محبت کا سفر ہے اور میں ہوں
سحر محمود
محبت کا سفر ہے اور میں ہوں
وہی جانِ سحر ہے اور میں ہوں
…
پھنسا ہوں گردشِ ایام میں یوں
کہ بس شام و سحر ہے اور میں ہوں
…
وہ رہتے ہیں بہت آرام جاں سے
مرا دل بھی تو گھر ہے اور میں ہوں
…
میں اس کے بن ہوں کیسا یہ نہ پوچھو
کوئی جیسے کھنڈر ہے اور میں ہوں
…
مری شب بھی منور ہو گئی ہے
زمیں پر اک قمر ہے اور میں ہوں
…
یہ دولت بھی سحر کچھ کم نہیں ہے
مرا لختِ جگر ہے اور میں ہوں
تبصرے بند ہیں۔