چاندنی جگمگاتی رہی رات بھر

احمد علی برقی اعظمی

شمعِ دل وہ جلاتی رہی رات بھر

خواب میں آتی جاتی جاتی رہی رات بھر

اُس کا روئے حسیں چاند سے کم نہ تھا

’’ چاندنی جگمگاتی رہی رات بھر ‘‘

زیرِ لب اُس کے دلکش لبوں پر ہنسی

دل پہ بجلی گراتی رہی رات بھر

لے کے قلب و جگر کا مرے امتحاں

وہ مجھے آزماتی رہی رات بھر

میرا تارِ نفَس میرے بس میں نہ تھا

اُس پہ وہ گنگناتی رہی رات بھر

میری بیتابیٔ دل کو وہ دیکھ کر

زیرِ لب مسکراتی رہی رات بھر

اُس کے وعدے سبھی وعدۂ حشر تھے

وہ ہنسا کر رُلاتی رہی رات بھر

شمعِ امیدِ برقی شبِ وصل میں

وہ جلاتی بجھاتی رہی رات بھر

غزل دیگر

احمد علی برقی اعظمی

روئے زیبا دکھاتی رہی رات بھر

چاندنی میں نہاتی رہی رات بھر

بجھ نہ جائے کہیں شمعِ ہستی کی لو

وہ گھٹاتی برھاتی رہی رات بھر

اُس کے آنے سے پہلے جو ویران تھی

دل کی بستی بساتی رہی رات بھر

وہ دکھا کر مجھے ایخ خوابِ حسیں

حسرتِ دل جگاتی رہی رات بھر

دے کے دستک درِ دل پہ بادِ سبا

نیند میری اُڑاتی رہی رات بھر

جو بنائے تھے ابتک خیالی محل

وہ اُنہیں آکے ڈھاتی رہی رات بھر

جاگنے پر تھی برقی سے بیزار جو

خواب میں وہ مناتی رہی رات بھر

تبصرے بند ہیں۔