مریم لحسن امجون: دوسو کتابیں پڑھنے والی نوسالہ بچی

نایاب حسن

’’مطالعہ عقل و فکرکا ذخیرہ اور معلومات کا خزانہ ہے، جوشخص اسے اختیار کرتاہے، وہ برتری اور سیادت حاصل کرتا، اس کے فوائد و نتائج سے بہرہ ورہوتا اور کامیابیوں سے ہم کنار ہوتاہے اور جو شخص اس سے دامن کش رہتاہے، وہ زندگی میں ذلیل و خوار ہوتا، بے وقعتی کی زندگی گزارتا اور فقر و محتاجگی کا شکار ہوتا ہے، مطالعہ جہالت، غربت اور بیماریوں میں غرق اقوام کی نجات و خلاصی کا ضامن ہے، مطالعہ زندہ قوموں کی علامت ہے، مطالعہ عقول وافکار کی علاج گاہ ہے، اگر آپ اسے اختیار کریں، تویہ آپ کا مرتبہ بلند کرے گا، آپ کے اخلاق کو شستگی عطاکرے گااور آپ کے ذہن کو تیز کرے گا‘‘۔ یہ جملے مراکش کے شہر ’’فاس ‘‘ سے تعلق رکھنے والی ایک نوسالہ بچی مریم لحسن امجون کے ہیں، اس نے یہ باتیں دبئی میں 30؍اکتوبر2018کو منعقدہ’’تحدي القراء ۃ العربي‘‘کے زیر عنوان منعقدہ عالمی مسابقے کے آخری راؤنڈمیں حکم کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہیں، حکم نے اس سے سوال کیا تھاکہ اگر مثال کے طور پر ٹوئٹر پر آپ کے دس لاکھ فالوورزہوں، توآپ ان کو کیاپیغام دینا چاہوگی؟اس سوال کا جواب مسابقے کے اصول کے مطابق ساٹھ سکینڈیعنی ایک منٹ کے اندر دینا تھا؛چنانچہ اس بچی نے متعینہ وقت کے اندر پہلے تویہ کہاکہ میں اپنے فالوورزکویہ بتاؤں گی کہ اس مسابقے میں شرکت اور یہاں تک پہنچنے کے لیے مجھے کتنی محنت کرنی پڑی اور کن مراحل سے گزرناپڑا، اس کے بعد اس نے اپنے دس لاکھ فالوورزکو وہ پیغام دینے کی خواہش ظاہر کی، جو اوپر درج کیاگیاہے۔

  یہ مسابقہ متحدہ عرب امارات کے نائب صدراوردبئی کے وزیراعظم و سربراہ شیخ محمد بن راشد المکتوم کے زیر اہتمام 2015میں شروع کیے ایک پروجیکٹ کے تحت ہر سال کرایاجاتاہے، جس میں عربی و غیر عربی ممالک سے لاکھوں طلباوطالبات شریک ہوتے ہیں اورامتیازی طورپر کامیاب ہونے والے طالب علم، ادارے اور متعلقہ نگراں وٹرینر کو مجموعی طورپر تین ملین امریکی ڈالرکی خطیر رقم بہ طورانعام دی جاتی ہے۔ اس مسابقے کا مقصد یہ ہے کہ عالمِ عربی کے طلباوطالبات میں کتب بینی کا ذوق و شوق پیدا کیاجائے، ان کے ذہن و دل میں مطالعے کی عادت کو راسخ کیاجائے، ان کی عربی زبان و ادب کی صلاحیت کو بہتروممتاز کیاجائے؛تاکہ وہ اپنے مافی الضمیر کی ادائیگی خوش ااسلوبی اور پرکشش طریقے سے کرسکیں، ان کی فکری و تنقیدی صلاحیتوں کو پروان چڑھایاجائے، عالمِ عربی میں پائے جانے والے علم ومطالعے کے بحران پر قابوپایاجائے، ایک ایسی نئی نسل تیار کی جائے، جو حصولِ علم اور مطالعے کا جذبۂ فراواں رکھتی ہو، ایک منظم و مستقل سسٹم کے تحت طلبامیں مطالعے کے رجحان کوفروغ دیاجائے اور ان کے دل میں حب الوطنی کے ساتھ اس احساس کو بھی مضبوط کیاجائے کہ ان میں کا ہر فردپوری ملت کے مقدر کا ستارہ ہے۔ اس پروجیکٹ کے تحت مسابقے کا سلسلہ ہر سال پہلی کلاس سے بارہویں کلاس تک کے طلباوطالبات کے مابین پہلے ملکی سطح پر مارچ سے ستمبر تک چلتا ہے، اس مدت میں انھیں پانچ مرحلوں میں پچاس کتابوں کے مطالعے اور ان کی تلخیص تیار کرنے کا ٹاسک دیاجاتاہے، جس میں دسیوں ممالک کے لاکھوں طلباوطالبات شرکت کرتے ہیں، پھر ان میں امتیازی درجات کے ساتھ کامیاب ہونے والے طلباوطالبات کے مابین اکتوبر کے مہینے میں دبئی میں فائنل مسابقے کا انعقاد ہوتاہے، اس میں جو طالب علم کامیاب ہوتاہے، اسے پانچ لاکھ اماراتی درہم، جبکہ امتیازی پوزیشن حاصل کرنے والے تعلیمی ادارے کو ایک ملین درہم اور ممتاز نگراں و معلم کو آٹھ لاکھ درہم بہ طور انعام دیے جاتے ہیں۔

مریوم امجون نے پہلے اپنے ملک میں 3842تعلیمی اداروں سے شرکت کرنے والے تین لاکھ بچوں میں اعلیٰ پوزیشن حاصل کی تھی، پھر وہ دبئی پہنچی، جہاں دنیابھر کے چودہ عربی اور متعدد غیر عربی ممالک سے تعلق رکھنے والے دس ملین طلباوطالبات کوپیچھے چھوڑتے ہوئے اس نے اپنی ذہانت و ذکاوت، طلاقتِ لسانی، شیرینیِ گفتار، فکرونظرکی زرخیزی وشادابی اورستحضارِ ذہنی کی ایسی مثال قائم کی کہ دنیاحیران و ششدررہ گئی، معصوم مسکراہٹوں، منوراور درخشاں آنکھوں والی اس لڑکی نے محض ایک منٹ کی اپنی گفتگو میں وہ باتیں کیں، جنھیں سوچنے اور زبان پر لانے میں عام انسان کی عمریں بیت جاتی ہیں، وہ منظر بھی دیدنی تھا، جب حاکمِ دبئی محمد بن راشدالمکتوم نے پدرانہ شفقت کے ساتھ اپنے ہاتھوں سے اسے نشانِ امتیازوفتح مندی عطاکیااور اس کی آنکھوں سے ڈھلکنے والے خوشی کے موتیوں کو اپنے قیمتی رومال میں سمیٹ لیا۔ مراکش کی اس  لڑکی نے صرف دنیاکو مطالعہ و کتب بینی کا پیغام نہیں دیاہے؛بلکہ محض نوسال کی یہ بچی، جس نے پانچ سال کی عمر میں حروف و الفاظ کی شناخت اور ان کی قراء ت کا سلسلہ شروع کیا، وہ خود اب تک تقریباً دو سوکتابیں پڑھ چکی ہے اوردلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کتابیں کسی ایک موضوع سے متعلق نہیں ہیں، ان میں مذہبیات سے لے کرتاریخ، سائنس، سماجیات، اخلاقیات، ادبیات، سیرت و سوانح، طب ؛ ہر قسم کے موضوعات شامل ہیں، مزید دلچسپ؛بلکہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس بچی کی سرعتِ مطالعہ کا عالم یہ ہے کہ وہ گھنٹے بھر میں دوسو صفحات کی ایک پوری کتاب کامطالعہ کرسکتی ہے، پھر اس بچی کو یہ معجزاتی وصف یوں ہی حاصل نہیں ہوا، اس کے والدلحسن امجون فلسفہ کے استاذ اور اس کی والدہ نیچرل سائنس کی ٹیچرہیں ؛چنانچہ شعور سنبھالنے کے اول دن سے ہی یہ بچی کتابوں میں سانس لے رہی اور علم و نظر کے نوبہ نوتجربات سے آشنارہی ہے، سو اس کی اس عظیم کامیابی میں اس کے ذاتی ذوقِ علم و شوقِ مطالعہ کے ساتھ یقینااس کے والدین کی بے مثال علمی تربیت کابھی دخل ہے۔

اس تاریخی کامیابی کے حصول کے بعد دنیابھر کے بے شمار اخباراور ٹی وی چینلوں نے مریم امجون سے انٹرویوزکیے، اس کی پسندیدہ کتابوں کے بارے میں پوچھا اور یہ پوچھاکہ وہ آیندہ کیابننا چاہتی ہے؟اس نے اپنے بارے میں بتایاکہ وہ ایک آرکیٹیکٹ بنناچاہتی ہے، البتہ کتابوں سے عشق اس کا عام ہے، کسی ایک موضوع میں محدود نہیں ہے، اپنے بارے میں اس کاکہناہے کہ وہ ایک شہد کی مکھی ہے، جو کسی ایک پھول کے رس پراکتفانہیں کرتی؛بلکہ مختلف النوع پھولوں کا رس چوس کر شہد جمع کرتی ہے، البتہ اسے ماقبل اسلام کا عربی شاعر، صاحبِ معلقہ عنترہ بن شدادعبسی زیادہ پسند ہے اور اس کی ایک وجہ اس نے ایک چینل پرانٹرویوکے دوران یہ بتائی کہ اس کی شاعری میں ایک مخصوص قسم کی لذتِ شعری، موسیقیت، نغمگی اور دقتِ معانی و افکار پائی جاتی ہے، پھر وہ عنترہ کے دونہایت معنی خیز اشعار پڑھتی ہے، جن میں اس نے بنوعبس کی خاندانی شرافت و بلند اخلاقی کا ذکر کیاہے:

قدکنت فیمامضی أرعی جمالہم

والیوم أحمي حماہم کلمانکبوا

للہ دربنيعبس لقدنسلوا

من الأکارم ما قدتنسل العرب

(ایک دور وہ بھی گزراہے، جب میں ان کے اونٹ چرایاکرتاتھا اور آج جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے، تومیں ان کا دفاع کرتاہوں، اللہ قبیلۂ بنوعبس کو جزاے خیر دے کہ اس نے ایسے شریف الاخلاق لوگوں کو جنم دیاہے، جوعربوں میں اورکہیں پیدانہیں ہوتے ہیں )

پھروہ کہتی ہے:دوسری وجہ یہ ہے کہ ایک شاعر ہونے کے ساتھ وہ بہادر اور شجاع انسان بھی تھا، جس نے اپنی عزت نفس، اپنے قبیلے اور اپنی محبوبہ کی خاطر مخالف قوتوں کا بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا، قطعِ نظر اس کے کہ عنترہ بن شداد کی شخصیت و تخلیقات میں وہ اسباب تلاش کیے جائیں، جن کی وجہ سے مریم امجون اس سے متاثرہے، یہ جاننا ہی نہ صرف غیر عرب اہلِ علم و ادب؛بلکہ خود عربوں کے لیے بھی حیرت انگیز تجربہ ہوگا کہ ایک نوسال کی بچی ماقبل اسلام کے شاعرسے نہ صرف واقف ہے؛بلکہ وہ اس کی شخصیت و فن کے وجوہِ امتیاز پربھی تنقیدی نگاہ رکھتی ہے، ویسے آرکیٹیکٹ بننے کی تحریک بھی اسے دوسال قبل وفات پانے والی دنیاکی مشہور ماہرِ تعمیرات عراقی نژادبرطانوی خاتون زُہاحدید(1950-2016)سے ملی ہے، یہ وہ خاتون ہے، جس نے چین سے لے کر امریکہ، برطانیہ، جرمنی، اٹلی، ڈنمارک اور آسٹریا تک کی دسیوں مشہور ترین و دلکش عمارتوں، اوپیراہاؤسز، آرٹ میوزیم، ہوائی اڈوں اورسٹیڈیمز کے نقشے بنائے اور انھیں خوب صورت نقشے سے دلکش پیکرمیں تبدیل کیاہے، وفات تک بھی وہ متعدد تعمیراتی منصوبوں پر کام کررہی تھی، جن میں سے ایک دوحہ قطر میں ’’الوکرہ‘‘سٹیڈیم بھی ہے، جہاں 2022میں فیفا عالمی کپ کے مقابلے ہونے ہیں۔

  بہر کیف یہ چھوٹی سی بچی دنیاکو علم و مطالعے کی بے پناہ قوت کی ایک جھلک سے روشناس کرواتے ہوئے اپنے جیسے عالمِ عربی و غیر عربی کے لاکھوں کروڑوں بچوں، بڑوں اور تمام انسانوں کے لیے’’ سفیرِ علم و کتاب‘‘ بن کر سامنے آئی ہے، اس کے حسنِ زبان وبیان کی وجہ سے اسے عربوں میں ’’فصیحۃ العرب ‘‘ کے لقب سے نوازاجارہاہے، اس کا سراپاعرب کے حسنِ طبیعت کا خوب صورت نمونہ اوراس کی ذہانت و ذکاوت بے پناہ ہے، اس کی پیشانی کی چمک روشن مستقبل کی غماز ہے اور علم و کتاب کے تئیں اس کا والہانہ پن صرف اس کے فصیح و بلیغ، جوے سلسبیل کی طرح رواں دواں وشیریں عربی لب ولہجے میں محسوس کیاجاسکتاہے، لفظوں میں نہیں ڈھالاجاسکتا!

تبصرے بند ہیں۔