پلکوں پہ حسیں خواب سجانا ہے ضروری

جمیل اخترشفیق

پلکوں پہ حسیں خواب سجانا ہےضروری

دل   درد   سے   آزاد   کرانا   ہے  ضروری

آجائے کبھی انکے اگر گھر سے بلاوا

امید نئ باندھ کے جانا ہے ضروری

خاموشی کی دیمک نہ کہیں کھوکھلاکردے

گر شور   ہے  اندر   تو  سنانا  ہے   ضروری

برباد نہ کردے مجھےحسرت کا توقف

مر ہم نہ سہی زخم دکھانا ہے ضروری

پھر صبح کی کرنیں انہیں مایوس نہ کردیں

سوئے  ہیں  اگر  وہ  تو  جگانا   ہے  ضروری

ہوتا ہے بہت یار تکلّف میں خسارا

ہوجائے اگر پیار، بتانا ہے ضروری

 مصروف اگرچہ ہیں شفیق اپنےمیں سب لوگ

جینے  کے  لیے ملنا ملانا ہے  ضروری

تبصرے بند ہیں۔