پیمانہ بھر چکا ہے، چھلکنے کی دیر ہے

حفیظ نعمانی

اپنے بارے میں اپنے ہی قلم سے کوئی ایسا جملہ لکھنا جس میں تعریف کا اشارہ ہو اچھی بات نہیں ہے۔ ہم اگر یہ کہیں کہ کیرانہ اور نور پور کے الیکشن کے بعد ہم نے لکھا تھا کہ بی جے پی کو 2019 ء میں ہرانا تو مشکل ہے لیکن بی جے پی اگر پھٹ جائے تو بہت کچھ ہوسکتا ہے اور یہ ناممکن نہیں ہے۔ 2014 ء میں جب وہ 280  سیٹیں جیت کر آئی تو وہی اُن کی بدہضمی کا سبب بن گئی۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ غیرکانگریسی پارٹیوں میں سے اکثر حکومت کے شوق میں ان کے قدموں میں جاگرے اگر غیربی جے پی پارٹیاں کانگریس کے ساتھ مل کر محاذ بنا لیتیں اور اسے اکیلا نہ چھوڑتیں تو وزیراعظم ہٹلر نہ بنتے۔

یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ وزیراعظم کے منصب پر براجمان ہوکر نکڑسبھا میں بے لگام بولنے والے ورکروں کی طرح تقریریں کریں اور وزیراعظم کی حیثیت سے ہر ریاست کے ذمہ دار ہوتے ہوئے غیربی جے پی ریاستوں میں ایسی تقریریں کریں جیسے دشمن ملک کے بارے میں کرتے ہیں تو اسے کون پسند کرے گا؟ مودی جی کو اس اندھی فوج نے یہ بھی یقین دلا دیا کہ آپ جیسے چاہے ملک کو چلائیں اور انہوں نے وہی طریقہ رکھا جو گجرات میںوزیراعلیٰ رہتے ہوئے رکھا تھا کہ نہ اپنی پارٹی میں کسی کو بولنے کا حق ہے اور نہ مخالف پارٹی کو بس جو میں کروں اور کہوں وہ ہوگا۔

اور جب کہیں ایسا ہوتا ہے تو غبارہ اندر کی ہوا کے دبائو سے پھٹ جاتا ہے۔ کانگریس کے پھٹنے کا ہی نتیجہ تھا کہ پہلے دو ہوئیں پھر شرد پوار نے اپنی کانگریس بنالی اور ممتا نے اپنی۔ اس طرح جنتا پارٹی جو اتنی ہی سیٹوں کے ساتھ آئی تھی ٹکڑے ٹکڑے ہوئی اور انجام یہ ہوا کہ آخر میں صدر سبرامنیم سوامی اکیلے پارٹی تھے اور ہل دھر کسان کا انتخابی نشان ان کی جائیداد تھی۔ اور اب وہ بھی بی جے پی کے سیاسی کباڑ خانہ کا ایک ٹکڑا بنے پڑے ہیں۔

نریندر مودی نے وزیراعظم بن کر کسی وزیر کو وزیر نہیں رہنے دیا سب کو کلرک بنا دیا یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ وزیر خارجہ نے الیکشن لڑنے سے انکار کردیا اور جنگی جہازوں کی خریداری جب ہورہی تھی تو وزیر دفاع گوا میں مچھلی خرید رہے تھے اور جب رافیل پر ہنگامہ ہوا تو وزیر دفاع کو کچھ معلوم نہیں تھا۔ اور یہ بات بار بار چھپ چکی ہے کہ وزیر داخلہ کو اپنے فیصلے اخباروں کے ذریعہ معلوم ہوتے ہیں۔

وزیراعظم کے جن اقدامات نے ملک کو جھنجھوڑکر رکھ دیا ان کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا کہ وزیراعظم کیا کرنے والے ہیں۔ انہوں نے اپنی وہ ہیبت طاری کررکھی تھی کہ کوئی وزیر کچھ نہیں کرسکتا تھا اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ضمنی الیکشن کی ہر سیٹ ہارکر پانچوں ریاستوں کی اسمبلی بھی ہارے اور دو صوبوں میں ایک ایک سیٹ ملی۔ سیاسی دنیا میں یہ اتنا بڑا حادثہ مانا جاتا ہے کہ اس کے بعد اگر پارٹی کے لیڈر چپ رہتے تو وہ پارٹی کے دشمن کہلاتے۔

سال تو یاد نہیں شاید پندرہ سال سے زیادہ پرانی بات ہے کہ بی جے پی کے صدر کا مسئلہ زیرغور تھا۔ اچانک ایک نیا چہرہ آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت کا حکم لے کر دہلی آیا جس میں لکھا تھا کہ دہلی میں کوئی صدر بننے کے قابل نہیں ہے ہم نتن گڈکری کو بھیج رہے ہیں یہ صدر بنیں گے اور دستور میں ترمیم کردی جائے کہ دوبارہ بھی یہی صدر رہیں گے اور گڈکری صاحب صدر بن گئے ایک مدت پوری ہونے والی تھی کہ اروند کجریوال اور این ڈی ٹی وی انڈیا نے شور مچایا کہ گڈکری کی نہ جانے کتنی فرضی کمپنیاں ہیں اور ان کے فرضی ہونے کے ثبوت مل گئے تو پورے ملک میں کہرام مچ گیا اور موہن بھاگوت صاحب کو اس پر راضی ہونا پڑا کہ اب دوبارہ وہ صدر نہیں بنیں گے اور راج ناتھ سنگھ کو صدر بنایا گیا۔ اس کے بعد جب 2014 ء کے الیکشن ہوئے اور گڈکری کو وزیر ٹرانسپورٹ بنایا گیا تو معلوم ہوگیا کہ وہ چیف کے اتنے پیارے ہیں کہ فرضی کمپنیوں کی ملک گیر بدنامی کے بعد بھی بھاگوت صاحب انہیں نہیں چھوڑ سکتے اور اسی طاقت کا نتیجہ ہے کہ جس امت شاہ کو وزیراعظم نے اپنے برابر کا لیڈر بنا رکھا تھا اور جن سے بات کرنے کے لئے پارٹیوں کے لیڈر ترستے ہیں ان کو نشانہ بناتے ہوئے گڈکری نے کہا ہے کہ پانچ ریاستوں میں سو فیصدی ہار کی ذمہ داری امت شاہ کو قبول کرنا چاہئے۔ وہ پارٹی کے صدر ہیں اور یہ تو بار بار خبر آئی تھی کہ امت شاہ ڈیرہ ڈالے پڑے ہیں۔

خوف اور دہشت کے ماحول میں وزیراعظم اور پارٹی کے صدر پر حملہ وہی کرسکتا ہے جسے معلوم ہو کہ کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ گذشتہ مہینہ موہن بھاگوت صاحب نے ایک تقریر دہلی میں ایسی کی تھی جس میں مودی کے نظریات کو انہوں نے درکنار کردیا تھا اور سیاسی حلقوں میں یہ سمجھا جانے لگا تھا کہ اب سنگھ نے مودی کے بجائے دوسرے چہرے کے بارے میں سوچنا شروع کردیا ہے۔ اور اب وہ رام دیو یادو جو پانچ سال پہلے بابا بن کر مودی جی کے قدم بہ قدم چل رہے تھے اور ان کی ہر بات کی تائید کرتے تھے آج کہہ رہے ہیں کہ نہیں معلوم کہ اگلا وزیراعظم کون ہوگا؟

غیب کا حال تو پروردگار جانے اندازہ یہ ہے کہ گڈکری صاحب نے جو لہجہ اختیار کیا ہے وہ بی جے پی کے اس ذہن کے آدمیوں کے لئے ہے جو سیکولر پارٹیاں یا کانگریس چھوڑکر آئے تھے اور جن کو اُما بھارتی، آدتیہ ناتھ یوگی طرح طرح کی سادھوی اور بابا لوگوں کا سیاسی کرسیوں پر بیٹھنا اچھا نہیں لگتا۔ گجرات کے ایک مودی نواز ظفر سریش والا جو مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے مودی کا کلمہ پڑھتے تھے انہوں نے بھی زبان کھولی ہے اور وہ کہا ہے جو اب تک نہیں کہا تھا۔ دوسری طرف نتیش کمار اور پاسوان کے مطالبات تسلیم کرنا اپنا دل جیسی چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کا آنکھیں دکھانا اور چار مہینے پہلے دکھانا معمولی بات نہیں ہے بھگدڑ تو اس دن مچے گی جب ٹکٹ تقسیم ہوں گے یا کٹیں گے اس کے بعد اندازہ ہوگا کہ مودی کا وفادار کون ہے اور مقابلہ پر کون آتا ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ موہن بھاگوت مودی کو دوبارہ وزیراعظم نہیں بنائیں گے۔ اور اتنی ہمت کسی میں نہیں ہے کہ ان کے مقابلہ پر اپنی من مانی کرسکے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔