پھوس کا گھر

محمد حسن

برسات کا موسم تھا، بارش ہورہی تھی اور ہوئے جارہی تھی، یہ پانچواں دن تھا، مسلسل بارش ہورہی تھی، بارش تھمنے کے کوئی آثار نہیں دکھ رہے تھے، آسمان پر کالے بادل پانی کا ٹینک لئے منڈلا رہے تھے، کبھی کبھار دس، بیس منٹ کے لئے بارش رکتی، آسمان صاف ہوتا، بادل اِدھر اُدھر ٹہلتے اور جلد ہی آسمان کالے جامن کی شکل اختیار کر لیتا اور موسلا دھار بارش شروع ہوجاتی، مَستان کا گھر  پھوس اور مٹی کا  تھا، سال کے باقی دن تو بڑے عیش سے گزرتے، مَستان پردیس کمانے چلا جاتا  اور خوب بیگ بھر کر پیسے لاتا، اس کےبیوی بچے اور ماں بہت ٹھاٹ سے کھاتے اور گاؤں بھر کی خبر رسانی کرتے۔

 اس کی ماں پورے  گاؤں کے خبروں کی ہیرا پھیر ی کرنا  اپنی ذمہ داری سمجھتی، صبح اور رات کے کھانے کے بعد جب تک پورے گاؤں کا چکر نہ لگاتی اسے دن کو چین پڑتا نہ رات کو راحت ملتی، گاؤں کا  دوسراکنارہ ہمیشہ اس کے پیروں تلے رہتا، ابھی گاؤں کے اس طرف نظر آتی تو چند ہی لمحوں میں گاؤں  کے اس پار کسی کے ساتھ الجھتی دیکھی جاتی، اس کی زبان کیا  تیز  چلتی، قینچی بھی لگ جائے تو خودکٹ جائے، باتیں گھما پھرا کر  کہنے  میں اسے پوری مہارت حاصل تھی، گالی گلوج میں تو اس نے جیسے پی۔ ایچ۔ڈی کی ہو، کسی کی بھی عزت یوں سکنڈوں میں اتار دیتی اور شریف زادے  تواس سے پناہ مانگتے رہتے۔

 کس کی بیوی، کس کا شوہر، کس کی ساس، کس کی نند، کس کی بھوجائی  کا کردار کیسا ہے ان کے گھر والوں سے بھی زیادہ یہ واقفیت رکھتی۔ یہاں تک کے سسرال کی خبر میں بھی بڑا پختہ تھی اور کھانے میں تو اس کا کوئی جوڑ نہ تھا پانچ مردوں کے برابر اکیلا کھاتی، تین کیلو گوشت بھی اس کے لئے کم پڑ جاتا، ایسا کبھی نہ ہوتا کہ اس کو کھانے میں کمی ہو لیکن اتفاق سے کبھی مستان نے پیسہ بھیجنے میں دیر کردی اور ہفتہ بنا گوشت کا گزرا تو  پاگل ہوجاتی، جس کے گھر بھی گوشت پکتاسونگھ کر پہونچ جاتی اور دو وقت کےبرابر یہ بول کر مانگ لاتی کہ مستان کا بچہ رو رہا ہے اس وقت کہاں سےخرید کر لائیں۔ اور مستان کی  بیوی جی اماں، جی اماں کئے رہتی، اس کے ہر کام میں ساتھ دیتی اورہر رائے میں جی حضوری کرتی لیکن بے چاری تھی بہت شریف اس نے شاید سوچا بھی نہ ہو کہ ایسی ساس سے پالاپڑے گا جو رات دن ایک کئے رہے گی اور ہمیشہ طوفان مچائے رکھے گی، شروع میں تو ساس کی عادتیں اس کو بہت عجیب لگتیں، وہ بہت شرم محسوس کرتی اور بسا اوقات  کسی کام کے بگڑ  جانے پراسے بہت شرمندگی اٹھانی پڑتی لیکن دیکھتے ہی دیکھتےوقت نے اس کو بھی سب کچھ سیکھا دیا، اس نے سمجھ لیا کہ جیسا دیش ویسا بھیس اپنانا ہی پڑے گا اور  مستان کی ماں یعنی اپنی ساس کا بھی استاد ہوگئی، پورے گاؤں میں صرف وہی تھی جو  اپنی ساس کو ٹکر دے سکتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ پانی پاپ کو دھو دیتا ہے اور یہی تصور مذہب میں بھی قائم ہے جیسے زمزم کا پانی اور گنگا کا جل، لیکن برسات کا پانی اس کے طوفان کو  اور بڑھا دیتا اوراس طوفان سے گاؤں والے نہیں  بلکہ مستان کے باپ کی خیریت بگڑجاتی۔

 مستان کے باپ بے چارے مظلوم شوہروں میں سے ایک تھے، لوگ گاہے بگاہے جہاں ان کا مذاق اڑاتے اور ان کی مردانگی کو ورغلاتے  وہیں  گھر کے حالات کا بھی ذمہ دار ٹھہراتے۔ جیسے جیسے بارش کی  رفتار تیز ہوتی  پھوس کے چھت پر رکھا ہوا پلاسٹک  پانی کی بہاو میں اِدھر اُدھر کھسک جاتا،تیز ہوا میں ایک طرف جمع ہوجاتا اور پانی سیدھا بستر  پر اپنا دھار بنا لیتا اور پھرمستان کی ماں جہاں اپنے شوہر کو سات نسل کی جلی کٹی سناتی وہیں  اس کی بیوی مستان کی عزت نیلام کرتی دونوں مل کر خوب محفل جماتے اور برسا ت بھر یہی سلسلہ چلتا رہتا جب تک برسات کا موسم ختم نہ ہو اسی طرز پر زندگی چلتی  رہتی، مستان اور اس کے باپ کو ہلدی لگتی رہتی۔

 مستان بہت غیرت مند اور ہمت ور جوان تھا، محنت سے کمائی کرتا، پیسے بچاتا اور گھر میں خرچ کے لئے بھیجتا رہتا لیکن غریبی نے کس  کی عزت رکھی ہےو ہ بھی غریبی کے سامنے رسوا رہتا، ہر بار اس کے باپ عہد لیتے کہ اس بار میرا بیٹا آئے گا تو ساری حقیقت کھول کر اس کے سامنے رکھ دوں گا لیکن بے چارہ مستان  پانچ دس دن کے  لئے گھر ہی آتا اور باپ غیرت کے مارے اس سےکچھ  کہ نہ پاتے۔ اتفاق  کی بات ہے، بارش میں اس کا کام بند ہوگیا، مالک نے کہا، اس بار جب تک بارش ختم نہ ہو کام نہیں ہوگا اور اس کا حساب کتاب کرنےکے بعد گھر سے گھوم آنے کا مشورہ دیا، مستان بھی بہت خوش ہوا، اس کا گھر دس پندرہ گھنٹے کا راستہ تھا سوچا کیوں نہ  گھر چلا جاؤں  پریوار بھی دیکھ لوں گا اور دن بھی ہنسی خوشی سے گزر جائیں گے، اسی سوچ کے ساتھ اس نے ٹرین پکڑی اور روانہ ہوگیا،بارش بہت تیز تھی، اسٹیشن پہونچنے کے بعد اس نے اپنا سامان پلاسٹک کے ایک تھیلے میں رکھا اور دو کیلو میٹر کی دوری پر اس کا گاؤں تھا پیدل چل دیا۔ دوپہر کے دو بج رہے تھے،  جب وہ اپنے گھر کے پاس پہونچااس نے اپنی ماں اور بیوی کی آواز سنی، (اس کے گھر کے  پیچھے ایک بانس تھا، جدھر سے  گھر کا راستہ تھا) وہیں چھپ کر  ان کی باتیں یعنی گالیاں سننے لگا جو اسے اور اس کے باپ  کو،(جو گھر کے باہر برسات میں کھڑے تھے) دی جاری تھیں، کچھ دیر سننے کے بعد جب اس سےرہا نہ گیا  تو اس نے اپنے باپ کو مخاطب کرکے کہا….ابا   !…اُٹھاوَ..لاٹھی… پھاڑَ …پیٹھ….(لاٹھی اٹھائیے اور پیٹھ پھاڑئیے) اتنا سننا تھا کہ دونوں کے ہوش اڑگئے اور دونوں ادھر ادھر بھاگنے لگی، وہ اپنے باپ کے پاس آیا، سلام کیا اور پوری کہانی پوچھا، اس کے باپ نے بتایاکہ بیٹے ہر بار تم گھر کی مرمت اور اینٹوں کے لئے جو پیسہ بھیجتے تھے تمہاری ماں اور تمہاری بیوی فضول خرچی میں اڑا دیتی، اس بار بھی ویسے ہی ہوا اور ہر بار میں سوچتا کہ تم کو بتاؤں لیکن اپنی ناکامی کس کو بتاتا۔

 مستان نے سب رفع دفع کیا، فورا بازار گیا، نئی پلاسٹک خرید ی، گھر کے اوپر ڈالا، سب نے مل کر گھر کے اندر کا پانی صاف کیا اور کھانا پینا ہوا۔ پھر جب برسات کا موسم ختم ہوا، مستان نے  جو پیسے کما کر لائے تھے اس کی اینٹیں خریدی اور پختہ چھت کا گھر بنوایا اور کبھی پردیس کمانے نہیں گیا، وہیں پاس میں دن بھر مزدوری کرتا اور شام کو اپنے گھر کی خبر رکھتا، اس کے اس عمل سے جہاں پورے گاؤ ں میں شانتی تھی وہیں ہر جگہ اس کا چرچا ہوتا اور مستان اپنی دنیا میں مگن اپنے بیٹے کو اسکول بھیجتا اور دن رات اس کو ڈاکٹر بنانے کے سپنے دیکھتا رہتا، بیس سال کے بعد اس کے گھر کا ماحول بدل گیا تھا، اس کے باپ بہت خوش تھے اور  اپنے پوتے کو ڈاکٹر  صاحب، ڈاکٹر صاحب  اس کی کلینک میں کرسی پر بیٹھے اطمینان سے پکار رہے تھے اور من ہی من پھوس کے گھر کا تصور لئے مسکرا رہے تھے۔

تبصرے بند ہیں۔