ہماری سیاسی بے چارگی!

ڈاکٹر عابد الرحمن

ملکی سیاست میں ہم مسلمانوں کی اوقات شطرنج کے پیادے سے زیادہ کبھی نہیں رہی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جس طرح پیادوں کے بغیر شطرنج کی بساط مکمل نہیں ہو سکتی اسی طرح ہمارے بغیر ملکی سیاست بھی مکمل نہیں ہو سکتی۔ اگر ہم ملکی سیاست کے منظر نامے سے معدوم ہو جائیں تو بہت ساری کیا سبھی سیاسی پارٹیوں کا کاروبار ٹھپ ہو جائے گا ایسے ماحول میں سیاست کرنا ان کے لئے ناکوں چنے چبانے کے مترادف ہو گا یہی وجہ ہے کہ ملک کی تقریباً سبھی سیاسی پارٹیاں ہمیں اہمیت دیتی ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارے انتشار اور ہماری قیادت کے سستے پن کی وجہ سے ہماری یہ اہمیت ہمیشہ منفی رہی ہے جوہمارے حق میں کبھی بھی فائدہ مند نہیں ہوئی۔سیاسی چالوں میں شطرنج کے پیادوں کی طرح ہمارے پٹ جانے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا مسلم قیادت کو بھی نہیں ،بلکہ کوئی بھی سیاسی پارٹی اگر ہمارے نام پر کوئی سیاسی چال چلتی ہے تو اس سے اسکا مطلب ہمیں پٹوا کر کسی بڑی چال میں کامیابی حاصل کرنا ہی ہوتا ہے۔

 آزادی کے بعد سے یہی ہوتا آرہا ہے چونکہ آزادی کے بعد سے اب تک مسلسل کانگریس ہی ملک کے سیاہ وسفید کی مالک رہی ہے اس لئے ہمیں اس حال کو پہنچانے میں اسی کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ اس نے ہمارے نام جو بھی سیاست کی وہ اپنے مفاد کے لئے ہی کی۔ سچر کمیٹی نے ہمارے جن زخموں کو عیاں کیا ہے وہ کانگریس ہی کے لگائے ہوئے ہیں کیونکہ وہ سب اسی کے دور اقتدار کی روداد ہے۔ کانگریس پارٹی نے ہمارے ووٹوں کے لئے ہمارے لئے کچھ کام کر نے کی بجائے انتہائی گندی سیاست کی وہ یہ کہ ہمارے خلاف اشتعال انگیزیوں سے لے کر فسادات تک میں خاطیوں کی نشاندہی ہو جانے کے با وجود بھی انہیں چھوٹ دیتی رہی محض اس لئے کہ ہم ان سے ڈرے رہیں اور انہیں اقتدار میں پہنچنے سے روکنے کے لئے کانگریس کو ووٹ دینا اپنا فرض سمجھتے رہیں اور ہماری قیادت نے بھی کبھی اس چکرویو سے نکلنے کی فکر نہیں کی بلکہ مخالفین سے ڈرا ڈرا کر کانگریس کو ووٹ دینا ہی وقت کی اہم ضرورت قرار دے کر پوری قوم کو کانگریس کے اس چکریومیں بری طرح پھنسا دیا۔

 کانگریس کی اس سیاست کی وجہ سے بی جے پی اور اس کی قبیل کی پارٹیاں مضبوط تر ہوتی رہیں ، انہوں نے مسلم ووٹ اور کانگریس کی ووٹ بنک سیاست کا اتنا شور مچایا کہ ملکی سیاست میں ہم اکثریت سے بالکل الگ کر دئے گئے، انہوں نے ایک طرف تو ہم کو ملکی سیاست کا ویلن کردیا اور دوسری طرف مسلمانوں کے تئیں کانگریس سمیت اپنی سبھی مخالف پارٹیوں کی کسی بھی مثبت بات یہاں تک کہ ہمارے خلاف ہورہے جرائم کے خلاف محض آواز اٹھانے کو بھی’ مسلمانوں کی منھ بھرائی ‘ قرار دے کر ہمیں ملکی سیاست کے حاشیہ سے بھی بے دخل کر دیا۔ اب ہمارا حال یہ ہے کہ ہم جس طرف جائیں گے اکثریت کی اکثریت اس کے خلاف ووٹنگ کرے گی، ہم جس کی حمایت کا اعلان کریں گے اور جس کے لئے پرشور کام کریں گے دیش کی اکثریت بلا شرط اس کے مخالفین کی طرف جانا اپنا فرض سمجھے گی، نہ اس کا کام دیکھے گی، نہ اسکے وعدوں کا حساب پو چھے گی اور نہ ہی اپنی حالت زار کی کوئی فکر کرے گی۔

 ابھی دیکھئے مودی حکومت کام کو لے کر سوالات کے گھیرے میں ہے تو جگہ جگہ ہندو مسلم کے اعلانات ہو رہے ہیں ، مسلم مخالف اشتعال انگیزیاں کی جا رہی ہیں ، اعلان کیا جا رہا ہے کہ الیکشن اسلام اور بھگوان کے درمیان ہوگا، سڑکیں اور پانی کے متعلق نہیں بلکہ ہندو مسلم اور رام مندر بابری مسجد کے متعلق ہوگا۔ بی جے پی نے ہم کو اپنی منفی سیاست کا طاقتور ترین مہرہ بنا لیا ہے جس کی وجہ سے دوسری سیاسی پارٹیاں بھی ہمارا نام لینے تک سے ڈر رہی ہیں ۔ کانگریس نے تو صاف طور پر اس بات کا اعلان کردیا ہے کہ وہ مسلمانوں کی وجہ سے ہاری، اس لئے ہاری کہ لوگوں نے اسے مسلمانوں کی پارٹی سمجھ لیا۔ سوال اٹھتا ہے کہ کیا کانگریس کو مسلم ووٹوں کے کھسک جانے کا خوف نہیں جو اس نے بار بار یہ بات دہرائی ؟

تو صاحب کانگریس یہی تو سمجھتی ہے کہ مسلمان اس کے سوا کہیں نہیں جا سکتے،سو اسے کیا فرق پڑتا ہے جو یہ پیادہ پٹ جائے۔ وہ تو مسلمانوں کے نام منفی سیاست کر رہی ہے تاکہ ملک کی اکثریت کو پیغام دے سکے کہ وہ بھی بی جے پی کی طرح مسلمانوں سے دور ہو رہی ہے اور گجرات اسمبلی انتخابات کے دوران اس نے اس کا ثبوت بھی دیا جہاں راہل گاندھی نے اپنی پوری پرچار مہم میں مسلمانوں کے متعلق ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ سیاسی طور پر ہی نہیں سماجی طور بھی ہمارا حال کچھ مختلف نہیں ہے، ہمارے تئیں منفی سیاست نے سماج کو ہمارے خلاف کردیا ہے۔اب کم علم عوام ہی نہیں پڑھے لکھے لوگ اور سیکولر سمجھے جانے والے غیر سیاسی دانشور بھی ہمارے خلاف وہی باتیں کر رہے ہیں جو بی جے پی اور سنگھ کی وچار دھاراہی سے میل کھاتی ہیں ۔

ملک کا یہ سیاسی اور سماجی ماحول ہمارے لئے انتہائی فکر انگیز ہے،انتہائی سنجیدگی سے سوچنے کا مقام ہے کہ ہم کیا کریں ، کدھر جائیں ، اس وقت ہم سیاسی بے چارگی کے اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں ایک طرف ملکی سیاست ہے کہ جس میں کوئی ہمارے ساتھ آنے کو تو کیا ہمارا نام بھی لینے کو تیار نہیں ، دوسری طرف ہمارے مخالفین ہیں جو مسلسل اکثریت کے سامنے ہمیں ملک دشمن بنا کر پیش کر رہے ہیں اور اس میں انہیں خاطر خواہ کامیابی بھی مل رہی ہے، تیسری طرف کچھ ہمارے اپنے ہیں کہ جن کی اشتعال انگیز سیاست خود ہی ہمارے مخالفین کا کام آسان کر رہی ہے اور چوتھی طرف خلوص اور قوم کے درد کا لبادہ اوڑھے کچھ لوگ ہیں جو ہمیں بے وقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کر نے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہے ہیں ،ایسے لوگ ہمارے مخلص رہنماؤں کا نام اور کام استعمال کر کے اپنا کام نکال رہے ہیں جس سے ہمارا سب سے بڑا نقصان یہ ہورہا ہے کہ قوم کی اکثریت خاص طور سے نوجوان مخلص قیادت سے بدظن ہوئے جارہے ہیں ، ہمیں اور ہماری مخلص قیادت کو بھی ایسی کالی بھیڑوں کو پچان کر انہیں اپنی صفوں سے دو ہٹانا ہوگا۔

ہمیں یہ بات اچھی طرح ذہن میں رکھناچاہئے کہ ہم جتنا شور مچائیں گے، طاقت کا جتنا مظاہرہ کریں گے جتنے جذباتی نعرے لگائیں گے، اپنے حقو ق کی جتنی جارحانہ باتیں کریں گے، مخالفین کے لئے جتنے خراب الفاط استعمال کریں گے، اکثریت اسی قدر ہم سے دور اور ہمارے مخالفین کے خیمے میں جمع ہو تی جائے گی۔ کٹھوعہ میں جو درندگی کی گئی اس نے ملک کے ہندوؤں کی اکثریت کا سربھی شرم سے جھکا دیا ہے اوراسے ہندو مسلم تفریق سے اوپر اٹھا کر سڑکوں پر لے آئی ہے، وقتی طور پر ہی سہی اس نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک کردیا ہے خدا کرے کہ یہ اتحاد قوی اور دیر پا ہوکر نفرت اور اس کے پرچارکوں کو ملک سے کھدیڑ دے لیکن اس کے لئے ہماری ذمہ داری بھی کم نہیں ، ہمیں یہ خیال رکھنا ہوگا کہ اس نازک اتحاد کو توڑ نے والی کوئی بات ہماری طرف سے سرزد نہ ہوہمارے مخالفین تو یہی چاہیں گے کہ کسی نہ کسی طرف سے، کسی نہ کسی ایجنٹ کے ذریعہ یا کسی دلال کو موٹی دلالی دے کر اس پر اکسایا جائے سو ہمیں عوامی طور پر زمینی لیول تک انتہائی چوکنا رہنا ہوگا، ایسے منافقین اور دلالوں کو پہچان کران کی چالوں کو سمجھ کر منظم طریقے سے انہیں ناکام کرنا ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔