نسیم حجازی کی ناول نگاری (قسط 1)

آصف علی

"بہتی ہوئی ندیوں کی قوت ودل کشی کناروں کےبغیرقائم نہیں رہ سکتی۔ جوموجیں ٹوٹےہوئےکناروں سےباہرنکل جاتی ہیں ان   کو   جوہڑ اوردلدل جذب کرلیتےہیں۔اگرمیں اپنےادب کوشفاف پانی سےتشبیہ دینےکی جسارت کرسکتاہوں تومجھےاس حقیقت کااعتراف بھی کرناپڑےگاکہ علامہ اقبال اورمولانامودودی میرےوہ مضبوط کنارےتھےجنھوں نےمجھےآلودگیوں سےپاک رکھا اور میرے بہاؤ کا رخ متعین کردیا۔ اورمولاناشبلی نعمانی نےمجھےتاریخ اسلام کی وہ دل کش جھلکیاں دکھائیں جن سےمیری داستان رنگین ہوئی۔ (نسیم حجازی)

ادب کی دنیا میں  ناول کی صنف  شاید قارئین پر اثر انداز ہونے  والی تحریروں کے اعتبار سے سب سے زیادہ موثّر ٹھہرے۔ بنیادی وجہ تو یہ ایک ناول دس سے بیس طویل  افسانوں جتنا ابلاغ بھی کرتا ہے اور ساتھ ہی بات کو افسانے کی نسبت زیادہ تفصیل اور وضاحت سے کہہ  بھی سکتا ہے۔ ناول کا مقابلہ اگر مضامین سے کیا جائے تو قاری کی دلچسپی ہمیشہ سے کہانی میں زیادہ رہی ہے۔ مکالمہ، تجسس، تحیّر اور سلاستِ زبان عام قاری کے لیے  کہانی یا داستان کو کسی بھی ثقیل مضمون کی بہ نسبت زیادہ قابلِ قبول  بناتی ہے۔
ہندوستان کے مسلم معاشرے میں دینی کتب سے ہٹ کر کچھ پڑھنے کو بالعموم معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اس لحاظ سے ناول کی بھی اس معاشرے میں کوئی پذیرائی نہیں تھی۔ ڈپٹی نذیر احمد نے ناول کی افادیت کو سمجھا مگر ان کے ناولوں میں وعظ کا پہلو نمایاں تر رہا اس لیے ان کو ناول مشکل سے ہی کہا جا سکتا ہے۔ ناولوں میں تاریخی ناول کا مقام سب سے ارفع کہا جا سکتا ہے۔

 بقول شمس الرحمٰن فاروقی:

"تاریخی ناول شاید ناول کی نمایاں ترین قسم ہے۔ تاریخ کو پڑھ لینا، تاریخی صداقتوں کو اپنے ذہن میں محفوظ کر لینا ایک الگ عمل ہے۔ اس کے لیے تاریخ کی کتابیں ہوتی ہیں ۔ لیکن تاریخ کو پیش کرتے وقت اس وقت کا صحیح ما حول، رہن سہن، گفت و شنید کے آداب، محاور ے، پوشش کے طریقے، کھانے پینے کے انداز، لڑنے، جنگ کر نے یا زندگی کے کسی دوسرے اہم کارنامے کو پورے طور پر جذب کر نے اور ان کا مکمل نقشہ پیش کر نے کے لیے تاریخ کو لا شعوری طور پر ناول کا سہارا لینا پڑا۔ کیونکہ اس وقت کی سچی تصویر پیش کر نے کا اس سے زیادہ موثر ذریعہ نہیں ہو سکتا۔ اسی وجہ سے تاریخ نے ادب کی تمام اصناف سخن میں ناول کی خصوصیات کا احترام کرتے ہوئے نہایت گرم جوشی سے اسے گلے لگا یا۔ کیونکہ ناول کی مقبولیت اور مقصدیت کو دیکھتے ہوئے مورخین کو یہ احساس ہو چکا تھا کہ تاریخ کو جتنی کامیابی تاریخی ناول کے ذریعہ مل سکے گی کسی اور صنف کے ذریعہ نہیں ۔”

 اردو ادب میں عبد الحلیم شرر  اور رتن ناتھ سرشار نے ناول کی ابتدا کی اور  مرزا ہادی رسوا نے اسے نکھارا۔  شرر نے پچیس تاریخی ناولوں میں  اپنا ناول ملک العزیز ورجنا 1988 میں اور اپنی وفات سےتقریباایک سال قبل  1925 میں  مینابازارلکھا ۔  ان کے علاوہ منصورموہنا،فردوس بریں،فتح اندلس بھی مشہورہیں۔

تاریخی ناول کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں میں سیاسی  بیداری پیدا کرنے کا خیال، شرر کے بعد، دیر سے سہی لیکن شاید سب سے پہلے نسیم حجازی کو آیا۔ انہوں نے بہت موثر انداز میں تاریخ کو  رومانوی  افسانویت کے ساتھ ملا کر پے در پے ضخیم ناولوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا  جس نے دیکھتے ہی دیکھتے قارئین کی ایک بڑی تعداد کو متوجہ کیا اور نسیم حجازی کا نام شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔ شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ دور نسیم حجازی سے شروع ہوا اور انہیں پر ختم ہو گیا۔

” ان کے ناول ’خاک و خون‘ پر ایک فلم اور ان کے دو ناولوں ’شاہین‘ اور ’آخری چٹان‘ پر پی ٹی وی نے ڈرامے بھی بنائے ۔ جنہوں نے مطالعے کا ذوق نہ رکھنے والے اور بغیر پڑ ھے لکھے لوگوں تک بھی ان کا پیغام مؤثر انداز میں پہنچادیا۔” (پروفیسر عقیل بلاگ)

نسیم حجازی نےاپنی تاریخی ناول نگاری کاآغازآخری چٹان سےکیااورحسب ذیل اکیس ناول لکھے، جن میں  سے چند  رنگِ مزاح  بھی لیے ہوئے ہیں۔

1- آخری چٹان، 1947

2- آخری معرکہ،  1953 محمود غزنوی کے حوالے سے

3- اندھیری رات کےمسافر، 1988

4- اورتلوارٹوٹ گئی،  1958، ہندوستان میں مسلمانوں کے زوال پر

5- داستان مجاہد

6- گمشدہ قافلے، 1991

7- انسان اوردیوتا

8- کلیسااورآگ، 1978

9- خاک اورخون

10- محمدبن قاسم، 1945

11- معظم علی،   1957

12- پاکستان سےدیارحرم تک، 1960، سفرنامہ

13- پردیسی درخت، 1989

14- پورس کےہاتھی، 1965

15-قافلہ حجاز، 1965

16- قیصروکسریٰ، 1963- 1962 ، ابتدائے اسلام کے پس منظر میں

17- سفیدجزیرہ، 1958

18- ثقافت کی تلاش، 1995

19- شاہین

20- سوسال بعد، 1946

21- یوسف بن تاشفین، 1951 اسپین کے پس منظر میں

تبصرے بند ہیں۔