ڈاکٹر حضرات: مسیحا یا لٹیرے؟

حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی

اللہ رب العزت نے ساری دنیا کو پیدا فرمایا،موت وحیات کو پیدا فرمایا، رب تعالیٰ کی قدرت کے بے شمار آثار کتاب وسنت کے علاوہ دنیا میں موجود ہیں۔ موت انسانوں اور حیوانوں میں روح کے جسم سے جدا ہوجانے کا نام ہے، موت کے بیشمار رنگ ہیں، طبعی موت، بیماری سے موت، ایکسیڈینٹل موت، وبائی امراض سے موت وغیرہ وغیرہ۔ اس وقت وبائی مرض کووڈ 19 نے پوری دنیا میں کروڑوں لوگوں کو اپنی چپیٹ میں لے کر موت کی نیند سلادیا۔ رب تعالیٰ نے جہاں بیماری پیدا فرمائی وہاں دوا بھی پیدا فرمائی ہے اور بیماری سے زیادہ طاقت دوا(شفاء) میں رکھی ہے۔

کووڈ 19میں ڈاکٹروں کا ظلم عروج پر: ڈاکٹروں کے پاس و اسپتالوں میں لوگ اپنے علاج کے لیے جاتے ہیں افسوس! آج وہیں پر مریضوں کے ساتھ غیر انسانی اور انتہائی تکلیف دہ سلوک کیا جارہا ہے یہاں تک کہ اسپتالوں میں مریض کے داخل ہونے پر لوگوں کے دماغ میں مریض کے مرنے کے امکانات کو بڑھا دیتا ہے یہ عام سوچ ہے اور سچ بھی ہے۔ کووڈ 19کے کئی مریض جنہیں سانس لینے میں دشواری تھی انہیں اسپتالوں میں داخل کرکے بغیر آکسیجن، بغیر دوا کے ایسے ہی زمین پر لیٹا کر رکھا گیا اور وہ مر گئے۔

آگرہ کے اسپتال میں بھرتی مریضوں کے ساتھ ظلم

 آگرہ کےاسپتال اور وہاں کے ڈاکٹروں کا ظلم میڈیا کے ذریعہ دنیا کے سامنے آچکا ہے، اس طرح کے بہت سے واقعات موجود ہیں۔ ایسے میں لوگ کیوں کر ڈاکٹروں پر بھروسہ کریں جبکہ ڈاکٹروں کو مسیحا کہا جاتا رہا ہے۔ لیکن اب اگر ڈاکٹروں کو موت کا سوداگر کہا جائے تو شاید بے جا نہ ہوگا۔ ایک دو کو چھوڑ کر سبھی دولت اکٹھا کرنے والے سوداگر ہی تو ٹھہرے۔ طبیب  ”Medical doctor” کا پیشہ اِنتہائی متبرک اور قابل احترام ہونے کے ساتھ ساتھ انسانیت دوست تھالیکن اب نہیں رہا۔ جیسے جیسے دولت مند ہونے کی چاہت،لالچ کانشہ بڑھا یہ مسیحائی پیشہ بھی متاثر ہوتا گیااور اب تو یہ ٹوٹل تجارتcommercial بن گیا ہے۔ تجارت میں تو صرف کمانے، نفع حاصل کرنے کی سوچ حاوی رہتی ہے، اس کے لیے جو بھی کرنا پڑے کرو۔ ہر ایم بی بی ایسphysicianڈاکٹر۔ ہر سرجن جراح،(آپریشن کرنے والا)surgeon,ڈاکٹر۔ دل کا علاج کرنے والا ماہر cardiologistڈاکٹر۔ ہر لیڈس وضع حمل کی ماہر،obstetrics gynecologist,ڈاکٹر نی۔ وغیرہ وغیرہ کی سندdegree, رکھنے والاڈاکٹر یا ڈاکٹر نی، "مسیحا”(حکیم،حاذق،حیاتِ بخشی،زندگی بچانے والا) نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کے پاس”خدمت خلق” کا جذبہ بھی ہونا بھی شرط ہے۔ اگر کسی کا جذبہ کھوٹا اور نیت میں فطور ہو تو وہ چاہے طبیب doctor, کی کتنی ہی بڑی ڈگری رکھتا ہو،”مسیحا نہیں، ڈاکو اور موت کا سوداگر ہے”۔

میڈیکل لائن، تجارت بن گئی: ڈاکٹروں سے لیکر، دوافروش،دوا بنانے والی کمپنیاں، ہسپتال، پیتھالوجی، سب کے سب ٹوٹل بزنس کے نظریہ سے کام کر رہے ہیں۔ (چند کو چھوڑکر جن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر سے بھی کم ہے،الاما شا ء اللہ)پہلے گورمنٹ ہسپتالوں میں مریضوں کا علاج ہوا کرتا تھا اور دوائیں فری میں ملتی تھیں، پھر پانچ دہائی پہلے1970 سے نجی ہسپتال(چھوٹے ہسپتال،Nursing home,) کا چلن شروع ہوا گورمنٹ نے اِنھیں بڑھا وادیا تاکہ عوام کو فائدہ ہو،برا ہو ڈاکٹروں اور ان نجی ہسپتالوں کے مالکان کا جنھوں نے گور منٹ سے لائیسنس لیے بہت سی شرطوں کے ساتھ جس میں یہ بھی تھا کہ اِتنے فیصد غریبوں کامفت علاج ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن سب ہوا ہوائی ہوگیااور لوٹ کھسوٹ کا دور شروع ہوگیا پہلے کم گردنیں ناپی گئیں جب دیکھا کہ گورمنٹ کی آنکھیں اس جانب دیکھ ہی نہیں رہی ہیں، تو پھر ڈاکٹروں نے اس ہزاروں ہزار گنا فائدہ دینے والے تجارتbusiness, میں دواساز کمپنیوں سے لے کر،دواخانہ”دوکان دار” pharmacy,، پیتھا لوجی،pathology, والوں وغیرہ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے لگے اور پھر وہی ہوا،رام تیری گنگا میلی ہو گئی پا پیوں کے پاپ دھوتے دھوتے؟۔ سبھی کے بلے بلے ہیں، غریب لوگ پس رہے ہیں، بدحال،تکلیف میں مبتلا مفلس،مریض پریشان پریشان ہے۔ صوبائی حکومتیں، سنٹرل حکومتیں ان مجرموں کے کان کھینچیں، پکڑ کریں تو مریضوں کو راحت ملے۔ بن موت مرتی ہوئی لاشوں کے وارثان کو سکون ملے۔ اکثر نجیprivate, ہسپتالوں میں لوٹ مچی ہوئی ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس پیشہ سے جڑے ہوئے ڈاکٹرس، نرسیں، فار میسی وغیرہ کھلی ڈکیتی کر رہی ہیں، ”چند ایک کو چھوڑکر اِ لا ما شا ء اللہ”۔

دواساز کمپنیاں، دوا دکان، اور ڈاکٹروں کا گٹھ جوڑ

 آپ کو بھی تجر بہ ہوگا کہ گلی محلوں میں قائم طبی مراکز،نجی نرسنگ ہوم میں ڈاکٹر دوائیں تجویز کرنے کے بعد نسخہ( وہ کاغذ جس میں ڈاکٹر دوائیں لکھتا ہے)ہاتھ میں تمھا تے ہوئے ہدایت دیتے ہیں کہ مریض فلاں فار میسی(دوادکان) سے ہی دوا خریدی جائے۔ (اور ہمیں دکھادی جائے،یعنی یہ پکا ہو جائے کی دوا وہیں سے خریدی گئی ہے جہاں ڈاکٹر صاحب کا کمیشن فکس ہے) آجکل نقلی دوائیں چل رہی ہیں جو آپ کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ میٹھی نصیحت”جس میں زہر کی ملاوٹ شامل ہوتی ہے” سن کر کوئی بھی مریض ڈاکٹر کو تو مسیحا ہی سمجھے گا،”اُسے کیا معلوم اس مسیحائی میں ڈاکہ زنی شامل ہے”۔ لیکن ایسا قطعی نہیں ہے،ایسے ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل کرنے والا مریض در اصل مقامی اور غیر رجسٹرڈ کمپنی کی، غیر میعاری دوائیں خرید کر اس نام نہاد”مسیحا”(ڈاکو) کی جیب بھر نے کا ذریعہ بنتا ہے۔ ایک گولی،tablet جس کی زیادہ سے زیادہ قیمت پانچ دس روپئے ہوسکتی ہے،وہ اس”مہربان”،ڈاکو،ڈاکٹر کی وجہ سے بیس روپئے یا اس سے زیادہ کی پڑتی ہے۔ جی ہاں جناب اس مقدس اور اہم ذمہ داری سے وابستہ ڈاکٹر اب ناجائز طریقے سے دولت کمانے کے لیے انسان کی جانوں سے کھیل رہے ہیں۔ ”اور انھیں ذرہ برابر شرم وعار نہیں ہے” یاد رہے ہمیں اور آپ کو ان کے اس ظالمانہ طریقہ کار کو سمجھنا اور اس کا راستہ روکنا ہوگا۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے صرف کہنے سے کچھ نہیں ہونے والا، اس کا سب سے زیادہ شکار غریب اور ان پڑھ یا کم پڑھا لکھا طبقہ ہورہا ہے اور ڈاکٹروں کا گروپ مالامال ہورہا ہے۔

خدمت خلق کرنے والے  ڈاکٹرس عوام کے سرتاج

 یہ دنیا نیک ڈاکٹروں سے خالی نہیں یہ اور بات ہے کہ اب ایسے ڈاکٹرس بہت کم رہ گئے ہیں، پر جو بھی ہیں غنیمت ہیں، یہی لوگ اصل میں مریضوں کے مسیحا ہیں۔ ناچیز راقم کی عمر 55سال ہے15سال پرانا عام مرض شوگر، بی پی بھی ہے،چار بچوں کا باپ ہوں ظاہر سی بات ہے کہ مریض بھی کسی ڈاکٹر سے کم نہیں ہوتاوہ بھی ڈاکٹروں کو جھیلتے،جھیلتے دوا کھاتے کھاتے تجربہ کی بنیاد پر آدھا ڈاکٹر ہوجاتا ہے۔ اسی بنیاد پر کئی جگہوں پرڈاکٹروں سے کچھ نہ کچھ کہا سنی ہوتے رہتی ہے،کئی اہم اور دلچسپ قابل ذکر واقعات ہیں، صرف ایک ملاحظہ فر مائیں، جمشید پور میں بچوں کے ماہرchild specialist, ڈاکٹر Dr,DK Gangoli, سے میری بچی نور جہاں شیرازی کا علاج چل رہا تھا مہنگی سیرپ ہر دو دن میں بدل دے،چوتھی بار سیرپ بدلنے پر میں نے ڈاکٹر سے سخت اعتراض جتا یا اور کہا کہ آپ گولی،tablet کیوں نہیں لکھتے،ڈاکٹر بگڑ گیا کہا ہمیں ڈاکٹر کی تمیں ( بنگالی میں ) ٹیبلیٹ کِنو کھلائے گا، ہم نے کہا کہ بچی کو پٹک دیں گے عمر(4سال) گردن میں پیر رکھ کر کھلا دیں گے وہ گھبرا گیا اور پھر گولی لکھدیا6 میں تین گولی ملی گھول کر پلائی اللہ نے شفا عطا فر مائی الحمد للہ۔ جمشید پور میں کئی نامور ڈاکٹر انسانیت نواز،مریضوں کے مسیحا گزرے ہیں۔ مشہور ڈاکٹر” قوی” صاحب صرف 2 روپئے فیس لیتے تھے اور یہ سلسلہ2013یا2015 تک چلا ان کی زندگی تک۔ اور وہ دوروپئے ٹوکن بانٹنے والی بوڑھی نرس لیا کرتی تھی، تین ٹائم مریضوں کو دیکھتے صبح آٹھ بجے سے گیارہ بجے دوپہر تک۔ تین بجے سے پا نچ بجے تک، رات آٹھ بجے سے دس بجے تک ہر وقت ڈیڑھ سو سے دوسو تک ٹوکن بانٹے جاتے تھے، بڑے بڑے کروڑ پتی اپنا اور اپنے بچوں کاعلاج کرانے آتے تھے ناچیز کی بچی جب تین سال کی تھی بیمار پڑی کئی بڑے ڈاکٹرس کو دیکھایا جس میں ڈاکٹر بھادوری ایشیا کا بڑا نامور چائلڈ اسپیسلسٹ بھی تھا فائدہ نہیں ہوا ڈاکٹر قوی کے پاس پہنچا 180 نمبر ٹوکن میں دیکھایا،دیکھ کر کہا کہ اتنے چھوٹے بچوں کے منھ میں "ہونٹ” میں پپی چومی نہیں لیا کریں گال چوما کریں صرف ایک گولی لکھی،ہیٹرازن ٹیبلیٹ وہ بھی لیڈر لے کمپنی کی صرف60, پیسے کی دودن کھلایا شفا مل گئی الحمد للہ، انسانیت نواز مریضوں کے مسیحا ڈاکٹروں کے ہاتھوں میں رب العالمین شفا بھی عطا فر ماتا ہے۔ شہر جمشید پور کے مشہور سرجن ڈاکٹر سِدھو پنجابی کی فیس صرف 5 روپئے 1990 میں تھی ایک سو ٹوکن روز بانٹے جاتے تھے،ٹوکن ختم ہونے پر بھی بیٹھے ہوئے مریضوں کو دیکھتا شفقت سے پیش آتا،ایشیا کی مشہور لیڈس ڈاکٹرp heera جوجمشید پور میں ایک حادثہ میں جل کر مر گئی تھی سو سے زیادہ لوگ مر گئے تھے۔ وہ غریب عورتوں کا فری علاج کرتی فیس نہیں لیتی دو غریب عورتوں کو دیکھتی ایک امیر عورت کو دیکھتی۔ افسوس اب اس وقت میری نظروں میں جمشید پور اور اس کے اطراف میں ایسے انسان نواز مریضوں کے مسیحا ڈاکٹر دور دور تک نظر نہیں آتے۔

ڈاکٹروں کی فیس جان لیوا

ڈاکٹروں نے فیس ہی اتنی زیادہ رکھی ہوئی ہے کہ مریضوں کے لیے پریشانی کا سبب ہے،فیس کا دوسرا پہلو یہ نیا نکلا ہے جب دیکھا ئو فیس لگے گی،اور جہاں بیٹھتے ہیں اس نجی نرسنگ ہوم کی فیس بھی اس میں لیتے ہیں 400 ڈاکٹر کی فیس لین لگانے نجی ہسپتال میں دیکھانی کی الگ فیس 100 اللہ ظالموں کو ہدایت دے آمین۔ پہلے ڈاکٹر ایک فیس میں 2 رپوٹنگ کرتے تھے پھر ہفتہ بھر بعد دوبارہ فیس لیتے تھے،اب یہ سلسلہ بند ہو گیا،کیا یہ مریضوں کے ساتھ ظلم نہیں ؟۔ لوٹ کھسوٹ کی انتہا کری۔ افسوس کے ساتھ لکھنا پڑرہا ہے کہ اس حمام میں سبھی رینی کورٹ پہن کر نہا رہے ہیں، یعنی ہمارے دینی بھائی مسلمان ڈاکٹر بھی اس طرح کی لوٹ میں شامل ہیں۔ نئے نئے طریقوں سے غریبوں کی جیب کاٹ رہے ہیں، غیرضروری لیبارٹری ٹیسٹ تجویز کرانا اور یہ کہ فلاں جگہ ہی کرانا کسی غریب نے اپنی سہولیت کے اعتبار سے اگر دوسری جگہ کرالیا تو اس روپورٹ کو پھینک دینا یہ کہہ کر کی اس کی رپورٹ صحیح نہیں ہے،اس طرح مریض کو خوفزدہ کرکے بے رحم مسیحا "ڈاکٹرــ” اپنی ہی ضد اور اپنی ہی جیت پکی کرتا ہے۔ بے چارہ مجبور مریض تکلیف کے ساتھ ساتھ مالی خسارے کی کی اذیت(ذہنی کوفت،رنج،صدمہ) سے بھی دوچار ہوتا ہے۔

کو وڈ19- کورونا وائرس سے لڑنے والے ڈاکٹر

اس وقت جو ڈاکٹر اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں یقینا انھیں سماج میں عزت ملنی چاہیے حکومتوں کو بھی چاہیئے ان ڈاکٹروں کو انعامات سے نوازیں۔ اور جوڈاکٹر ڈیوٹی میں نہیں آرہے ہیں اور روپوش ہوگئے ہیں اِنکی نوکری فورً اختم کی جائے اور ان کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے۔ صوبائی اور سنٹرل حکومتوں سے میری مانگ ہے کی ڈاکٹروں کی ہڑتال پر پابندی لگائی جائے،جب حکومتیں مزدوروں کی ہڑتال پر پابندی لگا سکتی ہیں تو اِن ظالم ڈاکٹروں کی ہڑتال پر روک کیوں نہیں لگا سکتی ہیں ؟۔ ڈاکٹروں کی ہڑتال کے وقت ایسے ایسے واقعات ہیں، اگر لکھا جائے تو ایک کتاب تیار ہو جائے گی۔ ( اِنشا ء اللہ تعالیٰ،ضرور، بشرطِ حیات ارادہ ہے)۔

ڈاکٹروں کی اخلاقی پستی

 موجودہ ڈاکٹر حضرات( کچھ کو چھوڑکر،الا ماشاء اللہ) اخلاقی پستی میں دنیا کی ساری قوموں کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں، انکی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ایک انسان ان کے سامنے سسک سسک کے جان دے رہا ہوتا ہے مگر اِنھیں پرواہ نہیں ہوتی،ذاتی مفاد دولت کے اندھے تعاقب، ڈوڑ نے انھوں نے انسانی قدروں کو پامال کر دیا ہے۔ ”مذہب اسلام نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے”۔ لیکن ہسپتالوں کے نام پر انسانی قتل گاہوں میں بے رحم ڈاکٹروں کے ہاتھوں غریب، مجبور،لا تعداد مظلوم مریضوں کے مارے جانے والے، اِن ڈاکٹروں کو ابھی بھی مقتول کے برابر نہیں سمجھا جاتا۔ وہ اپنی غفلت پر پردہ ڈالنے کے لیے محض "قضائے الٰہی”کہہ کر بے جان مریض کی میت،لاش، کو ورثاء کے سپرد کردیتے ہیں۔ اور اب تو اس سے بھی آگے بڑھ کر لاش لینے،مردہ سرٹیفکٹ بنانے میں بھی روپیے دینے پڑ رہے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔