’’صغیر افراہیم—–افسانے کے نقاد‘‘

پروفیسر محمد انصار اللہ

        میر علی اوسط رشکؔ نے خوب کہا ہے   ؎

نہیں موقوف اولاد و کمال و خلق و دولت پر

بڑی تقدیر ہے دنیا میں جس کو نام ملتا ہے

تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے بہتر عمل جس سے کسی شخص کو نام ملتا ہے مدرّسی یا معلّمی ہے۔ اس پیشہ کی بدولت ذوقؔ اور غالبؔ کے کارناموں کے طفیل میں حافظ شوقؔ اورمیاں معظمؔ کو جو حاصل ہوا تھا، وہی عزیز دانشمند پروفیسر صغیر افراہیم کے کمالاتِ فیض سے مجھ بے بضاعت، گمنام اور گوشہ نشین کو بھی میسر آیا ہے۔

        ڈاکٹر صغیر افراہیم اتر پردیش کے ضلع انّاؤ کے ایک معزز اور موقر گھرانے میں 1953ء میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد ڈاکٹر محمد یعقوب بیگ پیشہ کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے اور سید ابراہیم شاہ کے نہایت عقیدتمند تھے۔ شاہ صاحب کے بیٹے ڈاکٹر سید محمد افراہیم شاہ اپنے وقت کے خدا رسیدہ بزرگوں میں شمار ہوتے تھے۔ پروفیسر صغیر افراہیم کے والد محمد یعقوب بیگ صاحب ادبی ذوق بھی رکھتے تھے۔ انّاؤ میں ان کا مطب علم دوست حضرات کا مرکز تھا۔ اُن کے مزاج کا انکسار، طبیعت کی نیکیاں اور علم دوستی ڈاکٹر صغیر افراہیم کو اُن سے ورثے میں ملی ہیں۔

        ڈاکٹر صغیر افراہیم نے ابتدائی تعلیم تو انّاؤ میں ہی حاصل کی تھی۔ اس کے بعد کوئی بیس بائیس سال کی عمر میں اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ آئے اور اُسی وقت سے وہ میرے قریب رہے۔ عزیزی صغیر افراہیم کے والد محترم جب بھی علی گڑھ آتے تو میرے غریب خانے کو بھی عزت بخشتے تھے۔ صغیر سلمہٗ بھی معمولاً ساتھ ہوتے تھے۔ اُسی زمانے میں یہ بات سامنے آئی کہ صغیر افراہیم کو نہ صرف افسانوں اور ناولوں سے دلچسپی ہے بلکہ وہ خود بھی چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھتے تھے۔ درسی اور نصابی ضرورتوں سے انھوں نے جو مضامین لکھے تھے بیشتر بہت اچھے ہوتے تھے۔ شُدہ شُدہ چھوٹے بڑے رسالوں میں اُن کے چھپنے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔

        عزیزی صغیر افراہیم ایک محنتی اور اچھے طالب علم ثابت ہوئے۔ شعبہ میں میرے رفیقِ شفیق ڈاکٹر نعیم احمد (خدا مغفرت کرے) اُن کی کارکردگی سے بہت متاثر تھے اور ان کے علمی معاملات پر خصوصیت سے نظر رکھتے تھے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ عزیزی صغیر افراہیم نے ’’اردوافسانہ ترقی پسند تحریک سے قبل‘‘ کے عنوان سے ان کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کے لیے اپنا مقالہ 1985ء میں مکمل کیا۔ ڈاکٹر نعیم احمد جدید دور کی ادبیات پر اچھی نظر رکھتے تھے۔ چنانچہ اُن کی نگرانی میں مذکورہ موضوع پر جو مقالہ مکمل ہوا، متعلق حلقوں میں اُس کی کما حقہٗ پذیرائی ہوئی۔

        سارے موانعات کے باوجود صغیر افراہیم نے اپنی جدو جہد کو جاری رکھا، امتیازی حیثیت سے ایم اے کرلینے کے بعد انھوں نے جو مضامین لکھے تھے، اُن میں سے منتخب پانچ مضامین پر مشتمل ایک مجموعہ ’’پریم چند—ایک نقیب‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں 1987ء میں چھپوا کر شایع کیا۔ ان مضامین کی کیفیت مختصر لفظوں میں اس طرح بیان کی جا سکتی ہے:

پہلا مضمون  —-   پریم چند پر مختلف تحریکوں کے اثرات—اپنی نوعیت کے اعتبار سے کسی حد تک تحقیقی ہے۔

دوسرا مضمون       —-   ہوریؔ –ایک علامتی کردار—اُس عہد کے ایک عام کسان کی زندگی کیسے بسر ہوتی ہے اور اُس پر کیا گذر جاتی ہے، اِس کو سمجھنے کے لیے ہوریؔ کا مطالعہ ناگُزیر ہے۔

تیسرا مضمون        —-   —’’شاہکار تخلیق–کفن‘‘—اِس میں پریم چند کا مشاہدہ، فکر، تخیل، زبان و بیان اور فنّی صلاحیتیں معراجِ کمال پر پہنچی ہوئی ہیں۔

چوتھا مضمون        —-   ’’افسانہ نگار—پریم چند‘‘—پر اجمالی تبصرہ اور

پانچواں مضمون      —-   سوانحی کوائف پر مبنی ہے۔

         اس مجموعے میں صغیر افراہیم نے پریم چند کے عہد تک کی بر صغیر کی اُن اہم ترین تحریکوں کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ لیا ہے جن سے پریم چند نے شعوری یا غیر شعوری طور پراثرات قبول کیے تھے یا اُن کے ذہن پر اثرات مرتّب ہوئے تھے۔ خود صغیر افراہیم کا کہنا ہے کہ :

’’شاید میں نے پہلی بار پریم چند کے یہاں تحریک آزادیٔ وطن کے جانبازوں میں حضرت شاہ ولی اللہ کی تحریک مجاہدین، کے جاں نثاروں کا عکس دکھایا ہے۔ پریم چند کو تاریخی ناولوں کے غائر مطالعہ کا اعتراف ہے۔ یہ ناول عموماً مجاہدین کی سرفروشی پر مبنی ہوتے تھے۔ مجاہدین کی جانبازی سے وہ خاص طور پر متاثر ہوئے جس کی واضح جھلک ان کی تحریروں میں ملتی ہے…۔ ‘‘

یہ مجموعہ ادبی حلقہ میں اس حد تک پسند کیا گیا کہ اس کے 1996ء، 1999ء اور 2009ء میں نئے ایڈیشن آئے، ہندی میں بھی ترجمہ کیا گیا اور اُتر پردیش حکومت نے مصنف کو انعام سے نوازا۔

        مذکورہ پہلی کتاب کی جس طرح پذیرائی ہوئی، اُس سے صغیر افراہیم کو بہت حوصلہ ملا اور اُن کے یہاں خود اعتمادی کی صورت پیدا ہوئی۔ اب وہ ایک پختہ کار صاحبِ قلم اور لائقِ اعتماد نقاد تھے۔ انھوں نے پی ایچ ڈی کے لیے اپنے تحقیقی مقالے کو ’’اردو افسانہ ترقی پسند تحریک سے قبل‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں پہلی بار 1991ء میں چھپوا کر مشتہر کیا۔ یہ مقالہ پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔

پہلا باب:      اردو افسانہ—اس میں افسانہ کی تعریف اور پس منظر کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ افسانہ کی ابتدا سے بھی مدلل بحث کی گئی ہے۔

دوسرا باب:   اس میں پریم چند اور اُن کے ہم عصر مشہور افسانہ نگاروں کے کار ناموں کا تجزیہ کرکے اُن کی حقیقت نگاری اور اُن کے زمانے میں مہاجنوں اور زمینداروں وغیرہ کی طرف سے غریب عوام کے استحصال وغیرہ کو دکھایا گیا ہے۔

تیسرا باب:    اس میں رومان پسند افسانہ نگاروں کے افسانوں کا جائزہ لیا گیا ہے اور یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ ان سے ہندوستان کی اصل زندگی کے بنیادی مسائل کا شعور حاصل نہیں ہوتا ہے۔

چوتھا باب:    تشکیلی دور کے کچھ اور افسانہ نگار—اس باب میں حقیقت پسندانہ رُجحانات اور رومانی میلانات کے دیگر افسانہ نگاروں کے تعارف کراتے ہوئے خصوصی توجہ راشد الخیری پر دی گئی ہے۔ وہ اس حصہ میں مترجم اور مزاحیہ افسانہ نگاروں کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔

پانچواں باب:  اردو افسانہ میں جدید رُجحانات—اس باب میں 1932ء سے 1936ء تک شایع ہونے والے افسانوں کا تعارف کرایا گیا ہے۔ اس میں افسانوں کے مشہور مجموعہ ’’انگارے‘‘ سے مفصل بحث کی گئی ہے اور اسے پریم چند کے شاہکار افسانہ ’’کفن‘‘ پر ختم کیا ہے۔

                اس مقالہ کا آخری جُزو ’’اختتامیہ‘‘ ہے۔ اس میں ماحصل کے علاوہ اُس دور کے تمام افسانہ نگاروں کے سوانحی کوائف اور تخلیقات کی تفصیلات درج ہیں۔ آخر میں ’’کتابیات‘‘ کے عنوان سے ماخذ اور پھر بنیادی ماخذ کی فہرست چونکا دینے والی ہے۔ اُن کی اِس جاں فشانی اور عرق ریزی سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے آج کے بعض ریسر چ اسکالرز اور اساتذہ خود اپنے موضوعات سے متعلق مطبوعہ کتابوں کے وجود سے بھی نا واقف رہ جاتے ہیں۔ میری دُعا ہے کہ رسل و رسائل اور کتابوں تک رسائی کے ذرائع ایسے ہو جائیں کہ مذکورہ صورتِ حال باقی نہ رہے۔

        پروفیسر صغیر افراہیم کی اس کتاب کا پہلا ایڈیشن جلد ختم ہو گیا۔ 2009ء میں پبلشر نے اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کیا ہے جس نے صغیر افراہیم کی تصانیف کا شمار اس طرح کرایا ہے۔

        پہلی کتاب۔ ’’پریم چند—ایک نقیب‘‘ پریم چند کے فنّی اور فکری محرکات کا احاطہ کرتی ہے۔

        دوسری کتاب۔ ’’اردو افسانہ ترقی پسند تحریک سے قبل‘‘ 1901ء سے 1936ء تک کے افسانوں کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ ہے۔

        تیسری کتاب۔ ’’نثری داستانوں کا سفر اور دوسرے مضامین‘‘ اس میں داستان، ناول اور افسانہ کے تجزیاتی مطالعہ کے علاوہ دیگر اصنافِ ادب پر بھی مدلل اور موثر نگاہ نقد ڈالی گئی ہے۔ یہ کتاب ۱۹۹۵ء میں شائع ہوئی تھی۔

        چوتھی کتاب۔ ’’اردو فکشن—تنقید اور تجزیہ‘‘ ہے۔ 2003ء میں چھپنے والی یہ کتاب بھی مذکورہ تینوں کتابوں کی طرح افسانوی ادب کے قدیم و جدید اسالیب، ان کی تفہیم اور تجزیے پر مبنی ہے۔ اس مجموعہ کے شروع میں جناب شافع قدوائی کے ’’حرف اول‘‘ کے علاوہ خود مصنف کے بیان سے کتاب کی نوعیت، مطالب اور ان کی قدر و قیمت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ مذکورہ کتاب کے بیشتر مضامین کو اپنے موضوع اور مطالب کے اعتبار سے اولیت حاصل ہے اور ان کے لیے میں ڈاکٹر صغیر افراہیم کو مبارکباد دیتا ہوں۔ پچھلے سال شائع ہونے والی اُن کی کتاب ’’اردو کا افسانوی ادب (تحقیقی اور تنقیدی مضامین)‘‘ میں کُل بیس مضامین شامل ہیں۔ اس مجموعہ کے لیے ’’حرف آغاز‘‘ مُحبّی شارب ردولوی نے لکھا ہے:

’’صغیر افراہیم کے مضامین سادہ اور شفاف زبان میں ہوتے ہیں۔ بعض مضامین خاکے کا لطف بھی دیتے ہیں … وہ ایک روشن فکر ناقد ہیں اس لیے اُن کے تنقیدی تجزیے وسیع اور ادبی اقدار پر قایم ہیں۔ ‘‘

اس کتاب کی تزئین(Prelude)بہت مفصل، پچاس صفحوں پر مشتمل، جناب انیس رفیع کی رقم کردہ ہے—حاصل کلام یہ ہے:

’’پروفیسر صغیر افراہیم اپنی تنقیدی صلاحیتوں کے تشکیلی دور کے آخری مرحلے سے گُذر چکے ہیں۔ مشق و محنت اور لگن، فن سے فرہاد کا ساخلوص، اُن کے بہترین سرمایے ہیں اُس پر مستزاد زبان و بیان پر قدرت، تجزیاتی استعداد کے ساتھ اُن کے یہاں تلاش و جستجو کی چاہت بھی ہے۔ ‘‘

خود ڈاکٹر صغیر افراہیم نے کتاب کے آخر میں ایک بہت ہی کام کی بات کہی ہے:

’’جس کثیر تعداد میں افسانے منظر عام پر آ رہے ہیں اُتنی ہی تعداد میں تنقیدی مضامین بھی لکھے جا رہے ہیں۔ بس ضرورت انتخاب کی ہے۔ ایسا انتخاب جو بیباکانہ ہو اور رو رعایت کے بغیر ہو۔ ‘‘

        صغیر افراہیم نے بڑے حوصلے اور شوق سے قابلِ قدر اور لائقِ تحسین کام کیے ہیں۔ ان کی اب تک کی کار کردگی کی روشنی میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ انتخاب کا کام جس کی اہمیت اور ضرورت کی خود انھیں نے نشاندہی بھی کی ہے، وہ خود کریں گے۔ ان شاء اللہ۔

        اُن کی تازہ ترین کتاب (افسانوی ادب کی نئی قرأت)کے مضامین کے مطالعہ سے قارئین پر یہ بات بخوبی روشن ہو جائے گی کہ پروفیسر صغیر افراہیم نے افسانوی ادب کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا لیاہے۔ اُنھوں نے قدیم اور جدید ادب پر گہری نظر ڈال کر تحقیق اور تنقید کا حق ادا کیا ہے۔ ماضی حال اور مستقبل تینوں اُن کے قلم کی گرفت میں ہیں۔ وہ ماضی کی کاوشوں کا بھی ذکرکرتے ہیں اور حال میں لکھی گئی کتابوں پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ اُن کی نظر میں عمر کے اعتبار سے چھوٹے بڑے کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ اُن کا بس ایک یہ اصول معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی ادبی، تحقیقی اور تنقیدی کارنامہ قابلِ ذکر ہے تو اس کا تذکرہ ضرور ہونا چاہیے اور جس کا جو حق ہے اُسے ملنا چاہیے۔ وہ اپنے اساتذہ کی خدمات پر بھی روشنی ڈالتے ہیں، اپنے ہم عصروں پر بھی مضامین لکھتے ہیں اور اپنے چھوٹوں کی تعریف کرنے میں بھی بُخل سے کام نہیں لیتے ہیں۔

        بیشتر حضرات پروفیسر صغیر افراہیم کو پریم چند اور افسانے کے ناقد کی حیثیت سے جانتے تھے لیکن اب ان کی اِس کتاب کے مضامین سے انھیں اندازہ ہوگا کہ عزیزی صغیر افراہیم کا میدان خاصہ وسیع ہو چکا ہے۔ اب وہ پریم چند تک محدود نہیں ہیں بلکہ ان کے دائرۂ کار میں ابوالکلام آزاد بھی ہیں چونکہ صغیر صاحب افسانوی ادب کے ناقد ہیں اس لیے انھوں نے ابوالکلام آزاد کی افسانہ نگاری کو موضوع بنایا ہے۔ یہ ابوالکلام آزاد کی تحریروں کے مطالعہ کی بالکل نئی جہت ہے۔ عموماً لوگ انھیں غبارِ خاطر، تذکرہ، الہلال، البلاغ، تفسیر قرآن وغیرہ کے حوالے سے جانتے ہیں۔ اگر وہ بھی اس حوالے سے گفتگو کرتے تو پھر نئی کیا بات ہوتی۔ ڈاکٹر صغیر افراہیم نے ابوالکلام آزاد کی کہانیوں کو تلاش کرکے قارئین کی خدمت میں ایک نئے ابوالکلام آزادؔ کو پیش کیا ہے اوربہت ہی تفصیل سے اُن کے اندر چُھپے ہوئے تخلیق کار کو متعارف کرایا ہے۔ یہ ایسا کام ہے جس کی افادیت کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔

        طلسم ہوش رُبا اور باغ و بہار کی اہمیت اور معنویت پر بھی صغیر افراہیم نے مدلل گفتگو کی ہے۔ ان دونوں کتابوں کا شمار اردو کی نہایت اہم داستانوں میں کیا جاتا ہے۔ داستانیں اب پہلے کی طرح نہیں پڑھی جاتی ہیں لیکن ان کی بے پناہ مقبولیت، ادبی اور تاریخی اہمیت سے کسے انکار ہو سکتا ہے یہ ایک ایسا خزانہ ہے جس سے نئی نسل کو فیضیاب کرنا ایک بڑی ضرورت ہے۔ جو لوگ یہ کر رہے ہیں وہ یقینا ادب کی ایک بڑی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ نئی نسل کلاسیکی ادب سے دور ہوتی جا رہی ہے، یہ تشویش کی بات ہے۔ ماضی کو سمجھے بغیر ہم حال کو نہیں سمجھ سکتے۔ یہ ہماری تن آسانی ہے جو ہمیں کلاسیکی ادب سے دور کرنا چاہتی ہے۔ ہم بازار کی ضرورتوں کے مطابق تحقیق اور تنقید کا کاروبار کرنے لگے ہیں لیکن جو لوگ ادب کے سچے خدمت گار کی حیثیت سے کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ بازار کی ضرورتوں سے اُوپر اٹھ کر ادب کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صغیر افراہیم نے جہاں افسانوی ادب کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی ہے وہیں اردو کی داستانوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا ہے۔

        مجھے صغیر افراہیم کی یہ بات بھی بہت اچھی لگی کہ اُن کے یہاں کہیں ابہام نہیں ہے۔ وہ اپنی ناواقفیت کو لفظوں کے پردوں میں چُھپاتے نہیں ہیں، جتنا جانتے ہیں بہت صاف سُتھرے انداز میں اپنے قاری تک پہنچاتے ہیں۔ وہ اُن لوگوں میں نہیں ہیں جو قاری کو جاہل سمجھتے ہیں اور اُن ناقدین میں بھی نہیں ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ فلاں موضوع پر ان سے پہلے کچھ لکھا ہی نہیں گیا۔ صغیر صاحب کو ہمہ دانی کا غرہ نہیں ہے۔ ہاں جو کچھ وہ جانتے ہیں اُسے دوسروں تک بہتر ڈھنگ سے پہنچانے کی خواہش ضرور رکھتے ہیں۔ یہ بات اس کتاب کے قارئین بھی محسوس کریں گے۔ میں عزیزی صغیر افراہیم کو اُن کی اس نئی کتاب کی اشاعت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں مجھے یقین ہے کہ وہ اسی طرح خلوص کے ساتھ ساتھ اپنی زبان، اپنے ادب اور اپنی معاشرت کی خدمت کرتے رہیں گے۔ ان کی تصانیف کو دیکھ کر دل کہتا ہے کہ   ؎

ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا

تبصرے بند ہیں۔