کاغذ کا بازیگر

سالک جمیل براڑ

ارشد آج بہت خوش تھا۔ خوش ہوتابھی کیوں نہ بھئی بہترین ناول نگاراور ہندوستان کے نمبرون شاہین پبلیشر کے مالک راجندر ناتھ جی نے اسے اپنے دفتر میں آنے کی دعوت دی تھی۔ ارشد کو بچپن سے ہی کہانیاں سننے، پڑھنے اورلکھنے کا شوق تھا۔ لیکن اب یہ شوق جنون کی حد تک پہنچ چکاتھا۔ وہ تقریباً پانچ سال سے افسانوی ادب کی خدمت میں لگا ہواتھا۔ چھ ماہ کی سخت محنت کے بعد اس نے اپنا پہلا ناول’’سایے‘‘ تخلیق کیاتھا۔ اب اس کی دلی تمنا تھی کہ جتنی جلدی ہوسکے اس ناول کو چھپوایاجائے۔ اسی غرض سے اس نے شاہین پبلیشر سے رابطہ قائم کیا۔ شاہین پبلیشر کی شائع کردہ کتابیں اردو دنیامیں اعلیٰ مقام رکھتی ہیں۔ خود شاہین پبلیشر کے مالک راجندر ناتھ جی بھی بہت تجربے کار ناول نگار ہیں۔ انہوں نے دس کے قریب ناول تخلیق کیے ہیں۔ شاہین پبلیشرہر کسی کی کتاب نہیں چھاپتا۔ پہلے اس کتاب کو خوب جانچا پرکھا جاتا ہے۔ اگر کتاب ان کی کسوٹی پر کھری نہ اترے تووہ اسے چھاپنے سے صاف انکارکردیتے ہیں۔ اسی وجہ سے شاہین پبلیشر کی ہرکتاب شاہکارہوتی ہے۔ راجندرجی نے ارشد سے بھی صاف صاف لفظوں میں کہہ دیاتھا۔ کہ دیکھو میاں آپ کے ناول کی اشاعت کے بارے میں، میں خوداس کا مطالعہ کرنے کے بعد بتاؤں گا۔ بس پھرکیاتھا۔ ارشدراجندرجی کی کال کاانتظارکرنے لگا۔ اسے اپنے اندرچھپے فنکارپرپورا بھروسہ تھا۔ اسے پوری امیدتھی۔ کہ اس کی تخلیق شاہین پبلیشر کی کسوٹی پرکھری اترے گی۔ آخر پندرہ دن کے بعد اس کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئی۔ یعنی راجندر جی نے ارشد کو دعوت دے ہی دی۔

ارشد ایک غریب گھرانے کا چشم وچراغ تھا۔ وہ ایک پرائیوٹ اسکول میں ٹیچر تھا۔ دن بھر کی تھکادینے والی مصروفیت کے باوجود بھی وہ افسانہ اورناول لکھنے کا شوق رکھتاتھا۔ یہ اُس کے شوق کی حدتھی۔ صبح سے دوپہر تک اسکول، اسکول کے بعد بچّوں کو ان کے گھروں پرٹیوشن دینے جاتا تھا۔ اس طرح رات کوتھکا ہارا گھرپہنچتا۔ دن بھرکی دوڑ دھوپ کے باوجود بھی وہ اپنے پریوارکی خواہشات کو پوراکرنے میں ناکام تھا۔ ارشد کے لیے بڑی مشکل اس کے ابّا کی کبھی نہ ختم ہونے والی بیماری تھی۔ اس نے انھیں اچھّے سے اچھّے ڈاکٹر سے چیک کروایاتھا۔ مگربیماری کا کچھ پتہ نہیں چلا تھا۔ اس کے ابّاکوکوئی بیماری نہیں تھی۔ بس ان پراپنی دوجوان بیٹیوں کا بوجھ تھا۔ جنھیں مناسب رشتے نہیں مل رہے تھے۔ بس وہ اسی بات کی فکرلیے جی رہے تھے۔ اس کے چہرے سے آج کئی مہینوں کے بعد اداسی کے بادل چھٹے تھے۔ روز مرہ کے معمولات کے بعد جب وہ رات کو تھکاہاراگھرپہنچا۔ جیسے ہی اس نے راجندرناتھ جی کا خط دیکھا وہ خوشی سے پاگل ہوگیا۔

اس کو ساری رات نیند نہ آئی۔ وہ چارپائی پر کروٹیں بدلتارہا۔ کہ کب صبح ہوگی کب میں شاہین پبلیشر جاؤں گا۔ پھرسورج نے چند ہی منٹوں میں بے رحم اندھیرے کاخاتمہ کردیا۔ ارشد سوچ رہاتھا کہ کاش میرے پاس بھی سورج جیسی طاقت ہوتی………کاش میں بھی اپنی اندھیری زندگی میں روشنی پھیلا سکتا………کاش…………

تقریباً نوبج رہے تھے۔ ارشد سفید شرٹ، کریم پینٹ، بلیک شوزپہنے ہوئے شیشے کے سامنے کھڑا بال سنواررہاتھا۔ اسے ساڑھے دس بجے شاہین پبلیشرجاناتھا۔ ارشدکا چھوٹاسا گھر دو کمروں پرمشتمل تھا۔ جیسے ہی وہ اپنے گھرکے گیٹ کی طرف بڑھا۔

’’ارشد ……اوارشد……آج بیٹاپیدل ہی اسکول جاؤگے۔ ‘‘اُس کی امّی نے اُسے آوازدی۔ اُنہیں ایسے محسوس ہواجیسے شایدوہ جلدی میں سائیکل اُٹھانا بھول گیا ہو۔

’’نہیں امّی……آج میں نے سکول سے چھٹی لی ہے۔ ‘‘اُس نے جواب دیا۔

’’اچھّااپنے ابّاکی دوائیاں لیتے آنا۔ ‘‘

’’جی‘‘ یہ کہتے ہو وہ تیز قدموں سے محلے سے ہوتا ہوا مین روڈ کی طرف بڑھا۔ اب وہ مین روڈپرواقع بس اسٹاپ پرپہنچ چکاتھا۔ اسے نوئڈاجانا تھا۔ تقریباً ایک گھنٹے کا سفر تھا۔ بس اسٹاپ پرکئی سواریاں کھڑی تھیں۔

ارشد وقت سے پہلے ہی شاہین پبلیشر پہنچناچاہتاتھا اس لیے اس نے آٹوسے جانا زیادہ مناسب سمجھا وہ ٹریفک جام میں پھنس کر لیٹ نہیں ہوناچاہتاتھا۔ سوادس بجے وہ اپنی منزل تک پہنچ چکاتھا۔ اب وہ شاہین پبلیشر کی عالیشان عمارت کے سامنے کھڑاتھا۔ گراؤنڈ فلور پرایک بہترین شوروم تھا۔ جس میں پبلشر کی شائع کردہ کتابیں سجی ہوئی تھیں۔ شوروم کے ساتھ ہی ایک سیڑھی تھی۔ وہ سیڑھی سے ہوتاہوااب فرسٹ فلورپرپہنچ چکاتھا۔ یہ فلورپبلشرکامین آفس تھا۔ آفس بڑے ہی اچھّے ڈھنگ سے سجا ہواتھا۔ ایسالگ رہاتھا۔ جیسے وہاں کی ہرچیز کانچ سے بنی ہو اوروہ ایک گوشۂ خواب ہو۔ ارشد کاؤنٹر پربیٹھی خوبصورت لڑکی کی طرف بڑھا۔

’’میم…… میری اپائیٹمنٹ ہے……مجھے راجندر ناتھ جی سے ملنا ہے۔ ‘‘ ارشد نے کاؤنٹر پربیٹھی لڑکی سے کہا۔ جو اس وقت کمپیوٹرپرکچھ کام کررہی تھی۔

’’پلیز‘‘ کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

’’یہاں پراپنانام اورآنے کا مقصد لکھ دیں۔ ‘‘ اس لڑکی نے ایک رجسٹرارشد کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ جسے اُس نے پرُکردیا۔ اب وہ غور سے آفس کی ہرچیز کودیکھ رہاتھا۔ آفس کوکئی چھوٹے چھوٹے حصّوں میں تقسیم کیاہواتھا۔ اور ہر کیبن کے اوپرعہدیدار کے نام کی تختی لگی ہوئی تھی۔ سبھی کیبن خاص قسم کے شیشے سے بنے ہوئے تھے۔ جن کے آرپارنہیں دیکھاجاسکتاتھا۔

کچھ دیرکے بعد اس لڑکی نے ٹیلی فون اٹھایا۔ ’’سر…… …آپ سے کوئی ارشد صاحب ملنے آئے ہیں ……جی جی………جی سر……‘‘۔ ’’پلیزآپ‘‘اس لڑکی نے سامنے کیبن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ جس پر ڈائریکٹر راجندرناتھ کی تختی لگی ہوئی تھی۔

’’شکریہ‘‘ یہ کہتے ہوئے ارشد کیبن کی طرف بڑھا۔

’’مے آئی کم اِن‘‘

’’یس کم اِن‘‘

اندرسے جواب آیا۔

ارشد راجندرناتھ کی شکل وصورت سے اچھی طرح واقف تھا۔ سرپرسفیدبال ایسے جمے ہوئے جیسے برف، گندمی رنگت، دبلاپتلاجسم، تیکھے نین نقش، کلین شیو، عمرلگ بھگ 60 سال۔ وہ ان کی شخصیت سے کافی متاثرتھا۔ اس نے دیکھا راجندرجی اپنی آرام کرسی پربیٹھے کچھ پڑھنے میں مصروف تھے۔ ان کے سامنے ٹیبل پربہت سی کتابیں پڑی تھیں۔ ٹیبل کے ایک طرف وہ خود بیٹھے تھے اور دوسری طرف تین کرسیاں خالی پڑی تھیں۔ دائیں طرف ایک شوکیس تھا۔ جس میں پبلشر کی شائع کردہ کچھ چنیدا کتابیں اور انعامات پڑے تھے۔

 ’’میں نے آپ کا ناول پڑھا۔ بہت خوب لکھا ہے۔ ایک کامیاب افسانہ نگارکے ساتھ ساتھ آپ ایک کامیاب ناول نگاربھی ہو، یہ میں نہیں جانتاتھا۔ آپ نے توکمال کردیا۔ افسانے کی طرح ناول ………واہ مشکل سے 150 صفحات ہونگے۔ میں آپ کو اتنا اچھّا، اتنا پیارا، اور اتنا بہترین لکھنے پر مبارک بادپیش کرتاہوں۔ ‘‘ راجندر ناتھ نے ارشد کے ناول کی تعریف کی۔

’’جی………ذرّہ نوازی کے لیے شکریہ………ورنہ ناچیز اس قابل تو نہیں۔ ‘‘

’’اب آپ کیاچاہتے ہیں ؟‘‘راجندرناتھ نے پوچھا۔

’’کیامطلب؟……میں اسے چھپواناچاہتاہوں۔ ‘‘ارشدنے حیران ہوکراس بے تکے سوال کا جواب دیا۔

’’دیکھومیاں ! ایک ہزارکاپی پرپچیس ہزار روپے کا خرچ آئے گا۔ ‘‘

’’مگر سر………میرے پاس توکچھ نہیں۔ ‘‘

’’چلوایساکرتے ہیں آپ دس ہزار دیں۔ ہم آپ کو 200کاپیاں دیں گے۔ باقی خرچہ ہم کریں گے۔ ‘‘

’’مگرسر……میں تو ایک روپیہ تک نہیں خرچ کرسکتا۔ ‘‘ارشد نے ایک بارپھروہی جواب دوہرایا۔ اسی دوران ایک لڑکاچائے لے کراندر داخل ہوا۔

’’تواس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ ہمیں پھوٹی کوڑی تک نہ دیں گے۔ اورآپ کوئی نامی گرامی مصنّف بھی نہیں ہوکہ آپ کا ناول ہاتھوں ہاتھ بک جائے گا۔ سوری! ہم اسے چھاپنے سے قاصر ہیں۔ ‘‘راجندرناتھ یہ کہہ کر کمرے میں ٹہلنے لگے ارشد چپ چاپ بیٹھاچائے کی چسکیاں لیتا رہا۔ کچھ دیرسوچنے کے بعدآخرراجندرناتھ نے ہی خاموشی توڑی۔

’’چلوایسا کرتے ہیں۔ میں تمہیں دس ہزار روپے دے دیتاہوں۔ لیکن پھریہ ناول میری ملکیت ہوگا۔ یعنی میرے نام سے شائع ہوگا۔ اس میں ہرج ہی کیاہے۔ فیکٹریوں میں مال تو مزدور ہی تیارکرتاہے۔ مگر لیبل کمپنی کے نام کا لگتاہے۔ یہی دنیاکادستورہے۔ شایدتمہیں یہ جان کر اس سے بھی زیاد حیرانی ہوگی کہ جوبھی میرے ناول لکھے ہوئے ہیں۔ حقیقت میں، میں نے آج تک کوئی بھی ناول نہیں لکھا………میرے پاس اتنا وقت کہاں ………بیٹا… ……تم اکیلے ہی نہیں ………کچھ اعلیٰ پائے کے ناول نگار بھی میرے لیے لکھتے ہیں … ………کیاکریں بے چارے………لکھنے سے صرف ان کے من کی پیاس بجھتی ہے۔ پیٹ کی آگ نہیں۔ میری بھی خواہش ہے کہ راشٹرپتی ایوارڈ حاصل کروں۔ مجھے تم پرپورابھروسہ ہے۔ مگر فارملٹی ضروری ہے۔ یہ لواسٹام پیپراس پر دستخط کردو………ارے میاں ! سوچ کیا رہے ہو پکڑواور کام ختم کرو۔ ‘‘ارشد کوگہری سوچ میں ڈوبے ہوئے دیکھ کر راجندرناتھ نے اس پردباؤ ڈالا۔

اُس کی آنکھوں میں خون اُترآیا۔ غصّے سے اس کے کان سرخ ہوگئے۔ اسے ایسا محسوس ہواجیسے راجندرناتھ اُس کی غریبی کامذاق اڑارہے ہوں۔ وہ غصّے میں اٹھااوربولا۔

’’مجھے آپ سے یہ امیدنہ تھی………میں آپ کی بہت عزّت کرتاتھا میں نے ایسا کبھی سپنے میں بھی نہ سوچاتھا۔ کہ آپ مجھے اس طرح ذلیل کریں گے۔ ‘‘ارشد نے افسوس ظاہرکیا۔

’’معاف کیجیے میں اپنے فن کا سودانہیں کرسکتا۔ میں اپنے ضمیر کونہیں بیچ سکتا۔ ‘‘ یہ کہہ ارشد دروازے کی طرف بڑھا۔

’’برخوردار!جاتے جاتے میری ایک اوربات سنتے جاؤ………زمانہ بدل گیا ہے………اورپھر تم ابھی بچے ہو………وقت کی ٹھوکریں کھاؤگے توسمجھوگے۔ خیر مجھے یہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی کہ آج بھی کچھ افسانہ نگارایسے ہیں جونڈر، انصاف پسند، بے غرض اورحق بات کہنے والے ہیں ………میں تم سے خفانہیں ………بلکہ مجھے افسوس ہے کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ کیاکروں ……… بزنس مین جو ٹھہرا… ……تم گھرجاکر اچھی طرح سے سوچ لو۔ ‘‘

ارشد تیزی سے آفس سے باہرنکلا۔

 تقریباً دوپہر کا ایک بج رہاتھا۔ وہ تھکاہارابوجھل  قدموں سے اپنے گھر کی طرف بڑھ رہاتھا۔ اورسوچ رہاتھا کہ کیاواقعی راجندرناتھ ٹھیک کہہ رہے تھے۔ کہ کچھ لوگ صرف پیسہ کمانے کے لیے ہی لکھتے ہیں۔ لعنت ہے ان پر………جیسے ہی وہ اپنے محلّے میں داخل ہوا۔ وہ یہ دیکھ کر بوکھلاگیا۔ کہ اُس کے گھرکے باہر بھیڑ جمع تھی۔

’’یااللہ رحم کرنا‘‘ وہ بدحواسی میں بڑبڑایا۔

اُس کے دل میں طرح طرح کے خیال آنے لگے۔ اوراس کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ اُسے ایسامحسوس ہورہاتھا۔ جیسے اُس کی سانس حلق میں اٹک گئی ہو۔ وہ بڑی مشکل سے اپنے گھرتک پہنچا۔

’’کیاہوا؟‘‘ اُس نے اپنے گھر کے باہرکھڑی بھیڑ سے پوچھا۔

 ’’تمہارے ابّا کی اچانک طبیعت زیادہ خراب ہوگئی۔ ‘‘بھیڑ میں سے ایک عورت نے کہا۔

جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا۔ اس کی امّی روتی ہوئی اُس سے لپٹ گئی۔

’’ارشد………تمہارے ابّا!’’وہ اپنی امّی کو سنبھالتے ہوئے تیزتیزقدموں سے اپنے ابّا کے کمرے کی طرف بڑھا۔ اُس کے ابّاکمرے میں ایک طرف چارپائی پرپڑے تھے۔ اُن کے پاس ہی ایک چھوٹے سے ٹیبل پر دوائیوں کی بہت سی شیشیاں پڑی تھیں۔ پاس ہی گھرکادوسرا سامان پڑاتھا۔ اُس کے ابّا اُس وقت دل پر ہاتھ رکھے ہوئے مونہہ میں کچھ بڑ بڑا رہے تھے۔

’’انور……آٹولاؤ‘‘ارشد نے اپنے پاس ہی کھڑے ایک لڑکے سے کہا۔ کچھ ہی دیربعد آٹورکشابھی آگئی۔ ارشد اوراُس کی امّی اُس کے ابّاکو پکڑکر آٹومیں بیٹھ گئے۔

 ’’الشفا اسپتال چلو‘‘ اُس نے ڈرائیور سے کہا۔

وہ اِس سے پہلے سرکاری اسپتال کے دھکّے کھاچکاتھا۔ بے شک پرائیویٹ اسپتال کاخرچہ زیادہ ہوتاہے۔ مگرہرسہولت دستیاب ہوتی ہے۔ اب وہ اسپتال پہنچ چکے تھے۔ اُس کی امّی ایمرجنسی روم کے سامنے بینچ پر بیٹھی تھی۔ اور ارشد بے چینی سے ٹہل رہاتھا۔ کچھ ہی منٹوں کے بعد ڈاکٹرباہرآیا۔

’’ڈاکٹرصاحب‘‘یہ کہہ کر ارشدڈاکٹرکی طرف بڑھا۔

’’گھبرانے کی ضرورت نہیں ………ہاں ………ہارٹ پرابلم ہے۔ چھوٹا سا آپریشن کرناپڑے گا۔ چل توایسے بھی جائے گا۔ مگر اس سے مریض کی جان کو خطرہ رہے گا۔ اگر آپ آپریشن کرواناچاہتے ہیں۔ توکل گیارہ بجے سے پہلے آٹھ ہزار روپے جمع کروادیں۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے ڈاکٹرچلاگیا۔

رات کے تقریباً بارہ بج رہے تھے۔ ارشد کی امّی بے چینی سے اسپتال میں اُس کا انتظار کررہی تھیں۔ اُس کو آتے ہوئے دیکھ کر وہ اُس کی طرف بڑھی۔

’’بیٹا……کوئی انتظام ہوا۔ ‘‘اُس نے نفی میں سرہلادیا۔ اورنڈھال ساہوکربینچ پر بیٹھ گیا۔ وہ اپنے سبھی رشتے داروں، دوستوں کے پاس گیا۔ مگر کسی نے اس کی مددنہ کی۔ اُس کی امّی بیٹھی زاروقطار روئے جارہی تھی۔

’’رومت……امّی……خداپربھروسہ رکھ۔ گیارہ بجے سے پہلے انتظام ہوجائے گا۔ ‘‘ارشدنے اپنی امّی کی ڈھارس بندھائی۔

اگلے دن صبح کے تقریباً نوبجے ہوں گے۔ ارشد کے قدم شاہین پبلیشر کی سمت بڑھ رہے تھے۔

تبصرے بند ہیں۔