سسکتی ہوئی اردو کا سچا بہی خواہ کون؟

کامران غنی صبا

جب سے ہوش سنبھالا ہے یہی سنتا رہا ہوں کہ اردو ختم ہو رہی، اردو مٹ رہی ہے، اردوکا مستقبل تاریک ہے لیکن نہ جانے یہ زبان بھی کس مٹی سے بنی ہے کہ اس کے مٹنے اور ختم ہونے کی پیشنگوئی کرنے والے نہ جانے کتنے مر مٹے لیکن یہ زبان آج بھی زندہ و تابندہ ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ زبان ہر عہد میں سسکتی رہی، غیروں کے تعصب اور اپنوں کی بے اعتنائی پر آنسو بہاتی رہی۔ بلکہ سچ پوچھیے تو یہ زبان ہر زمانے میں اپنے چاہنے والوں کو آزماتی رہی ہے کہ اس سے سچی محبت کرنے والے کون ہیں اور کون صرف اس سے فائدہ اٹھانے والے ہیں۔ آج اردو ایک بار پھر ہمیں آزما رہی ہے۔ بہار کے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اردو سسک سسک کر اپنی بربادی کا نوحہ پڑھ رہی ہے لیکن اس کے آنسوئوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ کوئی ایسا مسیحا نہیں ہے جو اس کے درد پر مرحم رکھ سکے۔ پہلے تو اردو کی عصمت پر حملہ بولا گیا، اب تو اس کا وجود ہی زندگی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ بہار کے بیشتر سرکاری اسکولوں میں اردو درس و تدریس کوئی نظم نہیں ہے۔ حالیہ چند برسوں میں اردو کے نام پر کچھ اساتذہ بحال بھی ہوئے تو انہیں ایسے اسکولوں میں بھیج دیا گیا جہاں اردو پڑھنے والا کوئی طالب علم ہے ہی نہیں۔ پہلے پرائمری اور مڈل اسکولوں میں کتابیں مفت فراہم کی جاتی تھیں تو دوسرے موضوعات کے ساتھ ساتھ ’اردو بیچاری‘ بھی بچوں کے بستے تک پہنچ جاتی تھی پھر چاہے اسکول میں ٹیچر ہوں یا نہ ہوں محلے کے ’مولوی صاحب‘ کچھ نہ کچھ تو پڑھا ہی دیتے تھے۔ ابھی تازہ صورتِ حال یہ ہے کہ بہار کے کسی بھی ضلع میں اردو میڈیم کی کتابیں تو خیر چھوڑیے اردو کی درسی کتاب بھی دستیاب نہیں ہے۔ یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ اردو کی کتابیں شائع بھی ہوئی ہیں یا نہیں۔ بہار ٹکسٹ بک کائورپوریشن سے اس سلسلہ میں کوئی تشفی بخش جواب نہیں مل رہا ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ کتابیں شائع ہی نہیں ہوئی ہیں اگر شائع ہوتیں تو بازار میں ضرور دستیاب ہوتیں۔ میٹرک اور انٹر کی کتابیں تو پہلے سے ہی بازار سے غائب ہیں۔ اردو کی کتابیں کیوں شائع نہیں ہو رہی ہیں یا شائع ہو رہی ہیں تو طلبہ تک کیوں نہیں پہنچ رہی ہیں، یہ کون پتہ چلائے اور کیوں پتہ چلائے؟ہمارے لیے اطمینان کی بات یہی ہے کہ اردو کے نام پر مشاعرے، سمینار اور کانفرنسیں ہو رہی ہیں۔ اردو کے شعرا و ادبا ٹرین کی بجائے ہوائی جہاز سے سفر کرنے لگے ہیں۔ اردو کی جڑیں سوکھی ہیں تو کیا ہوا شاخوں پر لگی مصنوعی پتیاں اتنی ہری بھری ہیں کہ جڑوں پر کسی کا دھیان بھی نہیں جا سکتا۔

کچھ روز قبل کی بات ہے۔ خبر ملی کہ پٹنہ ویمنس کالج کے شعبۂ اردو میں صرف ایک طالبہ ہے۔ وہ بھی تینوں سال یعنی بی اے فرسٹ، سیکنڈ اور فائنل ایئر کو ملا کر۔ شکرمنائیے کہ تاریکی میں ایک ٹمٹماتا ہوا دیا ہی سہی کچھ تو روشن ہے ورنہ کئی جگہ تو ڈیپارمنٹ میں تالے بھی پڑے ہوئے ہیں۔ پٹنہ کالج، ویمنس کالج، سائنس کالج اور کامرس کالج میں اردو کی ایک بھی فیکلٹی نہیں ہے۔ خدا بھلا کرے ریسرچ اسکالرز کا جن کی وجہ سے کالجز اور یونیورسٹیز کے اردو شعبے کسی طرح چل رہے ہیں۔ یہ وہی عظیم آباد ہے جس سے غزال آنکھیں چرایا کرتے تھے۔ اب غزال آنکھیں چراتے ہیں یا نہیں یہ تو ’بازارِ ختن کے خریدار‘ بتائیں گے البتہ عظیم آباد والوں نے اردو کی بے بسی دیکھ کر اردو کے مسائل سے آنکھیں چرانا ضرور شروع کر دیا ہے۔ اسی لیے اردو کے بنیادی مسائل پر اب کوئی ہلکی سی صدا بھی بلند نہیں ہوتی۔ یہاں ہر دوسرے اردو والے کی جیب میں کسی ادارے کا ’لیٹر پیڈ‘ ضرور مل سکتا ہے لیکن اردو کے مسائل کے حل کے لیے کسی کے پاس نہ تو وقت ہے اور نہ اتنی جرات کہ زمینی سطح کی تلخ سچائی کو طشت از بام کر سکے۔ چند ایک دیوانے ضرور ہیں جو کچھ لکھنے اور بولنے کا کام کرتے رہتے ہیں لیکن ان کے پاس کوئی اعداد و شمار نہیں ہے۔ اردو اخبارات کے صفحات میلاد شریف، قل و قرآنی اور شادیات کی خبروں سے بھر ہی جاتے ہیں اس لیے انہیں ہندی اور انگریزی اخبارات کی طرح تحقیقی اور تجزیاتی رپورٹ شائع کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ جن کے پاس اعداد و شمار ہیں وہ یا تو کسی سرکاری عہدے پر فائز ہیں یا کسی عہدے پر نہیں بھی ہیں تو ’امیدِ فردا‘ میں خاموش رہنے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔

         جس طرح ضعیف والدین کی کچھ ناخلف اولادکو صرف ان کی جائداد سے مطلب ہوتا ہے۔ والدین کو بیماری سے تڑپتا دیکھ کر ان کے دل میں ہمدردی کا کوئی جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ ایسی اولاد سے کسی قسم کی توقع رکھنا حماقت ہے۔ اسی طرح ہمارے بعض دانشورانِ اردو، اردو کے نام پر صرف اپنی ترقی دیکھنا چاہتے ہیں، اردو کے مستقبل سے انہیں کوئی مطلب نہیں ہے۔ این آئی او ایس میں اردو کی شمولیت کا معاملہ ہویا اردو اساتذہ کی بحالی کا مسئلہ۔ کیا آپ نے انہیں کبھی اردو کے حق کی لیے آواز بلند کرتے دیکھا ہے؟ یہ آواز بلند کرتے ہیں اردو کے سرکاری اداروں کے سکریٹری اور چیئرمین بننے کے لیے۔ ان کی ساری تگ و دو عہدہ حاصل کرنے، مشاعرہ اور سمینارمیں شامل ہونے اور اپنے ’گروپ‘ کو مضبوط کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ سچ پوچھیے تو یہ اردو کی خدمت نہیں کر رہے ہیں بلکہ ’اردو بیچاری‘ ان کی خدمت کر رہی ہے۔

  اسکول، کالجز اور یونیورسٹیز میں اردو سسک رہی ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ دم نہیں توڑے گی۔ ہاں سسکتی ہوئی اردو کو دیکھ کر اس کے سچے اور جھوٹے ہمدردوں کا چہرا ضرور واضح ہوتا رہے گا۔ آپ بھی سسکتی ہوئی اردو کے قریب آئیے اور دیکھیے کہ کون اس کا سچا بہی خواہ ہے اور کسے صرف اس کی ’جائداد‘ سے مطلب ہے۔

تبصرے بند ہیں۔