کاش

سالک جمیل براڑ

شام کے چھ بج رہے تھے۔ آسمان میں اندھیرے اوراجالے کا ملن ہورہا تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ او۔ سی۔ ایم کاٹن مل کے صحن میں لگے ہوئے درختوں سے سوکھے ہوئے پتے ہواؤں کے تھپیڑوں کوبرداشت نہ کرتے ہوئے زمین پر گررہے تھے۔ دن بھرکے تھکے ہارے پرندے اپنے اپنے گھونسلوں میں واپس لوٹ رہے تھے۔ ایسے میں مل(MILL) کے باہر بس سٹاپ پر کئی مزدور بس کے انتظار میں کھڑے تھے۔ جواپنے اپنے گھروں کوواپس جانے کو بیتاب تھے۔

رام سنگھ بھی ایک طرف کھڑا کھانس رہاتھا۔ وہ بھی مل سے گھرجلدی پہنچناچاہتاتھا۔ کیونکہ اندھیرا اور سردی دونوں برابر بڑھ رہے تھے۔ رام سنگھ مل کے پرانے اور وفادارملازموں میں سے ایک تھا۔ لگ بھگ تیس سال سے وہ اسی مل میں کام کرتاہواجوانی اور صحت گنوا بیٹھاتھا۔

پچھلے کچھ دنوں سے وہ کافی پریشان دکھائی دے رہاتھا۔ اس پریشانی کی وجہ بیٹی کی شادی تھی۔ بیٹی کی شادی کے لیے اس نے اپنا خون پسینہ ایک کرکے پائی پائی جمع کی تھی۔ لیکن شادی سے پندرہ دن پہلے لڑکے والوں نے ایک لاکھ روپے کی مانگ رکھ دی۔ جسے اداکرنا اس کے بس کی بات نہیں۔ رام سنگھ کے صرف دو بیٹیاں تھیں بیٹانہیں۔ لیکن اس نے لڑکیو ں کی پرورش میں کسی طرح کی کوئی کمی نہیں رکھی۔ تعلیم کے قیمتی زیورسے آراستہ کرکے بڑے نازوں سے ان کوپالا تھا۔

رام سنگھ کاگاؤں کے عزت دارآدمیوں میں شمار ہوتاتھاکبھی کسی سے لڑائی جھگڑا یاکسی اور طرح کی کوئی بات دیکھنے کونہیں ملی تھی۔ وہ توبس اپنے کام سے کام رکھتاتھا۔ اس نے زندگی بڑے اچھّے ڈھنگ سے بسر کی تھی۔ وراثت میں اس کے پاس اپناگھر تھا۔ جس میں وہ چھوٹے سے کنبے کے ساتھ رہائش پذیرتھا۔ یہ مکان پراناہوتے ہوئے بھی ماڈرن ضروریات سے آراستہ تھا۔

رام سنگھ اس رشتے سے بے حد خوش تھا۔ اس دورمیں پڑھالکھالڑکا، سرکاری ملازم اور اوپرسے جہیز میں بھی کچھ نہیں بس وہ ایساہی رشتہ چاہتاتھا۔ لیکن پھربھی وہ اپنی طرف سے کسی چیزکی کمی نہیں رکھناچاہتاتھا۔ اس کی بھی خواہش تھی کہ بیٹی کی شادی دھوم دھام سے ہو۔ اسی لیے وہ پچپن (55) کی عمرمیں بھی بارہ گھنٹے کام کرتاتھا۔ جس کے نتیجے میں وہ بیماررہنے لگامگرعین وقت پر لڑکے والوں نے ایک لاکھ روپے کی مانگ رکھ دی۔ اب اتنی جلدی ایک لاکھ روپے کاانتظام کہاں سے ہوگا۔ جیسے جیسے دن گزررہے تھے۔ رام سنگھ کی پریشانی میں اضافہ ہورہاتھا۔ اس نے زندگی میں کبھی بھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے تھے۔ مگراولاد کی خوشی کے لیے وہ یہ کام بھی کرگزرا، اس نے بہت کوشش کی مگر مایوسی ہی اُس کے ہاتھ آئی۔ رام سنگھ نے اپنے عزیزدوست گردیوسنگھ سے بھی بات کی۔ ’’شری مان!………… اس مہنگائی کے دور میں اپنے ہی اخراجات پورے ہوجائیں تو بڑی بات ہے۔ ایک لاکھ  تودورایک پیسہ دینامشکل ہے۔ ‘‘

یہ الفاظ گردیوسنگھ کے تھے۔

پھر اُس نے کمپنی مینجر سے درخواست کی۔ ’’آپ کمپنی کے پرانے اور وفادار ورکر ہیں۔ ہم آپ کی قدرکرتے ہیں۔ پہلے ہی کمپنی کے دویونٹ بندپڑے ہیں۔ سوری(SORRY)مجھے نہایت دکھ کے ساتھ کہناپڑرہاہے۔ کہ ہم آپ کی کوئی مالی مددنہیں کرسکتے۔ ‘‘کمپنی کے مینجرنے بڑے دکھ بھرے اندازمیں کہا۔

اب لے دے کے رام سنگھ کاگھررہ گیاتھا۔ جواسے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیزتھا۔ اس گھر کو وہ اپنے پرکھوں کی آخری نشانی مانتاتھا۔ جسے وہ کسی بھی قیمت پرنہیں بیچ سکتا۔ اگر کہیں رشتہ ٹوٹ گیاتوبڑی بدنامی ہوگی۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کریں گے۔ اورپھرلڑکی کی زندگی کا سوال تھا۔ اچھّے رشتے بھی روزروز نہیں ملتے۔

وہ اسی فکرمیں غرق تھاکہ بس آگئی اور وہ بس میں سوارہوگیا۔ بس میں کافی رش تھا تقریباًسبھی سیٹیں پرُتھیں۔ وہ کھڑاہوگیا اگلے سٹاپ پراس کے قریب سے ایک سواری اتری اور وہ خالی سیٹ کی طرف لپکا۔ بس دوبارہ روڈ پرہواسے باتیں کرنے لگی۔ رام سنگھ کاسر درد سے پھٹاجا رہاتھا۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں اوردونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپ لیا۔ سوچوں میں غرق وہ اپنی منزل آنے کا انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد ایک دم بس کے بریک چیخ اٹھے۔ سامنے سے ایک ٹرک پوری تیزی سے بس کے سامنے آگیا۔ ڈرائیور بوکھلا گیا۔ اوربس کو کنٹرول نہ کرسکا۔ دیکھتے ہی دیکھتے بس ایک طرف کھائی میں جاگری۔ رات کے تقریباً دس بج رہے تھے۔ راحت کرمچاریوں کے کئی دستے پہنچ چکے تھے۔ کھائی زیادہ گہری نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ زخمیوں کو ایمبولینس کے ذریعہ ہسپتال لے جایاگیا۔ زخمیوں اور لاشوں کو ڈھونے کاسلسلہ ساری رات جاری رہا۔ کچھ خوش قسمت مسافرایسے تھے جن کے چندخراشیں ہی آئی تھیں۔ رام سنگھ بھی قدرے زخمی ہوگیا تھا۔ لیکن گھبراہٹ اورخوف سے اس کا برُاحال تھا۔ موت کے خوف اور دل دہلادینے والے جھٹکے سے اس کے جسم کا ہر حصّہ جیسے ٹوٹ گیاتھا۔ وہ درد سے کرّاہ رہاتھا۔

اگلے ہی دن رام سنگھ کے گھراس کے ساتھی سمندھی آنے لگے۔ دودن کے آرام کے بعد وہ بہتر ہوگیا۔ مگرایکسیڈنٹ کا ہلکاساخوف اس کے ذہن پرابھی بھی چھایاہواتھا۔

دھندکافی حد تک کم ہوچلی تھی۔ آسمان میں سورج چھوٹی چھوٹی بدلیوں کے ساتھ آنکھ مچولی کاکھیل کھیل رہا تھا۔ ایک دم تیزدھوپ پلک جھپکتے ہی چھاؤں، بیچ میں ٹھنڈی ٹھنڈی ہواکے جھونکے، کل ملاکر موسم بہت سہاناتھا۔ رام سنگھ اپنے گھرکے صحن میں لکڑی کی ایک پرانی سی کرسی پربیٹھااخبارپڑھ رہا تھاکہ اس کی نظر ایک سرخی پر پڑی۔

’’مکھیہ منتری جی نے او۔ سی۔ ایم روڈ پر ہوئے بس حادثے پر افسوس ظاہرکرتے ہوئے حادثے میں مرنے والوں کے وارثوں کوایک ایک لاکھ روپے کی راحت دینے اور زخمیوں کا مفت علا ج کرنے کااعلان کیاہے۔ ‘‘

اخبار اس نے پاس ہی پڑے چھوٹے سے ٹیبل پررکھ دیا۔ جس پر خالی چائے کا کپ اور دوائیوں کی شیشیاں پڑی تھیں۔ وہ کرسی کی پشت کے ساتھ ٹیک لگا کربیٹھ گیااوردور آسمان میں گھورتے ہوئے اس کے منہ سے ٹھنڈی سانس نکلی۔ وہ بڑبڑایا۔

’’کاش اس کانام بھی مرنے والوں کی لسٹ میں ہوتااس کی موت بیٹی کے لیے خوش نصیبی کی علامت بن جاتی۔

تبصرے بند ہیں۔