انسان اور زمین کی حکومت (قسط 34)

رستم علی خان

چنانچہ حضرت ایوب کی بیوی انہیں جہاں چھوڑ کر گئی تھیں وہاں نہ پا کر روتی اور گریہ زاری کرتی پھر رہیں تھیں- تبھی قریب سے حضرت ایوب نے انہیں پکار کر پوچھا کہ اے بی بی بھلا بتاو تو تم کیوں اس قدر روتی اور گریہ زاری کرتی ہو اور بھلا اس میدان بیابان میں کسے ڈھونڈتی پھرتی ہو ؟ تب بی بی دوڑی ہوئی ان کے قریب گئیں اور کہنے لگیں کہ اے نیک بزرگ یہاں پر میرا شوہر تھا اس درخت کے سائے میں لٹا کر گاوں میں مزدوری کے واسطے گئی تھی اور پہلے بھی جاتی تھی لیکن آج اسے غائب پاتی ہوں اپنی جگہ سے تو اسی کے غم میں رو رہی ہوں کہ کہیں اسے کوئی درندہ نہ لے گیا ہو شیر یا بھیڑیا نہ اسے پھاڑ کھا گئے ہوں- چنانچہ حضرت ایوب نے کہا غم نہ کرو ممکن ہے کہیں ادھر ادھر ہو گیا اور تھوڑی دیر میں آتا ہو- تب بی بی اور شدت سے روئیں اور غم اپنا بیان کیا کہ وہ تو بیمار اس قدر ہیں کہ ہلنے اور حرکت تک کرنے کی طاقت بھی خود میں نہیں رکھتے سو وہ کیسے کہیں جا سکتے ہیں کہ پچھلے اٹھارہ برس سے تو ذی فرش ہیں اب بھلا آج اچانک کیسے کہیں چلے جانے کی طاقت آ گئی- اور مزید کہا کہ تم مجھے کوئی نیک فرشتے لگتے ہو اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے پس تمہی میری مدد کرو ایوب کو ڈھونڈنے میں کہ اس میدان میں اللہ کے سوا میرا کوئی مددگار نہیں ہے-

تب حضرت ایوب نے ان سے پوچھا کہ اچھا بھلا بتاو تو وہ کیسا نظر آتا تھا تاکہ پہچان اس کی کر سکوں اگر مل جائے تو- تب بی بی نے کہا کہ اے نیک بزرگ جب وہ جوانی و تندرستی اور خوشحالی کے دور میں تھا تب وہ بلکل تمہارے جیسا ہی دکھتا تھا- لیکن ابھی بیماری اور ضعیفی نے اس کے خد و حال کو بدل دیا تھا- جسم کا گوشت تک کیڑوں نے کھا لیا تھا اور اب تو وہ بلکل ایک ڈھانچہ تھا ہڈیوں کا-

تب حضرت ایوب مسکرائے اور اپنی بیوی سے فرمایا کہ غور سے دیکھ میں ہی ایوب ہوں- تب بی بی نے کہا بھلا نیک لوگ کسی کی بے بسی کا مذاق اڑایا کرتے ہیں ؟ بیشک ایوب صحت و جوانی میں آپ کے جیسے دکھتے تھے لیکن اب تو بیماری، ضعیفی اور بدحالی نے ان کا نقشہ ہی بدل دیا تھا تو کیسے ممکن ہے کہ آپ ہی ایوب ہوں اور پھر کوئی اتنی جلدی کس طرح ایسی بیماری سے نکل سکتا ہے کہ کوئی آثار بیماری کے بھی جسم پر نہ رہیں- تب حضرت ایوب نے انہیں جبرائیل علیہ السلام کی آمد سے لیکر چشمے میں غسل کرنے اور اپنے مکمل طور پر صحت یاب ہونے تک کی ساری بات بیان کی اور یہ بھی کہ اللہ تعالی کو ان کا صبر پسند آیا ہے سو اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ میری تمام املاک جو مجھ سے چھن گئی تھی وہ اور اتنی ہی اور بھی عطا کرے گا- اور انہیں مہر نبوت بھی دکھائی تب بی بی کو پکا یقین ہوا کہ یہی ایوب علیہ السلام ہیں تب وہ آپ کے قریب آئیں اور ایک دوسرے سے خوشی سے ملے-

بعد اس کے حضرت ایوب واپس اپنے گاوں آ گئے تب اللہ نے آپ سے کیا وعدہ پورا فرمایا آپ کا مال و اسباب جانور مویشی گھر بار سب واپس عطا کیا اور جتنا پہلے تھا اپنی قدرت سے اس سے دوگنا زیادہ عطا کیا- آپ کی بیویاں اور غلام رشتے دار اور محلے والے جو بیماری میں آپ سے نفرت کرنے لگے تھے سب واپس آ گئے اور معافی کے طلبگار ہوئے- چنانچہ حضرت ایوب نے ان سب کو معاف کر دیا اور فرمایا کہ میرے رب کی طرف سے ایسا ہی تھا اور میں اس کی رضا میں راضی ہوں- علاوہ اس کے جو اولاد آپ کی چھت کے نیچے دب کر مری تھی اللہ نے انہیں بھی جلا بخشی اور حضرت ایوب کو مزید اولاد سے بھی نوازا- بیشک اللہ بڑا رحیم و کریم ہے-

اب حضرت ایوب کو اپنی قسم اور عہد کا دھیان آیا جو انہوں نے بیماری میں اپنی بیوی سے ناراض ہونے پر کیا تھا کہ جب ٹھیک ہوں گا تو اسے سو لکڑی ماروں گا- چونکہ حضرت ایوب کی بیوی رحیمہ ہی بیماری میں آپ کیساتھ رہیں اور جب ساتھ چھوڑ گئے تب بھی وہ آپ کی خدمت میں لگی رہیں اور تمام مصیبتیں ساتھ اٹھائیں- اس لئیے جناب ایوب کو ان سے لگاو زیادہ ہوا اور وہ رحیمہ کو سزا دینا نہ چاہتے تھے لیکن اپنی قسم سے مجبور تھے اور قسم توڑنا نہ چاہتے تھے-

تب جبرائیل امین اللہ کا حکم لے کر نازل ہوئے اور فرمایا کہ اے ایوب اپنی بیوی رحیمہ کو ہر گز رنج نہ دے اور نہ مار کی تکلیف دے وہ ہرگز سزا کے لائق نہیں ہے کہ وہ تیری بیماری میں تیرے ساتھ رہی جب سب نے تیرا ساتھ چھوڑ دیا اور خدمت بجا لانے میں کبھی کوئی کوتاہی نہ کی اور تیرے ساتھ وہ بھی صبر اور شکر کرنے والوں میں سے ہوئی پس تو اسے اپنی رفیق جان سمجھ اور پہلے کی نسبت زیادہ پیار و محبت والا معاملہ اس کے ساتھ روا رکھ- تب حضرت ایوب نے اپنی قسم کا عذر پیش کیا تو جبرائیل نے فرمایا کہ اس بارے حکم اللہ کا یہ ہے کہ تم گندم کے سو خشک تیلے لو اور انہیں جوڑ کر (مٹھے کی صورت) مارو تو یکبارگی سو لکڑیاں مارنے کی قسم پوری ہو گی اور کوئی بوجھ قسم کا تم پر نہ رہے گا اور نہ ہی رحیمہ کو رنج اور تکلیف اس سے ہو گی- چنانچہ حضرت نے ایسا ہی کیا اور اپنی قسم پوری کی- بعد اس کے بی بی رحیمہ کو سب سے بڑھ کر پیار و محبت سے رکھا- اور پھر بیماری اور بدحالی کے بعد آپ اور بھی رغبت سے اللہ کی عبادت کرتے اور پیغام حق لوگوں تک پنہچاتے اور اسی طرح عرصہ اڑتالیس سال کا گزرا اور پھر وفات پائی۔

حضرت ابراہیم کے بیٹوں میں سے ایک بیٹا مدیان بھی تھا جس سے آگے قبیلہ مدین بنا- جب ان لوگوں میں سرکشی بڑھی تو اللہ تعالی نے اپنی سنت کے مطابق ان میں بھی نبی شعیب علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تاکہ ان کو ہدایت و ایمان کے راستے کی راہنمائی کریں
حضرت شعیب (علیہ السلام) تیسرے عرب نبی ہیں جن کا اسم گرامی قرآن کریم میں بیان ہوا ہے۔ اور عرب انبیاء یہ تھے: حضرات ہود، حضرت صالح، حضرت شعیب اور حضرت محمد (علی نبینا وآلہ و علیہم السلام)۔ آپ کا نام قرآن کریم میں گیارہ بار ذکر ہوا ہے۔ اللہ تعالی نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو مَدْیَن اور اَیکہ کے لوگوں کی طرف بھیجا تاکہ آنحضرت ان لوگوں کو خدائی دین اور وحدانیت کی طرف ہدایت کریں اور بت پرستی اور برائیوں سے نجات دیں۔ مدین ایسا شہر تھا جو سرزمین معان، شام کے قریب، حجاز کے آخری حصہ میں قرار پایا تھا۔ مدین کا قبیلہ مدین بن مدیان بن ابراہیم کی نسل سے وجود میں آیا- وہاں کے لوگ بت پرستی، برائی اور لین دین میں خیانت اور دھوکہ بازی کرتے تھے۔ ناپ تول میں کمی اور خرید و فروخت میں خیانت کرتے حتی پیسوں کے سکوں میں سونا چاندی کو کم کرنا، ان میں عام تھا اور دنیا سے محبت اور دولت اکٹھا کرنے کی وجہ سے دھوکہ اور فریب دیا کرتے تھے اور طرح طرح کی معاشرتی برائیوں کے عادی تھے۔

اللہ تعالی نے مدین کے لوگوں میں سے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو نبوت کے لئے مبعوث کیا تاکہ ان کو اور ان کے آس پاس والے لوگوں کو گناہوں سے نکال کر توحید کی طرف پکاریں۔ پروردگار عالم نے سورہ ہود میں حضرت شعیب (علیہ السلام) اور آنحضرتؑ کی قوم کے بارے میں فرمایا ہے؛

اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا تو انہوں نے کہا کہ اے قوم! اللہ کی عبادت کر کہ اس کے علاوہ تیرا کوئی خدا نہیں ہے اور خبردار ناپ تول میں کمی نہ کرنا کہ میں تمہیں بھلائی میں دیکھ رہا ہوں اور میں تمہارے بارے میں اس دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں جو سب کو احاطہ کرلے گا”۔

اور سورہ عنکبوت میں فرمایا ہے:

"اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا تو انہوں نے کہا کہ لوگو اللہ کی عبادت کرو اور روزِ آخرت سے امیدیں وابستہ کرو اور خبردار زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو”۔ اور نیز اصحاب الایکہ کے بارے میں سورہ شعراء میں فرمایا ہے:

” اور جنگل کے رہنے والوں نے بھی مرسلین کو جھٹلایا۔ جب ان سے شعیب نے کہا کہ تم خدا سے ڈرتے کیوں نہیں ہو۔ میں تمہارے لئے ایک امانتدار پیغمبر ہوں۔ لہذا اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو”۔

بعض بزرگوں نے حضرت شعیب علیہ السلام کو خطیب النبیاء کے نام سے بھی یاد کیا ہے- کیونکہ جب آپ اپنی قوم کو ایمان کی دعوت دیتے ہوئے فصاحت و بلاغت اور اعلی عبارت سے کام لیتے تھے-

مدین کے لوگ کافر تھے راہزنی کرتے اور مسافروں میں دہشت پھیلاتے- اور ایکہ کی پوجا کرتے "ایکہ” ایک خاص قسم کا درخت تھا جس کے ارد گرد درختوں کے جھنڈ تھے- اس کے علاوہ ان لوگوں کا لین دین کا معاملہ بھی بہت برا تھا- ناپ تول میں کمی کرتے لیتے وقت بڑے پیمانے سے ماپتے اور بڑے باٹوں سے تولتے اور دیتے وقت چھوٹے پیمانے اور چھوٹے باٹ استمعال کرتے- چنانچہ حضرت شعیب نے ان کو ان کاموں سے رکنے کا کہا- اور انہیں اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرنے اور اس کے حکموں پر چلنے اور اللہ کی قائم کردہ حدود سے تجاوز نہ کرنے کا حکم دیا-

حضرت شعیب (علیہ السلام) نے لوگوں کو اللہ کا حکم پنہچایا کہ سے قوم تم ناپ تول ٹھیک کرو اور لوگوں کے ساتھ بدیانتی والا سودا نہ کرو اور نہ ہی کسی کا حق دباو اور بت پرستی اور شرک چھوڑ کر ایک اللہ کی عبادت کرو- اس حکم کے بعد فوراً اس کے اسباب کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

پہلے کہتے ہیں:اس نصیحت کو قبول کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اچھائیوں کے دروازے تمھارے لئے کھُل جائیں گے، تجارت کو فروغ حاصل ہوگا، چیزوں کی قیمتیں گر جائیں گی، معاشرے کو سُکھ چین نصیب ہوگا، خلاصہ یہ کہ ”مَیں تمہارا خیر خواہ ہوں “ اور مجھے اعتماد ہے کہ یہ نصیحت تمھارے معاشرے کے لئے خیروبرکت کا سرچشمہ بنے گی-

اور پھر کہا کہ اگر تم اپنی ضد پر اڑے رہے اور نافرمانیوں سے باز نہ آئے تو تم پر عذاب الہی نازل ہو گا اور جو عذاب قوم نوح، قوم ہود، قوم صالح اور قوم لوط پر آئے تھے، وہ بھی ان کو یاد دلوائے اور ان کے برے کاموں سے دستبردار ہونے کی نصیحت پر پوری کوشش کی، لیکن ان کا طغیان، کفر اور فسق ہی بڑھتا رہا۔

ان لوگوں نے کہا کہ اے شعیب کیا تمہاری نماز تمہیں حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے آباو اجداد کے پرستشوں کو چھوڑ دیں اور اپنے کاروبار کے اصولوں کو بدل ڈالیں اگر ایسا ہے تو تم صریح گھاٹے میں ہو-

تب حضرت شعیب نے کہا کے اے قوم کیسے ممکن ہے کہ میں وہ کام کروں جس سے میں تم سب کو روکتا ہوں جبکہ اللہ نے مجھے اچھا رزق بھی دے رکھا ہے- میں تو بس سمجھا سکتا ہوں جتنی مجھ میں ہمت اور توفیق ہے اور پھر میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تم میرے دشمن نہ ہو جاو اور تمہارا حال بھی ان قوموں سا ہو جو انبیاء سے دشمنی کے نتیجے میں ہلاک ہوئیں اور پھر قوم لوط کا حوالہ دیا کہ اس کی ہلاکت کو تو جانتے ہی ہو وہ تو زیادہ دور کی بات نہیں ہے-

الغرض آپ نے ہر طرح سے قوم کو سمجھایا لیکن ان لوگوں میں سے سوائے چند افراد کے کوئی ایمان نہ لایا۔ بلکہ آں حضرت کو اذیت دی، مذاق اڑایا، دھمکی دی اور دیگر افراد کو آنحضرت کی فرماں برداری سے منع کیا۔

جو راستہ بھی حضرت شعیب پر اختتام پذیر ہوتا تھا اس پر بیٹھ جاتے اور گزرنے والے لوگوں کو حضرت شعیب (علیہ السلام) کے پاس جانے سے ڈراتے اور جو آنحضرت پر ایمان لائے تھے انہیں اللہ کی راہ سے منع کرتے اور اللہ کے راستے کو ٹیڑھا دکھاتے اور کوشش کرتے کہ جتنا ہوسکے لوگوں میں اِس راستے کی نفرت پھیلائیں۔ اور پھر الزام لگانا شروع کردیا، کبھی آنحضرت کو جادوگر کہتے، کبھی كذّاب (جھوٹا) کہتے۔ انہوں نے آنحضرت کو دھمکی دی کہ اگر آپ تبلیغ سے دستبردار نہ ہوں تو ہم آپ کو سنگسار کریں اور دوبارہ آنحضرت اور آنحضرت پر ایمان لانے والوں کو دھمکی دی کہ ہم تمہیں شہر سے نکال دیں گے، مگر یہ کہ ہمارے بت پرستی کے دین پر آجاو۔ انہوں نے اپنے اس کردار کو باقی رکھا یہاں تک کہ آنحضرت ان کے ایمان لانے سے بالکل ناامید ہوگئے اور ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا اور دعا کی اور اللہ تبارک و تعالی سے فتح طلب کی، عرض کیا:

"خدایا تو ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق سے فیصلہ فرمادے کہ تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے”۔ اس دعا کے بعد اللہ تعالی نے عذاب یوم الظلہ نازل کیا، جس دن سیاہ بادلوں نے ہر جگہ پر اندھیرا کردیا اور سیلاب بہانے والی بارش برس گئی۔ اس جھٹلانے والی قوم نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ اگر واقعا سچے ہو تو ہمارے اوپر آسمان کا کوئی ٹکڑا نازل کردو، حضرت شعیب (علیہ السلام) نے کہا کہ ہمارا پروردگار تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

تبصرے بند ہیں۔