی سی بنادے تو اگرمیں ایک دن میں کچھ نہیں کرسکا تو جامعہ میں کم از کم ایک ایسا کھمبا لگوادوں گا جو نظام الدین سے نظر آئے گا اور لوگ کہیں گے کہ فینان نے ایک دن میں یہ کردیا‘‘۔ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ وہ حقیقی معنوں میں کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن سسٹم میں اس کی گنجائش بہت کم ہے۔ لہذا یہ صدارت ودارت تضییع اوقات سے زیادہ کچھ اور نہیں۔

  میں مدینہ یونیورسٹی سے چھٹیوں میں ہندوستان آیا تو ان سے ملاقات کے لیے ان کے گھر گیا۔ انہوں نے اس زمانے میں ایک کتاب لکھی تھی جس کا عنوان تھا۔ ما یلزم من العربیہ یعنی Essentials of Arabic Language۔ انہوں نے ایک ایک صفحے کو بڑی خوب صورتی سے سجایا ہوا تھا اور ایک تھیسس کی طرح سنوارا ہوا تھا۔ انہوں نے مجھے وہ مسودہ دیا اور کہا کہ دیکھو عالم عرب میں کہیں سے اگر یہ کتاب شائع ہوسکتی ہے تو کوشش کرلو۔ اس مسودے کو لے کرمیں ایک دو مکتبے میں گھوما۔ یہاں تک کہ ایک صاحب کے توسط سے میں نے ریاض میں وزارت تعلیم کے وکیل الوزارہ سے ملاقات کی اور یہ مسودہ دکھایا۔ انہوں نے فینان صاحب کا نام پڑھاتوہنسنے لگے۔ کہنے لگے۔ مؤلفہ رفیعَ العماد۔ الیس ہو طویل النجاد؟ میں اور میرے ساتھ جو صاحب تھے، سبھی ان کے اس لطیف نکتے سے محظوظ ہوئے۔ میں نے کہا نعم ہو طویل النجاد ایضا۔ اور میں نے بتایا کہ ان کے والد محترم دہلی یونیورسٹی کے عربی شعبے کے صدر اور استاد الاساتذہ ہیں۔ انہوں نے درحقیقت مشہور عربی شعر کی طرف اشارہ کیا جس میں یہ دونوں جملے وارد ہوئے ہیں۔ عربی کی مشہور مخضرم شاعرہ خنساء اپنے بھائی کی شہادت پر اس کا مرثیہ کہتے ہوئے اس پر فخر کرتی ہے اور کہتی ہے: رفیع العماد طویل النجاد، ساد عشیرتہ امردا۔ یعنی اس کا بھائی بڑارفیع النسب اور بلند وبالا مرتبے کا حامل تھا۔ اور اتنا بہادر تھا کہ کم عمری میں ہی اس نے اپنی قوم کی سیادت وقیادت کا فریضہ انجام دیا۔

 فینان صاحب چاہتے تو اس کتاب کو خود شائع کرلیتے لیکن ان کا مقصد تالیف کتاب بہت واضح تھا۔ انہوں نے یہ کتاب اے پی آئی اسکور جمع کرنے کے لیے نہیں لکھی تھی بلکہ یہ کتاب ان کے تدریسی تجربوں کا نچوڑ اور حاصل تھی۔ اسی لیے وہ چاہتے تھے کہ یہ کتاب زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے اور زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے استفادہ کریں۔ اس لیے وہ کسی معتبر پبلشر کے ذریعے اس کتاب کو شائع کرانا چاہتے تھے۔ انھوں نے ایک ملاقات میں مجھے بتایاتھا کہ عالم عرب کے کئی مکتبات نے اس کتاب کو شائع کرنے کی منظوری دے دی تھی لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ عربی عبارتوں اور مثالوں پر اعراب نہیں لگائیں گے کہ اعراب لگانا’’ کارے دارد‘‘ والا معاملہ تھا۔ فینان صاحب ٹھہرے اصول پسند انسان۔ ان کا خیال تھا کہ یہ کتاب  beginnersیعنی مبتدئین کے لیے لکھی گئی ہے اگر عربی عبارتوں میں، جملوں میں، مثالوں میں اعراب نہیں لگایا جائے گا تو وہ غیر عربی داں حضرات جو اس کتاب کے ذریعے عربی زبان سیکھنے کی کوشش کریں گے ان مثالوں کو اور ان جملوں کو کیسے پڑھ سکیں گے یعنی بہ الفاظ دیگر کتاب کا مقصد تالیف ہی فوت ہوجائے گا۔ لہذا انہوں نے اسے شائع کرنے کی منظوری نہیں دی۔

بعد میں یہ کتاب GoodWord نئی دہلی سے شائع ہوئی اور بے انتہا مقبول ہوئی۔ گذشتہ اٹھارہ برسوں میں اس کتاب کے تیرہ چودہ ایڈیشن اور re-prints شائع ہوئے جو اس کتاب کی مقبولیت کا واضح ثبوت ہیں۔ اس کتاب کا انڈونیشیائی زبان میں ترجمہ بھی ہوا۔ یورپ وامریکہ میں بھی اس کی بازگشت سنی گئی۔ بتانے والے نے بتایا کہ وہاں کے بک اسٹالوں پر اس کے نسخے فروخت ہوتے دیکھے گئے۔ یعنی یہ کتاب ایک شاہکار کی حیثیت سے منظر عام پر آئی اور عربی سے محبت کرنے والوں کے دلوں پر راج کرگئی۔ (اس کتاب پر میں الگ سے تفصیلی مضمون لکھوں گا۔ ان شاء اللہ )

 پروفیسر فینان نے ایک مرتبہ مجھ سے پوچھا تم کیا بننا چاہتے ہو؟ میں نے برجستہ کہایونیورسٹی میں لیکچرر۔ کہنے لگے کوئی اور آپشن۔ میں نے کہا کوئی نہیں۔ کہنے لگے نہیں بنے تو؟ میں خاموش رہا۔ ایک مرتبہ قطر سے ایک سرکاری ملازمت کا offer آیا تو انہوں نے میرے نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے وہاں بھجواکر دم لیا۔ واپس آیا اور یونیورسٹی میں برسرروزگار ہوگیا تو ایک ملاقات میں کہنے لگے کہو کیسے ہو۔ اب خوش ہو۔ میں نہ کہتا تھا جاؤ۔ بعد میں یہ سب بھی ہوجائے گا۔

 پروفیسر فینان بہت نفیس ونستعلیق قسم کے انسان ہیں۔ ہم نے اپنی طالبعلمی کے زمانے میں کبھی ان کی شیو بڑھی ہوئی نہیں دیکھی۔ کبھی انہیں کیجول ڈریس میں نہیں دیکھا۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ وہ ایک ہی رنگ کا، ایک ہی اسٹائل کا لباس ہمیشہ زیب تن کرتے تھے۔ ایک ہی طرح کی شرٹ، ایک ہی طرح کی پینٹ اور ایک ہی طرح کا جوتا ہمیشہ پہنتے تھے۔ ہم لوگ آپس میں کہتے تھے کہ شاید فینان صاحب ایک ساتھ ایک ہی طرح کے کپڑے سے درجنوں شرٹ سلواتے ہوں گے۔ کیونکہ ان کے لباس کو کبھی میلا نہیں دیکھا۔ ان کا لباس ایک جیسا ہوتا تھا مگر صاف شفاف۔

 وہ اپنے طلبہ سے بہت محبت کرتے تھے۔ مجھے بھی ان کی شفقت ومحبت کی بھینی بھینی خوشبو میسر ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنے طالبعلمی کے زمانے میں ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ ضرور فینان صاحب کے گھر بغیر کسی سابقہ اجازت کے دھمک جایا کرتا تھا۔ ان کی والدہ دروازہ کھولتیں، نام پوچھتیں اور پھر ان سے ملاقات ہوتی تھی۔ وہ اپنے قیمتی اوقات میں سے چند لمحے اپنے اس حقیر فقیر طالب علم کو دینے میں بالکل تردد نہیں کرتے تھے، نہ ان کے چہرے پر کبھی شکن آتی تھی۔

فینان صاحب حقیقی معنوں میں مربی تھے۔ وہ اپنے شاگردوں کی خاموش تربیت کرتے تھے۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ غور وفکر اور سوچنے سمجھنے کا طریقہ سیکھا، زندگی کرنے اورجینے کا گر سیکھا۔ محنت، جد وجہد، لگن اور پورے اخلاص سے کام کرنے کا جذبہ سیکھا۔ اچھے استاد کی خصوصیات کو جانا اور پہچانا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے انہیں ہمیشہ یاد کیا اور آج بھی کرتا ہوں۔ ان کی باتیں آج بھی میرے لیے مشعل راہ ہیں۔ ان سے میں نقشہائے حیات میں رنگ بھرتا ہوں اور انہیں ایک آئیڈیل استاد مانتا ہوں۔ اپنی کلاسوں میں، اپنے طلبہ اور شاگردوں سے ان کا ذکرخیر کرتا ہوں۔ ان کی یادوں کوان سے ساجھاکرتا ہوں اور انہیں بتاتا ہوں کہ ایسے اساتذہ سے ہم نے تعلیم حاصل کی ہے۔ اور ایک استاد کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔

  پروفیسر فینان صاحب پورے جوش ونشاط سے بھرے ہوئے تھے۔ بہت فعال تھے۔ پوری لگن محنت اور حوصلے سے تدریس کا فریضہ اس طرح ادا کرتے تھے جیسے ان کو اس سے حقیقی معنوں میں عشق ہو، نشہ ہو۔ ٹرانسلیشن پر وہ بے انتہا توجہ دیتے تھے اورپوری دلچسپی سے پڑھاتے تھے۔

 طلبہ کو مارکیٹ کے لیے تیار کرتے تھے۔ خود بھی بڑی بڑی عالمی کانفرنسوں میں انٹر پریٹر کی حیثیت سے شرکت کرتے تھے۔ بلکہ ان کا نام ایک برانڈ کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اخیر میں انہوں نے’’ کار وافکار‘‘ کے ہجوم کی وجہ سے کانفرنسوں میں بحیثیت انٹر پریٹر جانا بند کردیا لیکن موقع ومحل کے اعتبار سے ٹرانسلیشن کا کام بھی کرتے تھے اور مختلف مناسبتوں پرانٹر پریٹیشن بھی۔ وہ اسے چھوڑ بھی کیسے سکتے تھے۔ یہی ان کی شناخت اور پہچان تھی۔

پروفیسر فینان نے ہمیشہ اپنے طلبہ کی زندگیوں میں رنگ بھرا اور میرے جیسے تشنگان علم وادب کو سیراب کیا۔ دو چار ماہ قبل جامعہ ملیہ اسلامیہ کے عربی شعبے سے بڑی خاموشی سے سبکدوش ہوگئے۔ میں سمجھتا ہوں ان کی سبکدوشی سے عربی کے ایک سنہرے عہد کا خاتمہ ہوگیا۔ صدر شعبہ پروفیسر محمد ایوب ندوی نے ان کی الوداعی تقریب منعقد کرکے بڑا اہم فریضہ انجام دیا۔ جس کے لیے وہ پوری عربی برادری کی طرف سے شکر وامتنان کے مستحق ہیں۔

 دعا ہے کہ اللہ تعالی پروفیسر فینان صاحب کو صحت اور عمر طویل عطا کرے اور انہیں سلامت رکھے او ر خوش بھی۔ میں نے ان کی شاگردی میں بڑے اچھے لمحے اور سنہرے دن گزارے ہیں جن کے سہارے یہ سطریں قلمبند کرسکا۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ کہیں کہ میں ان کی تعریف میں بہت کچھ کہہ گیا لیکن یہ سطریں تعریف نہیں حقیقت ہیں۔ ایک شاگرد کا اس کے استاد کو خراج تحسین ہیں۔

تازہ خواہی داشتن گر داغہائے سینہ رہا

گاہے گاہے باز خواں ایں قصۂ پارینہ را

3 تبصرے
  1. imteyaz waheed کہتے ہیں

    Article is very nice and well written.

  2. شاہد حبیب فلاحی کہتے ہیں

    بہت ہی عمدہ اور اور زبردست تحریر… بہترین خراجِ تحسین.

    1. جلیس أحمد کہتے ہیں

      زبردست اور حوصلہ بخش مضون

تبصرے بند ہیں۔