محبت کا سفر ہے اور میں ہوں

سحر محمود

 محبت کا سفر ہے اور میں ہوں

وہی جانِ سحر ہے اور میں ہوں

پھنسا ہوں گردشِ ایام میں یوں

کہ بس شام و سحر ہے اور میں ہوں

وہ رہتے ہیں بہت آرام جاں سے

مرا دل بھی تو گھر ہے اور میں ہوں

میں اس کے بن ہوں کیسا یہ نہ پوچھو

کوئی جیسے کھنڈر ہے اور میں ہوں

مری شب بھی منور ہو گئی ہے

زمیں پر اک قمر ہے اور میں ہوں

یہ دولت بھی سحر کچھ کم نہیں ہے

مرا لختِ جگر ہے اور میں ہوں

تبصرے بند ہیں۔