چور چور موسیرے بھائی

ڈاکٹر سلیم خان

ہندوستان  کو ایشیا کی سب سے بڑی جمہوریت  ہونے  کاشرف  حاصل ہے تواسرائیل کے پاس  مشرق وسطیٰ کی سب عظیم جمہوریت کا اعزاز   موجودہے۔ انتخابات کے اعلان کو وزیراعظم نریندر مودی نے جمہوریت کا جشن قرار دیا ہے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ فی الحال    یہی جشن فی الحال اسرائیل میں بھی بپا ہے ۹اپریل کووہاں بھی الیکشن ہے۔ دونوں ممالک میں جمہوریت کی دیوی نے یاہو اور مودی جیسے سخت گیر رہنماوں کو اقتدار سے نواز رکھا ہے۔ گزشتہ سال جس وقت وزیراعظم نریندر مودی تین طلاق کا قانون بنا کر شریعت اسلامی میں مداخلت کی سعی کررہے تھے  اسرائیل کی پارلیمان نے ایک متنازع مسودۂ قانون کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت اسرائیل میں صرف یہودیوں کو خود مختاری حاصل ہوگی اور ریاستی سطح پر یہودی آباد کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔اسرائیل کی پارلیمان نے آٹھ گھنٹے تک گرما گرم بحث کرنے کے بعد ۵۵ کے مقابلے میں ۶۲ ووٹوں سے”قومی ریاست” کے عنوان سے پیش کیے جانے والے بِل کو منظور کیا۔

 اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے بِل کی منظوری کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے "صیہونیت اور اسرائیل کی تاریخ میں ایک اہم سنگِ میل” قرار دیا ہے۔قیام ِاسرائیل کے ۷۰ برس بعد منظور ہونے والے اس قانون میں کہا گیا ہے کہ "اسرائیل تاریخی طور پر یہودیوں کا وطن ہے اور انہیں یہاں دوسروں سے زیادہ قومی خود مختاری حاصل ہے۔”اسرائیلی پارلیمان کے عرب ارکان نے مجوزہ قانون کی سخت مخالفت کی اور اسے "جمہوریت کی موت” اوراسرائیل میں "نسل پرستی کی انتہا” قرار دیتے ہوئے ایوان میں بِل کی کاپیاں پھاڑ دیںکر اس کو اقلیتوں کے خلاف قرار دیا۔لیکن دنیا بھر کے جمہوریت نوازوں کو اس پرکوئی حیرت نہیں ہوئی۔ کسی  نےاسرائیل پر تنقید نہیں کہ اور نہ کسی سے اسرائیل کے تعلقات خراب ہوئے۔ ہندوستان میں کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اگر وزیراعظم نریندر مودی دوبارہ کامیاب ہوگئے تو  ملک سے جمہوریت کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ساکشی مہاراج کا حوالہ دے کر یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مودی جی کے منتخب  ہوجانے کے بعدپھر کبھی  الیکشن نہیں ہوں گے  لیکن اسرائیل میں نہ تو جمہوریت کا خاتمہ ہوا اور نہ الیکشن بند ہوئے اس کے باوجود ۱۷ فیصد عربوں کو ان کے اپنے ملک میں جائز حقوق سے محروم  کردیا گیا اور جمہوری نظام ان کے تحفظ سے قاصر رہا۔

اسرائیل کی انتخابی مہم اور ہندوستان کے اندر چلنے والی انتخاب کی تشہیر میں بھی زبردست مماثلت ہے۔ انسٹا گرام پرجب  معروف اداکارہ روٹم سیلا نے لکھا کہ حکومت میں سے کب کوئی عوام کو یہ بتائے گا کہ اسرائیل اپنے تمام شہریوں کو ملک ہے؟  تو اسرائیلی وزیر اعظم نے اس کاجواب دیا اسرائیل اپنے تمام شہریوں کا ملک نہیں ہے۔ نئے قانون  کے مطابق اسرائیلکسی اور کی نہیں یہودیوں کی ریاست ہے۔ اسرائیلی الیکشن کمیشن نے عربوں کی  پارٹی ’بلاد‘  پردہشت گردی کی حمایت کا الزام لگا کر انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا جبکہ  عربوں کے اسرائیل سے نکل جانے کااعلان کرنے والی انتہا پسند یہودی جماعت کو اجازت دے دی۔ کیا یہ  ایس ڈی پی آئی پر جھارکھنڈ اور جماعت اسلامی پرکشمیر میں پابندی سے مماثل صورتحال نہیں ہے؟

بلاد پارٹی پر پابندی لگانے کے بعد اسرائیلی الیکشن کمیشن نےدو انتہا پسند  سیاسی جماعتوں’لیکوڈ’ اور ‘عوٹزما یہودیت’ کی  درخواست پرعربوں  کے نمائندہ سیاسی اتحاد کو بھی پارلیمانی  انتخابات میں‌حصہ لینے سے روک دیا۔ عرب اتحاد میں جنوبی فلسطین کی تحریک اسلامی اور نیشنل ڈیموکر یٹک پارٹی شامل ہیں۔اس پابندی  کی مخالفت  صرف دس ارکانِ کمیشن نے کی جبکہ سترہ اس کے حامی تھے یوں  اکثریت کی جمہوریت سے یہ   ناانصافی جائز قرار پائی۔ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کا الزام ہے کہ عرب ارکان آئین کی پیروی نہیں کرتے۔ عرب ارکان اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں سے ملاقات کر تے ہیں اور رہائی پانے والوں کا استقبال کرتے ہیں جس کے سبب قومی  سلامتی کو  خطرہ لاحق ہوجاتاہے۔ ان کا انتخابات میں حصہ لینا صہیونی سلامتی کونقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ اگر یہ الزام درست ہے تو عدالت ان فلسطینیوں رہا کیوں  کرتی ہے؟  اور عدلیہ کی مخالفت کرنے والوں پر اقدام کیوں نہیں کیا جاتا؟ وادی کشمیر میں کیا اسی طرح کے الزامات لگا کر یٰسین ملک کی جے کے ایل ایف پر پابندی نہیں لگائی گئی ہے؟

ہندوستان کے اندر فی الحال  جس طرح پلوامہ اور سرجیکل اسٹرائیک کا غلغلہ ہے اسی طرح  فلسطین کے علاقے غزہ میں اسرائیلی کی طرف سے بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔ مصر  کی جانب سے اسرائیلی جارحیت پر قدغن لگانے والی  جنگ بندی کی کوشش کو صہیونی ریاست مسترد کر دیاہے۔اس ہفتہ  غزہ میں متعدد مقامات پر اسرائیلی جنگی طیاروں نے فضائی حملے کرکے کئی مکانات تباہ کردیئے۔ اس کے جواب میں فلسطینی مزاحمت کاروں نے صہیونی تنصیبات پر راکٹ حملے کئےاور اسرائیلی فوج نے توپ خانے سے شمالی بیت لاھیا پر گولہ باری کی۔ بیت حانون میں اسرائیلی بمباری سے ایک مسجد شہید ہو گئی۔ حماس کے رہنما اسماعیل ھنیہ نے اعلان کیا کہ  فلسطینی ہتھیار نہیں ڈالیں گے بلکہ دشمن کا منہ توڑ جواب دیں گے کیونکہ فلسطینی مزاحمتی قوتیں اسرائیل  کے خلاف ہر محاذ پر لڑنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ غزہ کی پٹی میں جاری عوامی مزاحمتی تحریک حق واپسی اور انسداد ناکہ بندی کے خلاف جاری عظیم الشان مارچ اپنے منطقی انجام تک جاری رکھے گی۔

 انتخابی مہم کا موازنہ کیا جائے تب بھی دونوں ممالک کے اندر ایک زبردست یکسانیت دکھائی دیتی  ہے۔ پلوامہ کے بعدسرجیکل اسٹرائیک کی مانند اسرائیل کے اندرنیتن یاہو شام میں حزب اللہ کے خلاف کارروائی، لبنان کی سرحد پر سرنگوں کی مسماری اورشام میں ایرانی اہداف پر بمباری  کوحکومت کی بڑی کامیابیاں  بتاتےہیں۔ اسی کے استھ  مختلف بہانوں سے غزہ پر دو مرتبہ بمباری ہوچکی ہے۔ جس طرح ہندوستان کے اندر مودی سرکار رام مندر کے معاملے میں قانون بنانے کی جرأت نہیں کرسکی اسی طرح اسرائیل میں یاہو حکومت پارلیمان (کینسٹ)   میں  مذہبی عناصر کو فوج میں بھرتی کرنے کے قانون کی منظوری میں‌ناکامی رہی اس لیے اس پر بات نہیں ہوتی۔ ہندوستان میں جس طرح  رافیل کو لے کر چوکیدار چور ہے کا نعرہ لگ رہا اسی طرح نیتن یاہو کی  بدعنوانی  کے الزامات پر تفتیش چل رہی۔ ڈونالڈ ٹرمپ بھی مودی اور یاہو پر یکساں طور پر مہربان ہیں وہ کبھی گولان پر اسرائیل کا حق جتاتے ہیں تو کبھی پاکستان کو بھیانک انجام کی  دھمکی دیتے ہیں اس لیے کہ ان  تینوں جمہوریت نوازوں کے بیچ  چور چور موسیرے بھائیوں والی  رشتے داری ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔