پھول سا چہرہ جو کمھلایا ہوا لگتا ہے

مقصود اعظم فاضلی

پھول سا چہرہ جو کمھلایا ہوا لگتا ہے
چاند پر ابر کوئی چھایا ہوا لگتا ہے

کھویا کھویا سا نظر آتا ہے کچھ روز سے وہ
جانے کیا بات ہے گھبرایا ہوا لگتا ہے

آج کل شہر کے موسم میں حرارت ہے بہت
آج کل شہر میں وہ آیا ہوا لگتا ہے

بے وفا کہہ دیا میں نے بڑی نادانی کی
آج کل خود سے وہ شرمایا ہوا لگتا ہے

اہل گلشن جو ہوئے دست و گریباں باہم
جال دشمن کا یہ پھیلایا ہوا لگتا ہے

بند ہو جائے گی اک دن یہ کرنسی کہہ دو
اپنی دولت پہ جو اترایا ہوا لگتا ہے

وہ جو غیروں سے بڑھاتا ہے روابط اعظم
کسی اپنے کا وہ ٹھکرایا ہوا لگتا ہے

تبصرے بند ہیں۔