ڈاکٹر مقبول احمد – ملت اور مشاورت کے ایک شیدائی اور سپاہی 

عبدالعزیز 
’جب کوئی قوم ترقی کرتی ہے تو اس میں ڈاکٹر مقبول احمد جیسا شخص پیدا ہوتا ہے ‘۔  ۔ ۔  احمد سعید ملیح آبادی
ڈاکٹر مقبول احمد شہر کلکتہ کے ایک مشہور ڈاکٹر تھے۔ ایک سرجن کی حیثیت سے ہندو اور مسلمان دونوں میں مقبول اور مشہور تھے۔  کلکتہ کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال این آر ایس میڈیکل کے سرجری شعبہ میں برسوں پروفیسری کے فرائض بحسن و خوبی انجام دئیے۔
ڈاکٹر صاحب کی پیدائش 23 ربیع الاول 1343 ؁ھ بمطابق 23 اکتوبر 1924 ؁ء میں بنارس شہر کے سلیم پورہ محلہ میں ہوئی۔
انکا آبائی وطن اگر چہ اعظم گڑھ کا ایک گاؤں راجہ پور سکرور ہے مگر ان کے والد شیخ محمد ایوب صاحب بنارس میں شیشہ کی تجارت کرنے لگے تھے اس لئے بنارس منتقل ہو گئے تھے مگر اپنے آبائی گاؤں سے رشتہ باقی رکھا تھا یہی وجہ تھی کہ ڈاکٹر صاحب اپنا آبائی وطن اعظم گڑھ کے سکرو رھی بتاتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب میڈیکل کالج میں دا خلہ لئے کلکتہ آئے 48 ؁ء میں انہوں نے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ بعد میں وہ انگلینڈ گئے۔  ایڈ نبرگ میں ایف آر سی ایس ایس میں شاندار کامیابی حاصل کی۔  یورپ کے متعدد ملکوں کی سیاحت کی۔  ماہرین فن سے استفادہ کیا اور عملی سرجری میں خاص مقام حاصل کیا۔  واپس آئے تو کلکتہ ان کے لئے چشم براہ تھا۔  یہاں شاید پہلے مسلم ایف ، آر،سی ایس ڈاکٹر تھے۔  این آر ایس کالج میں تعلیم و تدریس و علاج و معالجہ کی اہم ذمہ داریاں نبھاتے رہے اور ریٹائر ہو نے کے بعد نجی مطب کرتے تھے۔
اس شاندار تعلیمی کارگردگی کے پہلو بہ پہلو ان کی قومی و ملکی سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔  زمانہ تعلیم سے ہی ان کے دل میں ملک و ملت کے لئے کچھ کر گذرنے کا جذبہ موج زن رہا۔  عالم اسلام کی زبوں حالی ،خلافت ترکی کا خاتمہ اور انگریز استعمار کے مشق ستم اور ہندوستانی مسلمانوں کی غیر یقینی صورت حال ،ان کو سوچنے سمجھنے پر اکساتی رہی۔  مذہبی ماحول میں نشود نما اور بچپن سے آداب سحر گاہی کے احترام کی عادت ان کو ہر مشکل میں اللہ تعالیٰ سے رجوع کی طرف لے جاتی رہی۔  49ء میں بہار میں فساد ہوا تو وہ طبی رضا کار کی حیثیت سے وہاں ڈیڑھ مہینے تک رہے۔  زخمیوں کے درد و کرب کو انہوں نے دیکھا ہی نہیں اس کا اثر ذہن و دل پر محسوس کیا۔  یہی درد بعد میں ان کی پوری سماجی خدمتوں تک سرایت کر گیا۔  کلکتہ میں انہوں نے اسلامیہ اسپتال کو اپنی خدمات کا ایک ذریعہ بنایا۔  اس اسپتال کی ترقی و ا استحکام کا جب ذکر ہوگا تو ڈاکٹر صاحب کا نام ضرور آئے گا۔  جدید ہندوستان کی مسلمان تاریخ کا ایک ذریں پہلو یہ بھی ہے کہ فن طب کے بعض ممتاز ترین معالجوں نے اس ملت کی بھی مسیحائی کی ہے۔  حکیم اجمل خاں، ڈاکٹر انصاری، ڈاکٹر فریدی ،حکیم عبدالحمید وغیرہ کی ملی خدمات نا قابل فراموش ہیں۔  ڈاکٹر مقبول صاحب بھی اسی سلسلہ زریں کی بیش قیمت کڑی ہیں۔  انہوں نے کلکتہ اور بنگال میں ملا جان محمد ،مولانا مفتی عتیق الرحمٰن عثمانی، انور محمود ،مولانا حکیم محمد زماں حسینی، مولانا عبدالفتاح وغیرہ کی معیت و رفاقت میں تعلیمی ،رفاہی اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔  مسلم مجلس مشاورت کے قیام میں وہ پیش پیش رہے تو دوسری جانب کل ہند پیمانہ پر ان کا ربط و تعلق ،مولانا قاری محمد طبیب ،مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ،ڈاکٹر فریدی اور جناب سید شہاب الدین سے برابر قائم رہا۔  دیوبند، ندوہ ،دارالمصنفین جیسے ممتاز علمی اداروں سے ان کا شخصی تعلق تھا۔  جماعت اسلامی کے ہمدردوں میں سے تھے بنگلہ اسلا می پرکا شنی ٹرسٹ اور بورڈ آف اسلامک پبلیکشن کے زندگی بھر ممبر تھے۔  ان دونوں اداروں سے بنگلہ اور انگریزی زبان میں ہفتہ وار اخبار شائع ہوتا ہے۔  اسلامی لٹریچر کتابیں بھی شائع ہو تی ہیں۔
سابق وائس چانسلرعلیگڑھ مسلم یونی ورسٹی پروفیسر خلیق احمد نظامی نے ڈاکٹر مقبول احمد صاحب کی زندگی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے۔
ؔ ؔ ’’فکرو فن دونوں میں بہ یک کمال ایک عطیہ ربانی ہے جو مبداء فیاض کی طرف سے اس شخص کو ارزانی ہوتا ہے جو دل درد مند ،نگاہ بے داغ اور فکر بلند رکھتا ہو۔  جس کا دل سماج کے مسائل و مصائب کے ساتھ دھڑکتا ہو۔  ڈاکٹر مقبول احمد صاحب اپنے فن کے ایک ایسے ماہر ہیں کہ ملک میں دور دور ان کی شہرت پھیلی ہو ئی ہے ، اور ان کی مسیحا نفسی اور غریب نوازی کی داستانیں ہر کس و نا کس کی زبان پر ہیں۔  ساتھ ہی ملی مسائل پر ان کی نظر ہے۔   انہوں نے مذہب ،سماج اور سیاست کے مختلف پہلو ؤں پر بڑی بالغ نظری سے سوچا اور اظہار رائے کیا ہے :
مثلِ خرشیدِ سحر فکر کی تابانی میں
( بات میں سادہ و آزاد ، معانی میں دقیق )
مقبول صاحب میں مرد مومن کی بہت سی خوبیاں ہیں۔  وہ نہ صرف غریبوں کے دکھ درد میں کام آتے ہیں بلکہ بہت سے تعلیمی اور سماجی ادارے ان کے مستفید ہو رہے ہیں۔  ملی اور ملکی مسائل پر ان کی گہری نظر کا اندازہ ان کی ہر تحریر سے ہوتا ہے۔  خاص طور پر ہندوستانی مسلمان جن مسائل سے دو چار ہیں ،ان کا تجزیہ بہت گہرائی اور سنجیدگی سے کیا ہے۔  وہ اسلام کے سماجی اور دینی اثرات پر پوری نظر رکھتے ہیں اور ایسا محسوس کرتے ہیں کہ :
گرچہ مثل غنچہ دل گیر ما
گلستاں میرد اگرمیریم ما‘‘
سابق وائس چانسلر علیگڑھ مسلم یو نی ورسٹی جناب سید حامد صاحب ڈاکٹر صاحب کے دوستوں میں سے تھے۔  ملت کے کاموں میں ایک دوسرے سے مشورہ بھی کیا کرتے تھے۔  محترم حامد صاحب ڈاکٹر صاحب کے متعلق رقمطراز ہیں۔
’’ مضامین مقبول سے بہتر کوئی ارمغاں تصور میں نہیں آتا۔  رواں اور سلیس زبان میں قلم برداشتہ لکھے گئے ان مضامین کے پیچھے ایک درد مند دل۔ یک روشن فکر اور ایک وسیع تجربہ ہے ، مضمون نگار کی شخصیت میں عبادت کا ذوق وشوق، بنی نوع انسان کا درد اور مسلمانوں کی محبت ، ایک جدید جستجو شفاف ذہن کے شانہ بہ شانہ چل رہی ہے ،باوجود عبادت میں استغراق کے زمینی حقیقتوں پر ان کی پکڑ مظبوط ہے۔  جو بات سارے مضامین میں مشترک ہے وہ ہے انسانیت کی خیر اندیشی با لخصوص مسلمانوں کے لئے فکر مندی ، توازن ، اعتدال ،حق پسندی ، صاف گوئی ان کا شعار ہے ……… ڈاکتر صاحب ک دیکھ کر ذہن میں یہ خیا ل آیا کہ مزاج اور زندگی کے مسائل کے تئیں ان کا وہی رخ ہے جس کے مطابق مسلمانوں کو ڈھالنے کے لئے سید والا ( سر سید ) گہر کوشاں تھے ، مشرق و مغرب دونوں سے انہوں نے گل چینی کی ہے ؂
مشرق سے ہو بے زار نہ مغرب سے حذر کر ‘‘
ڈاکٹر مقبول احمد صاحب کا لگاؤ مجلس مشاورت سے والہانہ تھا۔   راقم نے جناب محمد مسلم اور جناب سید شہاب الدین صاحب کے بعد جس کے دل میں مسلم مجلس مشاورت کے وجود اور کام سے والہانہ درجہ کا لگاؤ دیکھا وہ ڈاکٹر مقبول احمد صاحب تھے۔   وہ چاہتے تھے کہ ہندوستان اور مغربی بنگال میں جو مشاورت کا پودا لگایا گیاہے وہ کبھی نہ مر جھائے بلکہ ہمیشہ پھلے اور پھو لے۔   انہوں نے اپنی اولاد اور خاندان کو بھی مشاورت سے لگاؤ رکھنے کی وصیت کی تھی بد قسمتی سے اولاد اس درجہ کی ثابت نہیں ہوئی۔  مگر ان میں سے کچھ ضرور اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں لگے ہو ئے ہیں جو چیز ان کو ڈاکٹر صاحب کی وراثت میں ملی ہے۔   آخر میں راقم اپنی کتاب ’’ ڈاکٹر مقبول احمد۔   ایک مرد مجاہد ‘‘ کے ایک اقتباس کی نقل پر اکتفا کرتا ہے :۔
’’ڈاکٹر مقبول احمد صاحب کے لئے تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کے لئے نرگس ہزاروں سال روتی ہے یا فلک جس کے لئے برسوں پھرتا ہے لیکن یہ ہم ضرور کہہ سکتے ہیں اور بلا مبا لغہ کہہ سکتے ہیں کہ ہزاروں میں ایک تھے۔   ان کی شخصیت غیر معمولی اور غیر منفرد تھی ان کے اندر بہت ساری خوبیاں تھیں جن کا ذکر میرے مضمون میں اور دوسرے مضامین میں بھی آیا ہے۔  وہ ذہین و طباع ، فکر رس اور بالغ نظر ، محنتی و جفا کش مخلص و بے ریا ، مصلحت اندیشی سے بے نیاز ، جرائت مومنانہ سے سرشار ، سب سے بڑی اور اہم بات یہ تھی کہ قول کے دھنی تھے جس بات کو کہہ دیتے اس پر قائم رہتے۔   قول و عمل میں تضاد با لکل نہیں تھا سچ کہنے میں ذرا بھی ہچکچاتے نہیں تھے۔   بڑے سے بڑے شخص کو اس کی غلطی اس کے منھ پر کہہ دیتے تاکہ وہ سنبھل جائے اس دور میں یہ چیز نایاب نہیں تو کمیاب شئے ضرور ہے۔   ڈاکٹر صاحب کی زندگی کے متعلق بہت سے لوگوں کی گواہیاں اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ ان کا قول و عمل یکساں تھا۔   آزمائش کے موقع پر کھرے اترے۔  ایثارو قربانی اور سبرو عزیمت کی روشن مثالیں قائم کیں۔   یقیناَ یہ خوبیاں ایسی ہیں کہ ان کو تا قیامت زندگی ملتی رہتی ہے۔   غالباََ انہی خوبیوں کو یا ان جیسے نقوش زندگی کو اقبال ؒ نے شاعرانہ انداز میں کہا ہے ؂
ہے مگر اس نقش میں رنگ ثباتِ دوام جس کو کیا ہو کسی مر د خدا نے تمام
مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ عشق ہے اصل حیات ، موت ہے اس پر حرام
ڈاکٹر صاحب ملت اسلامیہ ہند کے سرمایہ (Asset ) بن گئے تھے انہوں نے جو کچھ کیا ، کام کرنے والوں کے لئے وہ ایک اچھی مثال ہے ہماری طرف سے محبت و عقیدت کا بہترین نذرانہ یہی ہوگا کہ ہم ان کے ملی مشن کو زندہ رکھیں جس کے لئے مرحوم نے سعی کی۔

تبصرے بند ہیں۔