غزل

احمد نثارؔ

اب سیاست میں جو سالار ہوا کرتے ہیں

کتنے معصوم ریاکار ہوا کرتے ہیں

۔

جو یہاں عشق کے بیمار ہوا کرتے ہیں

حسن کے کب وہ پرستار ہوا کرتے ہیں

۔

جو کوئی صاحبِ کردار ہوا کرتے ہیں

ان کے چہرے تو چمکدار ہوا کرتے ہیں

۔

کیا پری چہرے بھی غمخوار ہوا کرتے ہیں

اپنے حق میں کبھی دیدار ہوا کرتے ہیں

کیا کوئی ایسے بھی گفتار ہوا کرتے ہیں

جن کی باتوں میں بھی گلزار ہوا کرتے ہیں

۔

قوم کے نام سلیقے سے بنے جو قائد

آخرش قوم کے غدار ہوا کرتے ہیں

۔

عشق کی آگ میں جلنا ہی مزہ دے جن کو

کب بہاروں کے طلبگار ہوا کرتے ہیں

۔

جھوٹے دعوے پہ نثارؔ آپ نہ جانا ان کے

وقت آئے پسِ دیوار ہوا کرتے ہیں

٭٭٭٭٭٭٭٭

تبصرے بند ہیں۔