پیغمر اسلام ؐ کا منشور اسلامی

ترتیب : عبدالعزیز

ہم مسلمان اکثر وبیشتر سیرت رسولؐ کے جلسوں اور اجتماعات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر طائف کا ذکر سنتے ہیں ۔ حضرت عائشہؓ کے پوچھنے پر کہ آپؐ کو جنگ احد سے بھی زیادہ اپنی زندگی میں کب تکلیف اٹھانی پڑی تو آپؐ نے سفر طائف کا حال بیان کیا کہ اس سفر میں مجھے زندگی میں سب زیادہ مصائب والم کا سامنا کرنا پڑ۔ا طائف والوں نے مجھ پر پتھر برسائے اور مجھے لہولہان کر دیا۔ تسلی وتشفیٰ دینے کیلئے حضر ت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ پہاڑوں کا فرشتہ آیا جس نے مجھ سے کہا کہ اگر آپ حکم دیں تو ان کو دو پہاڑوں کے درمیان کچل کر رکھ دوں ۔ آپؐ نے ایسا کرنے سے منع کیا  اور کہا کہ میں رحمت کے لیے آیا ہوں زحمت کیلئے نہیں انکی نسل میں سے لوگ کلمہ حق پڑھیں گے۔ اللہ کی عبادت کرینگے اور شرک سے باز آجائیں گے۔ طائف کے قبیلہ ثقیف کے لوگ عرب کے قبائل میں سے سب سے آخر میں اسلام قبول کرنے پر مجبور ہوئے اور قبول اسلام کی شرائط کو بھی چھوڑا۔ حافظ محمد ادریس نے آج کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے آنحضرتؐ کے سفر طائف کا بیان اپنی کتاب "گلدستہ ٔ سیرت مصطفیٰ ؐ”میں تفصیل سے کیا ہے۔

 وہ لکھتے ہیں : دور جدید میں مسلمان خود کو زبان سے تو اسلام کے پیر وکار کہتے ہیں مگر عملاً اسلام کی تعلیمات سے دور چلے گئے ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ آج اسلام کا دعویٰ کرنے والے نہ تیتر ہیں نہ بیٹر۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے نام مسلمانوں جیسے ہوں ، نکاح مسلمانوں کے طریقے پر ہو، مرجائیں تو جنازہ نصیب ہو اور مسلمانوں کے قبرستان میں قبر ہو۔ دوسری جانب عملی پہلود یکھیں تو شادی جاہلی رسوم ورواج کے ساتھ منعقد ہوتی ہے اور زندگی کا ہر معمول غیر اسلامی تہذیبوں کا چربہ ہوتا ہے۔ سیاست سے لے کر معیثت تک اور تعیلم سے لے کر معاشرت تک ہر معاملے میں غیر اسلامی طرز عمل دھوم دھڑلے سے اپنا یا جاتا ہے۔ یہ محمد عربیؐ کے غلاموں کا طریقہ نہیں ہوسکتا ۔ بندۂ مومن کا تو کام یہ ہے کہ جو کچھ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے اسے مضبوطی سے پکڑلے اور جس چیز سے وہ منع فرمادیں ، اسے مکمل طور پر ترک کر دے۔

ہماری معیشت سود پر مبنی ہے، ہماری اشرافیہ شراب نوشی کی مجرم ، ہمارا معاثرتی ڈھانچہ مخلوط محفلوں اور قص وسرود کا غلیط ڈھیر ، نماز میں ہم عیدین، جنازہ یا جمعہ کی نماز تک محدود، پھر سوچنے کی بات ہے کہ اللہ ورسول کی نظروں میں ہمارا کیا مقام ہوگا؟ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے دعوے اپنی جگہ مگر اتباع رسولؐ میں کوتاہی کیسے برداشت کی جاسکتی ہے۔ علامہ اقبال نے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے :

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود

یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کر شرمائیں یہود!

یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو ، افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو ، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟

  سیر ت رسولؐ کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں ہر سوال کا عملی جواب مل جاتا ہے ۔ طائف کے قبیلہ بنو ثقیف کے لوگ اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کے دشمن تھے۔ طائف کا سفر سیر ت نبویؐ کا وہ باب ہے جسے پڑھتے ہوئے کتابوں کے اوراق بھی سچے عاشقان رسول ؐکے اشکوں سے تر ہو جاتے ہیں ۔ یہ لوگ فتح مکہ اور غزوہ حنین و ہوازن کے بعد اسلام قبول کرنے پر آمادہ ہوئے تو انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شرائط پیش کیں جو حدیث اور تاریخ میں منقول ہیں ۔

بنو ثقیف کا وفدمدینہ آیا تو آپؐ کے ثقفی صحابی مغیرہ بن شعبہ ؓ نے ان کی بڑی آؤبھگت کی ۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کا قبیلہ مسلمان ہوجائے۔ ایک دوسرے صحابی حضرت خالد بن سعید جن کی والدہ بنوثقیف سے تھیں ، ان لوگوں کو کھانا فراہم کرتے رہے۔ حضرت خالد بن سعیدؓ بڑے عالم ، فاضل اور مجاہد صحابی تھے۔ حبشہ اور مدینہ دونوں جانب ہجرت کا شرف حاصل کیا۔ اسی لئے "صاحب ذی ہجرتین”کہلاتے تھے۔ ایک دن حضر خالد بن سعید ؓ بنو ثقیف کو آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت لے کر آئے تو ان لوگوں نے آحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ وہ اسلام قبول کر نا چاہتے ہیں مگر ان کی شرائط یہ ہیں :

(1) انھیں شراب نوشی کی اجازت دی جائے۔ (2) ان کے لئے سود کی حرمت ساقط کردی جائے۔ (3) انہیں زنا کی سزاسے متثنٰی قرار دیا جائے۔(4) نماز کی پابندی ان پر سے ساقط کر دی جائے۔ (5) ان کے بت لات کو مستقل نہیں تو کم از کم تین سال کے لئے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔

انحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ شرائط پہنچائی گئیں تو آپؐ نے ان کو یک سر مسترد کردیا ۔ آپؐ جانتے تھے کہ ان شرائط کو ماننے کے بعد اسلام نہیں ،کفرباقی رہ جاتا ہے۔ حضرت مغیرہؓ اس دور ان وفدکو بھی سمجھا تے رہے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی مسلسل رابطے میں رہے۔ وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی درخواست کرتے رہے کہ یا رسول اللہ! ان سے نرمی برتی جائے۔ ایک بار یہ اسلام میں داخل ہوجائیں تو ان کی تربیت بھی ہوجائے گی اور یہ غیر اسلامی شعائر بھی ترک کردیں گے۔  آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مغیرۃؓ کو پیار سے سمجھاتے کہ وہ ان سے ہر ممکن نرمی برتیں گے مگر اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے کسی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا، نہ ہی مداہنت برتی جاسکتی ہے۔ کچھ دنوں کے بعد یہ لوگ حضرت مغیرہ ؓ کے گھر جاکر کھانا کھاتے اور مسجد نبوی کے اندر بھی آکر بیٹھ جاتے تھے۔ ابھی تک وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ جب وہ پہلی مرتبہ مسجد میں آئے توبعض صحابہ نے عرض کیا "یاسول اللہ یدخلون المسجد وھم مشرکون”یعنی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ لوگ مشرک ہیں اور مسجد میں داخل ہو گئے ہیں ۔ آپ ؐ نے جواب دیا "ان الارض لا ینجسھا شییٔ”یعنی اللہ کی زمین کو کئی چیز نا پاک نہیں کرتی (المغازی للواقدی ج 3،ص 964)

 اس دوران یہ لوگ جب بھی مسجد میں آتے ، صحابہ کی تلاوت سنتے۔ فرض کی نمازوں کے بعد اہل ایمان کی صف بندی اور نماز میں ان کی محویت کا عالم دیکھتے ۔ صحابہ کی شب بیداری ، راتوں کو آہ وزاری اور اللہ سے مغفرت کی طلب کے مناظردیکھتے تو ان کے دل گواہی دیتے کہ یہ سچے اور اللہ والے لوگ ہیں ۔ یہی کامیاب وسرخ رو ہوسکتے ہیں ۔ علمی وعقلی دلائل وبراہین بھی دلوں کا زنگ اتار نے اور دماغوں کے عقدے کھولنے اور اسلام کا راستہ ہموار کرنے میں مفید ہوسکتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا عملی نمونہ ہی کسی شخص کو قبولیت حق پر قائل ومائل کر سکتا ہے۔ دنیا میں جب بھی لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے  تو ایک بہت بڑی تعداد ان میں سے ان لوگوں پر مشتمل رہی ہے جو ابل ایمان کی عملی نمونے سے متاثر ہو کر اسلام کا حصہ بنے ہے۔

ان لوگوں میں سب سے پہلے جو شخص مسلمان ہوا، اس کے قبول اسلام کا واقعہ بھی بہت عجیب وایمان افروز ہے۔ قبول اسلام سے قبل یہ لوگ جب  آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے مسجد کی طرف آتے تو عثمان بن ابی العاص کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ جاتے کیونکہ وہ عمر میں ان سب سے چھوٹا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے ملاقات کے بعد واپس آکریہ لوگ سو جاتے تو عثمان  آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو جاتا۔ اپنے وفد کو بتائے بغیر اس نے اسلام قبول کر لیا تھا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی تھی کہ اس کے قبول اسلام کے بارے میں ابھی وفد کو نہ بتایا جائے۔ حضرت عثمان ؓ نے نماز یں پڑھنے کے ساتھ ساتھ اسلام کی تعلیمات بھی ذوق وشوق سے حاصل کردی تھی۔ حضرت عثمان ؓ کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے زیادہ جس شخصیت سے محبت بھی وہ حضرت ابوبکرؓ تھے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابی بن کعب ؓ ، جنھیں حافظ قرآن وعالم دین ہونے کا شرف حاصل تھا، سے کہا کہ وہ عثمان کی خصوصی تعلیم وتربیت کا اہتمام کریں ۔ حضرت ابی نے یہ فرض بخوبی ادا کیا اور حضرت عثمان ؓ کو قرآن کی روشنی سے منور کردیا۔

اس وفد کا قیام کئی دنوں تک مدینہ میں رہا۔ آخر ایک روز عبد یا لیل نے  آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہم سے صلح کرلیں تا کہ ہم اپنے اہل وعیال کے پاس جا کر انہیں صلح کی یہ خوش خبری سنا دیں ۔ آپؐ نے فرمایا: میں تم سے ضرور صلح کر لوں گا بشرطیکہ تم اسلام قبول کر لو۔ اگر تم اسلام کو رد کر دو تو پھر میں تمہارے ساتھ کیسے صلح کر لوں ؟ اس پر سردار فد نے کہا کہ زنا کی متعلق آپؐ نے سخت احکام دے ہیں ۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم اپنے کاروبار اور تجارتی سفر کے دوران اپنے گھروں سے کافی عرصے تک دور رہتے ہیں ۔ اس عرصے میں ہمارے لئے زنا کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہوتا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ اللہ نے نکاح کو حلال کیا ہے اور زنا کو حرام قرار دیا ہے۔ پھر آپؐ نے قرآن مجید کی آیات پرھ کر سنائیں :

 "جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو دو ،تین تین، چار چار سے نکاح کر لو، لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کرسکو گے تو پر ایک ہی بیوی کرو یا ان عورتوں کو زوجیت میں لاؤ جو تمہارے قبضہ میں (بطور ملک یمین )آئی ہیں ، بے انصافی سے بچنے کے لئے یہ زیادہ قرین صواب ہے ۔”(انساء3:4)

آپ نے زنا کے متعلق بھی قرآنی حکم سناتے ہوئے یہ آیت پڑھی: "زنا کے قریب نہ پھٹکو۔وہ بہت برافعل ہے اور بڑا ہی برا راستہ۔ "(بنی اسرائیل32:17)

  عبد یا لیل نے سود کے بارے میں سوال کیا اور کہا کہ ہمارے تو کاروبار ہی سود پر چلتے ہیں ۔ اس کے جواب میں آپؐ نے فرمایا کہ تمہیں اپنااصل زرحاصل کرنے کا حق ہے مگر سود کر اللہ نے مکمل طور پر حرام قرار دے دیا ہے۔ آپؐ نے قرآن مجید کی آیات پڑھیں :”مگر جو لوگ سود کھتے ہیں ، ان کا حال اس شخص کا سا ہو تا ہے جسے شیطان نے چھوکر باؤلا کر دیا ہو۔ اور اس حالت میں ان کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں :”تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے،”حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام ۔ لہذا جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آیندہ کے لئے وہ سود خوری سے باز آجائے، تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا، سوکھا چکا، اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ اور جو اس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے ، وہ جہنمی ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔ "(البقرۃ 275:2)

 "اے لوگوں جو ایمان لائے ہو ، خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا، تو آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے۔ اب بھی تو بہ کر لو(اور سود دچھوڑ دو) تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو۔ نہ تم ظلم کرو ، نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ تمہارا قرض دار تنگ دست ہو تو ہاتھ کھلنے تک اسے مہلت دو، اور جو صدقہ کر دو، تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، اگر تم سمجھو۔”(البقرۃ280-278)

اس کے بعد عبد یا لیل نے شراب کے متعلق یہ کہاکہ وہ تو ہمارے انگوروں سے کشید کیا گیا ایک مشروب ہے اور ہماری قوم تو اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی ۔ آپؐ جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں تو موسم بھی بہت سرد ہوتا ہے ۔ سردی کی اس شدت کو اس مشروب کے بغیر نہ برداشت کیا جاسکتا ہے نہ کم کیا جاسکتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے اور اللہ رب العالمین نے جن چیزوں کی حرمت واضح الفاظ میں بیان کی ہے ، ان میں خمر بھی ہے ۔ پھر آپ نے یہ قرآنی حکم سنا یا: "اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ شارب اور جو اوریہ آستانے اور پانسے، سب گندے شیطانی کام ہیں ، ان سے پرہیز کرو، امید ہے تمہیں فلاح نصیب ہوگی۔ شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے درمیان عداوت اور بعض ڈال دے اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے ۔ پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہوگے؟”(المائدہ91-90:5)

 اس نشست کے بعد جب عبد یالیل اپنے وفد کے ساتھ اپنی رہایش گاہ پر واپش گیا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا :تمہاری بربادی ہو، جو شرائط ہمارے سامنے پیش کی جا رہی ہیں ، ان کو لے کر اپنی قوم کے پاس جائیں گے تو وہ کبھی قبول نہیں کریں بے۔ سود، زنا اور شراب تین چیزیں تو ان کی گھٹی میں پڑی ہیں ۔ وہ کبھی شراب اور زنا کو ترک نہیں کریں گے۔

  اس موقع پر وفد کے ایک سمجھ دار رکن سفیان بن عبد اللہ ثقفی نے کہا:”اے خدا کے بندے! کیا باتیں کر رہے ہو۔ اگر اللہ ہماری قوم کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمائے گاتو وہ ان ساری بری خصلتوں کو چھوڑ دیں گے اور خوب سمجھ لو کہ اسلام کا جھنڈا ہر طرف لہرا رہا ہے۔ اب اس سے بھاگ جانے کا کوئی راستہ نہیں ۔ خدا کی قسم ! اگر یہ لوگ ایک مہینے کے لئے ہمارا محاصرہ کر لیں تو نہ ہمارے ہتھیار ہمارے کام آئیں گے نہ ہمارے قلعے میں ہمیں امن نصیب ہوگا۔ اس صورت میں ہم بھوکے اور رسوا ہو کر مر جائیں گے۔”

سفیان بن عبد اللہ ایک سمجھدار انسان تھے۔ ان کی باتیں سن کر وفد کے باقی لوگوں نے بھی ان کی تائید کی اور اس کے بعد ان لوگوں نے  آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس حاضر ی دی اور آپؐ کے سامنے کھڑے ہو کر کلمۂ شہادت پڑھا اور اسلام میں داخل ہوگئے۔ اسلام قبول کرنے کے ساتھ ہی سردار وفد نے یہ کہا یا رسول اللہ ! ہمارے قبیلے میں بہت سے لوگ اجڈاور بے وقوف ہیں ۔ ہم اسلام کے تمام احکام پر عمل کریں گے مگر ہمارے اندر ہمت نہیں کہ ہم لات کے بت کو توڑ سکیں ۔ آپؐ نے فرمایا : تم اس کی فکر نہ کرو ۔ ہم خود اسے توڑ نے کا کام کرلیں گے۔ ان لوگوں نے قبول اسلام کے بعد یہیں  آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ نماز یں بھی پڑھیں اور روزے بھی رکھے کیونکہ یہ ماہ رمضان تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت بلالؓ ان کے لئے سحری وافطاری کا انتظام فرمایا کرتے تھے۔ یوں بنوثقیف کے اس وفد کا ہر رکن اسلامی احکام وعبادات پر عمل پیرا ہوگیا۔

تبصرے بند ہیں۔