رب سے کئے ہوئے وعدوں کو نبھائیے!

مفتی محمد صادق حسین قاسمی کریم نگری

رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ آیا بھی اور چلا گیا، انوارو رحمت کی بارش ہوئی بھی اور اہل ایمان کو سیراب کرگئی،نیکیوں کو کمانے اور اجر وثواب کو پانے کے دن آئے بھی اور ختم بھی ہوگئے ،اخلاق وکردار کو سنوارنے اور روح وقلب کو منورکرنے کے لیل ونہار کی آمد ہوئی بھی اور رخصتی بھی ہوئی،رب سے جڑنے اور ٹوٹے ہوئے رشتے کو مضبوط کرنے کی مبارک ساعتیں شروع بھی ہوئیں اور مکمل بھی ہوگئیں۔غرض یہ کہ رمضان المبارک اپنی تمام تر برکتوں اور سعادتوں کے ساتھ ایک سال کے لئے پھر سے ہمیں الوداع کہہ گیا ،اب اگر خدا نے چاہا تو ہم آئندہ سال رمضان کو پاسکیں گے اور دوبارہ فیض یاب ہوسکیں گے۔
رمضان المبارک میں ایک مسلمان اپنے رب سے بہت سے وعدے کرتا ہے ،ایک اچھی اور نیک زندگی گزارنے ،رب کی مرضیات کے مطابق جینے ،اسلامی تعلیمات کے موافق چلنے،رسول کریم ﷺ کی ہدایات پر عمل پیرا ہونے کا عہد و اقرار کرتا ہے ،دین کے لئے ایثار وقربانی دینے،حکمِ الہی کو پوراکرنے کے لئے کوشش و جد وجہدکرنے ،جائز و ناجائز کی تمیز کو ملحوظ رکھتے ہوئے ،حلال و حرام کے فرق کو جانتے ہوئے زندگی بسرکرنے کا عزم وارادہ کرتا ہے،اور سب سے بڑھ کر مقصدِ حیات کو ذہن و دل میں تازہ کرکے اسی کے لئے جینے مرنے کا وعدہ کرتا ہے ۔رمضان المبارک کے چلے جانے کے بعد ایک مرتبہ ہمیں چاہیے کہ ہم ایک مرتبہ اپنے قول وقرار جا ئزہ لیں ،رب سے کئے ہوئے وعدوں کو پورانے کے لئے اور ان کو نبھانے کے لئے تیار ہوجائیں ۔قرآن کریم میں اس بات کی بطور خاص تعلیم دی گئی کہ رب سے جو وعدہ کیا جائے اس کو ضرور پورا بھی کیا جائے ،چناں چہ ارشاد ہے:واوفوا بعھد اللہ اذا عھدتم ولاتنضوا الایمان بعد توکید ھا وقد جعلتم اللہ علیکم کفیلا ، ان اللہ یعلم ماتفعلون۔( النحل :۹۱)’’اور جب تم نے کوئی معاہدہ کیا ہو تو اللہ سے کئے ہوئے عہد کو پورا کرو،اور قسموں کو پختہ کرنے کے بعد اُنہیں نہ توڑو،جب کہ تم اپنے اوپر اللہ کو گواہ بناچکے ہو، تم جو کچھ کرتے ہو، یقیناًاللہ اُ سے جانتا ہے‘‘۔
یہ زندگی خدا کی ایک امانت ہے ،کل روزِ محشر اس زندگی کے بارے میں سوال ہوگا ،انسا ن کو اللہ تعالی نے جس مقصد کے لئے اس دنیا میں بھیجا اگر انسان اس مقصد کی تکمیل میں ناکام رہا تو پھر قیامت کے دن زبردست خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا ،اللہ تعالی نے دلوں پر چڑھی ہوئی غفلتوں کو دور کرنے اور دور ہوئے بندوں کو پھر سے مقصد کے قریب کرنے ہی کے لئے تو رمضان جیسا عظیم مہینہ عطاکیا تھا ،ایک انسان اگر رمضان کو صحیح گزارتا ہے تو اس کے اثرات و برکات آئندہ سال تک زندگی میں باقی رہتے ہیں : چناں چہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:ورمضان الی رمضان مکفرات مابینھن اذا اجتنبت الکبائر۔( مسلم ،حدیث نمبر:349) کہ ایک رمضان دوسرے رمضان تک درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتے ہیں جب کہ کبیرہ گناہوں سے بچاجائے ۔
عام طور پر ہم سمجھتے ہیں کہ رمضان چلا گیا توہم آزاد ہوگئے ،اور اب بے فکری کی زندگی گزاریں گے ،ایک مہینہ تک بہت پابندی اور اہتمام کرلیا اور اب تمام پابندیوں کی زنجیروں کو توڑدیں اور من مانی انداز میں رہیں گے ،جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم آزاد نہیں ہوئے بلکہ مزید ذمہ دایاں ہمارے اوپر عائد ہوگئیں ،زندگی کو ایک پاکیزہ طرز پر گزارنے اور خوبصورت سانچے کو ڈھال کر آگے بڑھانے کی ذمہ داری ہمارے کاندھوں پر ڈالی گئی ۔۔مفکر اسلام مولانا ابو الحسن علی ندوی ؒ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ:رمضان در حقیقت ایک دور کا خاتمہ نہیں بلکہ ایک نئے دور کا آغاز ہے ،رمضان انتہا نہیں ،ابتداہے ۔رمضان سب کچھ لے کر اور سب نعمتیں تہہ کر کے لپیٹ کر نہیں جاتا ہے ،وہ بہت کچھ دے کر جھولیا ں بھر کر اور نعمتیں لٹا کر جاتا ہے ،رمضان کے بعد آدمی گناہوں سے ضرور ہلکا ہوتا ہے ،لیکن ذمہ داریوں سے بوجھل اور گراں بار ہو جاتا ہے ۔( رمضان اور اس کے تقاضے :۱۳۶)
اس وقت ہم اگر ہم مسلمانوں کی صورت حال کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ مسلمان اگر ایک طرف ظلم وستم کا شکار ہیں اور جبر و تشدد میں جکڑے ہوئے ہیں تو وہیں دوسری طرف مسلمانوں کی حالت ایمانی اعتبار سے نہایت کمزور ہے ،حالات اور واقعات تو ہمیں بیدار کرنے لئے ہوتے ہیں اور دنیا میں آنے والے تغیرات خوابِ غفلت سے ہوشیار ہونے کے لئے رونماں ہوتے ہیں لیکن ان تمام کے باوجود ایک بڑی تعداد مسلمانوں کی بے فکر ہوکر جینے میں مصروف ہے ۔دنیا کے ظالم ظلم ڈھانے میں لگے ہوئے ،ہمارے شہروں کو اجاڑنے میں مصروف ہیں ،ہمارے ملکو ں کو تباہ کرنے کے منصوبے بنائے ہوئے ہیں ،اور مسلمان آپس میں اختلاف وانتشار ،بغض و عناد سے دوچار ہیں ،ہمارے ملک ہندوستان میں ایک مکمل منصوبے کے تحت تہذیب و کلچر کو بدلنے کی کوششیں زور و شور سے جاری ہیں ،وہ ہندو اتحا دکو پُر زور نعروں اور کھلے عام مظاہروں کے ساتھ اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں ،ان کے اندر مذہبی جذبہ بیدار ہورہا ہے اور اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کاشوق شدت کے ساتھ پروان چڑھ رہا ہے ،مذہب سے لگاؤ و دلچسپی کو پیداکرنے اور اپنی تہذیب کو فروغ دینے کے لئے آئے دن ان کے پروگرام ہورہے ہیں اوران کے نوجوان جوق در جوق شریک بھی ہورہے ہیں بلکہ عملی طور پر ان کو تیار کیا جارہا ہے ،ٹریننگ اور تربیت دے کر مذہب پسندی کے رجحان کو مضبوط کیا جارہاہے ۔اس کے برخلاف مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ مسلم نوجوان تمام چیزوں کے بے خبر ہوکر فیشن کا دلدادہ بناہوا ہے ،لباس میں ،وضع قطع میں ،حلیہ و انداز میں ،بالوں کی تراش خراش میں ،رہن سہن میں اور طرزِ زندگی کے کسی ایک پہلو کو دیکھ کر بھی یہ نظر آتا ہے کہ یہ اس انقلابی قوم کا ایک فرد ہے کہ جس ہاتھوں اقوام وامم کی تقدیرہے،جس کی نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے ،جس کی ایک ضرب سے دل دہل جاتے تھے ،جو دنیا میں خدا کا نائب بناکر بھیجا گیا اور جسے ساری انسانیت تک خدا کے دین اور نبی کی شریعت کو پہنچانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔اسی طرح اگر بڑوں کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ انہیں اسلام کی نشرواشاعت اور اس کی صحیح ترجمانی سے کوئی دلچسپی نہیں ،اونچے عزائم ،بلند حوصلے،دین اسلام کے فروغ اور نبوی تعلیمات کی اشاعت کے لئے کو ئی خاص فکر اور تڑپ نہیں ،بلکہ اگر انہیں ان کا بیٹا نیک اور دین دار ہوتا نظر آجائے تو یہ فکر لاحق ہوجاتی ہے کہ اس کے روزگار کا کیا ہوگا اور اس کا مستقبل کیسا ہوگا؟مسلم خواتین بھی اپنی گراں قدر ذمہ داریوں کی ادائیگی سے کوسوں دور ہیں،اور ان کی بھی بڑی تعداد فیشن و ٹی وی کی فریفتہ ہے ۔جب یہ صورت حال ہمارے معاشرہ کی ہوگی تو ہم خود اندازہ لگاسکتے ہیں ایمانی بہاریں ،دینی فضائیں کیسے قائم ہوں گیں ،اور انقلاب و اصلاح کی صدائیں کیسے بلند ہوں گیں؟نئی نسل کیسے دین کے قریب ہوں گیں اور نوجوان کب دین کے عاشق اور نبی ﷺ کے دیوانے بنیں گے؟ اسلام کا تحفظ ،باطل کی سازشوں کی ناکامی کے راستے کیسے ہموار ہوں گے؟اسلامی تشخص پر عمل آوری کا جذبہ کیسے ابھرے گا؟
بہر حال رمضان کا مہینہ اسی ایمانی جذبہ کو زندہ کرنے اور اعمالی شوق کو تازہ کرنے لئے آیاتھا ،اب ہماری ذمہ داری ہے کہ اس مبارک مہینہ میں ہم نے اپنے عظیم و کریم رب سے جو وعدے کئے ہیں ان تمام کو نبھائیں تاکہ ہم کامیاب مسلمان بن کر دنیا میں رہیں اور بامراد انسان بن کر روزِ محشر کھڑے ہوں۔

تبصرے بند ہیں۔