’’خوشیوں کا باغ‘‘ – آفاقی سچائیوں کا علامتی اظہار

پروفیسر صغیر افراہیم

          انور سجّاد نے ’’خوشیوں کا باغ‘‘ ناول کا مواد اپنے گرد و پیش کی زندگی اور پاکستان کی سیاسی اُتھل پُتھل کے ایک حشر ساماں دور سے اخذ کیا ہے۔ تاریخ اس ناول کو ایک عقبی پردہ مُہیّا کرتی ہے اور بظاہر سامنے کے واقعات اسے ایک بنیاد مُہیّا کرتے ہیں لیکن یہ ناول ان آفاقی سچائیوں کا اظہار بھی ہے جو معاشرے سے غائب ہو رہی ہیں اور پورا معاشرہ ایک گہرے انتشار کی زد پر ہے۔ انور سجاد نے اپنے اس مختصر سے ناول کا آغاز 1978ء میں کیا اور اگلے سال اس جملے کے ساتھ مکمل کیا کہ:

’’میں خواب میں جاگتا ہوں یا جاگتے میں خواب دیکھتا ہوں، میری سمجھ میں نہیں آتا۔ ‘‘

 ناول کا مصنّف پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر ہے اس لیے زمینی سچائیوں کی پوری کیس ہسٹری تیا ر کرتا ہے اور طبی علاج کے بجائے تخلیقی سطح پر ایک طرح کا نظریاتی یا روحانی علاج تجویز کرتا ہے۔ وہ مصوّر اور ٹی وی آرٹسٹ بھی ہے اس لیے ہالینڈ کے مشہور مصوّر ہائر انیمس بوش (Hieronymus Bosch) کے ایک شاہکار کو جو تین پینلز پر مشتمل ہے، سر ریلسٹک امیجز (Surrealistic Images) کے توسط سے پیش کرتا ہے۔ ناول کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے:

’’بوش کی خوشیوں کے باغ کا ہر پینل ایک دنیا ہے اور تیسرا پینل، تیسری دنیا۔ ‘‘

          ادب کے ہر تربیت یافتہ قاری کے شعور میں کچھ اصطلاحیں پیوست ہو جاتی ہیں۔ انہی اصلاحوں کے توسط سے وہ کسی فن پارے کا تجزیہ کرتا ہے۔ بوش کے تصویری سلسلے کے تیسرے پینل کی مدد سے وہ اس تیسری دنیا کو دیکھتا ہے جہاں ظلم و ستم اور مذہب کا استعمال معاشرتی نا انصافی اور جمہوری روایات کے قتل کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اس کے خیال میں یہ ناول فکشن کے تمام لوازمات کے ساتھ تجریدی آرٹ کے کئی عناصر سے بھی مدد لیتا ہے اور ان کے تعاون سے قاری کو زمینی حقائق سے واقف کراتا ہے۔ اگر چہ تجریدی ناول لکھنا اور پھر بیان کی دلچسپی کو برقرار رکھنا آسان نہیں ہے لیکن انور سجاد نے یہاں ایک کامیاب تجربہ کیا ہے۔

          ’’خوشیوں کا باغ‘‘ کو آج کے سیاسی منظر نامے میں دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے جمہوری اور نیم جمہوری ملکوں اور ان کے عوام کا مُقدّر چند بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ترقی یافتہ طاقتیں، ترقی پذیر ممالک کو معاشرتی اور اقتصادی طور پر کچلنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہیں۔ پروفیسر شمیم حنفی اپنے مضمون ’’انور سجاد: انہدام سے تعمیر تک‘‘ میں اس کو اپنے عہد کی جمالیات کے ایک نئے مظہر، رائج الوقت اظہاراتی اسالیب کے لیے ایک چیلنج اور ایک نئے تخلیقی سوالنامے سے تعبیر کرتے ہیں :

’’انور سجاد کا رویہ، اس کہانی کی تخلیق سے وابستہ تمام سطحوں پر کیا فکری اور جذباتی اور کیا تخلیقی اور لسانی، ایک ایسے آرٹسٹ کا رویہ ہے جس نے اظہار کی جانی پہچانی، برسوں پُرانی شرائط کو بالائے طاق رکھ کر اپنے قاری کو ایک نئے فنّی استفہام سے دو چار کیا ہے۔ یہ مشینی کلچر کے ساتھ فروغ پانے والی تہذیبی قدروں کے ملبے سے رینگ کر نکلتی ہوئی ایک نئی جمالیاتی قدر کے ظہور کا علامیہ ہے۔ منتشر، پراگندہ، بد ہیئت اور اس کا مجموعی ماحول تشدد، اشتعال اور دہشت سے لبریز ہے۔ موسیقی، تجربے کی ایک سطح پر خود موسیقی کی نفی کیوں کر بن جاتی ہے اور تخلیقی تجزیے نیز اظہار کا منزہ، شفاف، ترشاترشایا اور خوف زدگی کی حد تک محتاط آئینہ خانہ ایک لمبی چیخ کا استعارہ کس طرح بنتا ہے، اسے ہم ’’خوشیوں کا باغ‘‘کے تیسرے پینل پر بآسانی دیکھ سکتے ہیں۔ انور سجاد نے اس پینل کے نقش و نگار کا سلسلہ اس نقطے سے شروع کیا ہے جہاں ’’خوشیوں کے باغ‘‘ کی سرحدیں ختم ہوتی ہیں اور ایک نئی سچّائی کا بابِ حیرت کُھلتاہے۔ ‘‘     (ص:۱۵۲)

یہ بابِ حیرت انبساط کا نہیں حیرت اور استعجاب کا ہے جس کو پوری طرح سے انور سجاد نے اپنی گرفت میں لیا ہے اور اُس کی تشکیل میں علامت، استعارے اور تجرید سے بڑی مدد لی ہے۔ ناول نگار کا یہ اپنا مخصوص انداز بھی ہے کہ اس نے اپنے شعور کی جدّت طرازی کے باوجود، رسمی جدیدیت کے تصوّر سے اختلاف کیا ہے۔ اس کا ثبوت ان کی منتخب کہانیوں کے اس مجموعے سے بھی ملتا ہے جو ۲۰۰۳ء میں سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور سے شائع ہوا۔ اس کا آغاز انھوں نے حضرت بہاء الدین نقش بندی کے اس قول سے کیا تھا:

’’… وہ لوگ جنھیں ایک خاص نوعیت کا ادراک چاہیے یا اس ادراک کا ایک جزو ہی چاہیے، وہ علامت یا استعارے کے بغیر شمّہ برابر بھی سمجھ نہیں پاتے۔ ان سے سیدھا، صاف، بلا واسطہ کچھ کہہ دیجئے تو وہ سچائی کے ادراک کے سامنے خودرُکاوٹ بن جاتے ہیں۔ ‘‘

روایت سے انحراف اور بات کو بامعنی مگر مختصر کہنے کی عادت نے اُن کے اسلوب کو بے حد مشکل بنا دیا ہے۔ اسی لیے قاری کو ہر پل چوکنّا رہنا پڑتا ہے۔ ایک سو آٹھ صفحے کے اس ناول کی پوری کہانی واحد متکلم کے صیغے میں بیان ہوئی ہے اور آخر تک پہنچتے پہنچتے ’وہ‘ اور ’میں ‘ یعنی واحد غائب اور متکلم ایک ہو جاتے ہیں گویا یہ دونوں دو شخص نہیں بلکہ ایک ہی شخصیت کے دو پہلو ہیں۔ ’’میں ‘‘ چیف اکاؤنٹنٹ ہے اور ہر اعتبار سے ایک آسودہ خاندان کی زندگی گزارتا ہے لیکن اُس کی حساس طبیعت گرد وپیش کے خارجی واقعات کے ساتھ ساتھ اپنی اندرونی کشمکش، کشیدگی اور تناؤ کے اثرات بھی قبول کرتی ہے، شاید اس وجہ سے بھی کہ اس کی روح لالچ، ہوس اور دولت کے ماحول سے بیزار ہو چکی ہے۔ یہ بے اطمینانی کہیں نہ کہیں اس کے دل میں ایک کھٹک بن کر اُسے بے آرام رکھتی ہے اور اُسے اپنے آپ کو دیکھنے اور اپنا احتساب کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس ذہنی دباؤ کی وجہ سے ناول کایہ مرکزی کردار انکم ٹیکس کے گوشواروں میں غلطی کرتا ہے۔ اس پر غبن کا الزام لگتا ہے۔ سزا ہوتی ہے اور وہ اپنے عُہدے سے معزول کر دیا جاتا ہے۔ ملازمت سے برطرفی کے بعد ’’میں ‘‘گھٹن اور ذات کی بیگانگی سے بھی نجات حاصل کرتے ہوئے اپنے آپ کو ہلکا پھُلکا محسوس کرتا ہے اور نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کرتا ہے۔ اب اس کی یہ زندگی وجودی وابستگی کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔

          روایتی ترقی پسند ناول یا اُس سے پہلے کے ناولوں کے برعکس ’’خوشیوں کا باغ‘‘ زماں اور مکاں دونوں کے تعیّن سے گُریز کرتا ہے، بالکل اسی طرح جیسا کہ کافکا ؔکے ناول The Castleمیں جو واقعات رونما ہوتے ہیں اُن کا کوئی تاریخی محل و قوع اور زمانہ متعین نہیں ہوتا۔ ’’خوشیوں کا باغ‘‘ میں روایتی ناولوں کے برعکس ایک عورت مارکسی دانش ور کی حیثیت سے آتی اور ناول کے ’میں ‘ کی محبوبہ کابھی رول ادا کرتی ہے۔ یہ عورت صرف زبانی طور پر مارکسی ہے، عمل اس کا مختلف ہے۔ انور سجاّدنے اس نام نہاد دانش ور عورت کے بارے میں جو کچھ لکھا اُس میں طنزیہ اندازنمایاں ہے۔ اس عورت کے مقابلے میں ’’میں ‘‘ کی بیوی زیادہ مثبت کردار ادا کرتی ہے اور وہ’’میں ‘‘ کے اچھے بُرے دونوں حالات میں اُس کا ساتھ دیتی ہے۔ ان کرداروں کے توسط سے ناول نگار نہایت معنی خیز اشاروں کے ذریعے قاری کو سماج کے معلوم اور نا معلوم دوستوں اور دشمنوں سے ہوشیار کرتا ہے وہ اسے بتاتا ہے کہ افسر شاہی طبقہ انقلاب اور سماجی تبدیلی کی پُرکشش اصلاحات کی آڑ میں اپنے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے جس کی وجہ سے پورا معاشرہ عد م مساوات اور بے راہ روی کا شکار ہے۔ اس غیر انسانی اور غیر جمہوری معاشرے میں باضمیر افراد مسلسل تناؤ کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ محض کسی ایک فرد، قوم یا ملک کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ تیسری دنیا اس کی تجربہ گاہ بنی ہوئی ہے۔ خوبی کی بات یہ ہے کہ انور سجاد نے اس پُرآشوب ماحول میں بھی ایک مثبت رویے کی تعمیر کی ہے بلکہ حق و انصاف کے لیے باب العلم، حضرت علیؓ کے حوالے سے، حُریت پسندوں کی طرف سے تیسری دنیا کے استحصال اور جبر و تشدّد کے خلاف عندیہ دیا ہے:

’’… خوش نصیب وہ ہوں گے جنھوں نے حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد بھی ادا کیے۔ وہ ربّ المشرقین و  المغربین تو اپنے حقوق پر تمہارے حقوق کو مقدم جانتا ہے کہ تم میں سے جو اُس کے محبوب پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) سے عشق کرتا ہے وہ اس رحمت العالمینؐ کے مشن کو اپنا ضمیر بھی بناتا ہے۔ نواسۂ رسولؐ کی پیروی میں اس مشن کی خاطر جان تک کی پروا نہیں کرتا۔ باطل سے ٹکرا جاتا ہے، سمجھوتہ نہیں کرتا، اور وہ مشن کیا ہے؟ مساوات، عدل و انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام۔ انسان کے ظلم سے انسان کی نجات…۔ ‘‘

                                                                              (ص:54)

          ’’خوشیوں کا باغ‘‘ میں تجریدی سطح کو مستحکم کرنے کے متعدد طریقے اپنائے گئے ہیں۔ مثلاً ہر کردار نام سے عاری ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال اس ناول میں تجریدی عمل کے طریقے کو واضح کر دیتی ہے۔ صفحہ نمبر چھیانوے سے شروع ہونے والا ڈھائی صفحہ کا ایک خط پورے طور پر نقل کر دیا گیا ہے لیکن تاریخ اور مقام خط میں ظاہر نہیں کیے گئے بلکہ نیچے لکھنے والے کے نام کو بھی حذف کردیاگیا ہے۔ بس یہ ظاہر ہوا ہے کہ ایک بھانجی اپنے ماموں کو خط لکھ رہی ہے۔ خطوں کی تکنیک استعمال کرنے والے بیانیے میں تاریخ، مقام، کاتب اور مکتوب الیہ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس میں نکتہ یہ ہے کہ اس طرح بیانیہ وقت اور مقام کی قید سے بلند ہوکر اس انسانی صورتِ حال کی ترجمانی کر سکتا ہے جو کم و بیش ہر حال میں قائم رہتی ہے۔

          ابواب کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو اس پورے ناول میں کہیں سیاست داں کی تقریر ہے، کہیں وعظ ہے، کہیں مداری کا تماشہ ہے، کہیں خط ہے، کہیں کردار کی سوچ ہے لیکن ان تمام ٹکڑوں کو منطقی ربط دینے کی کوشش نہیں کی گئی ہے بلکہ مونتاژ کی صورت میں انھیں یکجا کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے چھوٹی چھوٹی تصویروں سے مل کر صورتِ حال کی ایک بڑی تصویر سامنے آجاتی ہے۔

          جدید بیانیے کے لیے ایک خیال یہ سامنے آیا ہے کہ اس میں زبان کی سطح پر فکشن اور شاعری کی حدیں ٹوٹ گئی ہیں۔ زبان کے تخلیقی اور شاعرانہ استعمال کی بہت اچھی اور کامیاب مثالیں انور سجّاد کے کچھ افسانوں میں تو ملتی ہیں لیکن ناول ’’خوشیوں کا باغ‘‘ اس کی بہترین اور کامیاب مثال ہے۔ اس میں جہاں زبان کی جدّت اور نُدرت کا احساس قدم قدم پر ہوتا ہے وہیں لفظوں کی حُرمت کے ختم ہونے کا بھی پتہ چلتا ہے۔ ایک اقتباس دیکھیے:

’’میں لفظوں کی قوت دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ میں کہنا چاہتا ہوں پھول … پتے … شبنم… میں کہنا چاہتا ہوں … طوفان …میں کہنا چاہتا ہوں … شبنم … سمندر… طوفان… میں بارش میں بھیگ جانا چاہتا ہوں، میں لفظوں کو بادلوں کی گرج میں ڈھالنا چاہتا ہوں …۔ ‘‘

لفظوں کی حُرمت کا ختم ہوجانا بشریت کے اخراج (Dehumanisation) سے عبارت ہے۔ شاعرانہ زبان کی شدّت سے مملو وہ حصّہ ہے جو ناول کے آخر میں آتا ہے اور عثمان ہارونی کی مشہور غزل ’’سرِ بازار می رقصم—-من برداری می رقصم‘‘  ۱؎  کو اپنی نثرمیں پرو دیتا ہے۔ یہ نثر پارہ اردو ناول میں تخلیقی زبان کا ایک یاد گار نمونہ ہے۔ انور سجاد کے سیاسی عقائد اور اُن کے وجودی سروکار کو جس میں وابستگی (Commitment)کے عنصر کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، یہ ناول بہت خوبی کے ساتھ منعکس کرتا ہے۔ اردو فکشن کی روایت میں ’’خوشیوں کا باغ‘‘ کا ایک اہم امتیاز یہ بھی ہے کہ اس نے سیاسی ناول کو ایک نئی تخلیقی جہت سے ہم کنار کیا ہے۔ بہت سے جدید لکھنے والے سیاسی سروکار کو شجرِ ممنوعہ کی طرح دیکھتے تھے۔ انور سجاد نے نہ صرف یہ کہ اس رویے سے انحراف کیا ہے، بلکہ ’’خوشیوں کا باغ‘‘ کو انھوں نے ایکFuturistیا مستقبلیت کے زاویے کا ترجمان بھی بنا دیا ہے۔ اردو میں متعدد تجرباتی ناول لکھے گئے ہیں۔ ان میں سب سے قابلِ قدر مثال تو ’’آگ کا دریا‘‘ کی ہے لیکن ’’آگ کا دریا‘‘ کے بعد انور غالبؔ کے ناولوں کو بھی (خصوصاً ندی) عام ڈھرّے سے ہٹے ہوئے جدید تر ناولوں کی روایت میں ایک امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ ’’خوشیوں کا باغ‘‘ کا سب سے بڑا اور نمایاں وصف یہ ہے کہ اس ناول نے حقیقت پسندی کے تصور کو ایک نئی جہت دی ہے اور وابستگی کے فکشن (Fiction of Commitment) کو لکھنے والے کی فنکارانہ ہُنر مندی کے واسطے سے اس غیر معمولی تخلیقی سطح تک پہنچا دیا ہے جس کا ظہار انور سجّاد نے اپنی معروف کہانی ’’کونپل‘‘ میں کیاتھا اور جسے ہم ان کا ’’شناس نامہ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اسی طرح انھوں نے اپنے دوسرے تجرباتی ناول ’’جنم روپ‘‘(۱۹۸۵ء) میں مصوّری کے بجائے موسیقی سے استفادہ کیا لیکن ان کایہ تجربہ بہت کامیاب نہ ہو سکا۔ ’’خوشیوں کا باغ‘‘کو ناول کی نئی روایت میں ایک مستقل حیثیت دی جاتی ہے۔ ’’جنم روپ‘‘ کے حصّے میں یہ امتیاز نہیں آ سکا۔

OOO

حوالہ:

  ۱؎  :

تو ہر دم می سرائی نغمہ و ہربارمی رقصم

بہر طرزی کہ می رقصانیم اے یار می رقصم

بیا جاناں تماشا کن کہ درانبوہِ جاں بازاں

بصد سامان رسوائی سربازار می رقصم

اگر چہ قطرۂ شبنم نہ پوید بر سرخارے

منم آں قطرۂ شبنم بہ نوک خار می رقصم

تو آں قاتل کہ ازبہر تماشا خون من ریزی

من آں بسمل کہ زیر خنجرِ خوں خارمی رقصم

منم عثمان ہارونی کہ یار شیخ منصورم

ملامت می کند خلقے ومن برداری می رقصم

تبصرے بند ہیں۔