زلزلے کا پیغام

مولانا عبدالبر اثری فلاحی

’’اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا۔ وَ اَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَھَا۔ وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَا لَھَا۔ یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَھَا بِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَھَا۔ یَوْمَئِذٍ یَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتاً لِّیُرَوْا اَعْمَالَھُمْ۔ فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ‘‘۔ (سورۃ الزلزال:۱-۸)

ترجمہ:’’جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا ڈالی جائے گی، اور زمین اپنے اندر کے سارے بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی، اور انسان کہے گا کہ یہ اس کو کیا ہورہا ہے، اُس روز وہ اپنے او پر گزرے ہوئے حالات بیان کرے گی کیونکہ تیرے رب نے اُسے (ایسا کرنے کا ) حکم دیاہوگا۔ اُس روز لوگ متفرق حالت میں پلٹیں گے تاکہ اُن کے اعمال اُن کو دکھا ئے جائیں۔ پھر جس نے ذرّہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا، اور جس نے ذرّہ برابر بدی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا‘‘۔

زلزلوں کی خبریں نظروں سے گزریں تو فوراً ذہن اس سورہ کی طرف مائل ہوا۔ بار بار سورہ کو پڑھتا رہا تو خیال آیا کہ کیوں نہ اس سورہ کے کچھ بنیادی حقائق سے ٓاگاہی میں اپنے تمام بھائیوں کو شریک کرلوں چنانچہ غور وفکر کے لئے کچھ حقائق پیش خدمت ہیں :

(1)  زلزلہ زمین کے ہلنے کو کہتے ہیں۔ آج کل جو زلزلہ آتا ہے یا جیسا کہ جاپان میں آیا ہے وہاں پوری زمین نہیں ہلی بلکہ صرف زمین کا ایک حصہ ہلا۔ لیکن اس ایک حصے کے بھی ہلنے سے جو تباہی مچی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ پھر جبکہ اصل زلزلہ آئے گا اور پوری کی پوری زمین ہلا ماری جائے گی اس وقت تباہی اور ہولناکی کا کیا عالم ہوگا۔ کیا ہم اور آپ تصور کرسکتے ہیں۔ ہرگز نہیں، اسی وجہ سے کہا گیا کہ جب انسان اس زلزے کو دیکھے گا تو حیران و پریشان رہ جائے گا اور کہے گا اس زمین کو کیا ہوگیا ہے ’’ وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَا لَھَا۔”

(2)  ٹیکنالوجی کے اعتبار سے جاپان دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک سمجھا جاتا ہے۔ لیکن چند سیکنڈکے زلزلے نے جو تباہی مچائی ہے وہ اس کے کنٹرول سے باہر ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اپنی تمام قوت اور ترقی کے باوجود وہ بہت کمزور ہے کہ جب ایک جھٹکا نہیں سہہ سکتا تو اصلی زلزلے کے وقت آنے والے شدید جھٹکوں اور وہ بھی مسلسل جھٹکوں کو کیسے سہہ سکے گا۔ جاپان تو چھوڑئیے دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی نہیں سہار سکیں گی۔

(3)  جب زلزلہ آتا ہے تو زمین کا پورا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ جو کچھ زمین کے اندر ہے وہ باہر آنے لگتا ہے اور جو زمین کی سطح پر ہے وہ زمین کے اندر دھنس جاتاہے۔ اس ٹوٹ پھوٹ سے پورے نظام میں عظیم تبدیلی واقع ہوتی ہے اور اس کے بڑے دور رس اثرات پڑتے ہیں۔ گویا یہ تبدیلیاں انسان کی معمول کی زندگی کے لئے خطرات کی علامات ہیں۔ اسی لئے اس طرح کے مواقع پر تنبہ حاصل کرنے اور رجوع الی اللہ کی تعلیم ہے کیا ہم اور آپ اس کو اس نظر سے دیکھتے ہیں اور ہمیں بھی عبرت پذیرائی کی توفیق ملتی ہے۔ اللہ کی پناہ مانگنے اور اس کی طرف پلٹنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے۔ اگر نہیں تو یہ لمحہ فکریہ ہے؟

(4) چھوٹے چھوٹے زلزلے اصلاً بڑے اور آخری زلزلے کی فہمائش کا ذریعہ ہیں کیونکہ انسان اپنی نظروں سے دنیا کی ہر چیز کو تبدیل ہوتے اور مٹتے ہوئے دیکھتا ہے۔ لیکن زمین کو ہمیشہ اپنی اصلی حالت میں دیکھتا ہے تو یہ سمجھتا ہے کہ یہ ہمیشہ اسی حالت میں رہے گی اور اس کو فنا نہیں ہے۔ لیکن یہ چھوٹے چھوٹے زلزلے اور اس کے اثرات کو دیکھ کر بہر حال وہ یہ ماننے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے کہ میرا خیال درست نہیں ہے اور ایک نہ ایک دن یہ زمین بھی فنا ہو جائے گی۔ کیا قیامت کے منکرین کا اس حقیقت کو سمجھ لینا اور تسلیم کرلینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ہم تو اس طرح کے مواقع سے فائدہ اٹھا کر اس حقیقت کو بڑی آسانی سے سمجھا سکتے ہیں۔ کیا کبھی اس طرف بھی ہمارا ذہن جاتا ہے؟

(5)  زلزلوں کے یہ مواقع نفسا نفسی کی جو تصویر پیش کرتے ہیں کہ ہر ایک کو صرف اپنی فکر ہے ٹی وی پر آپ نے دیکھا ہوگا ہر آدمی مکان چھوڑ کر بھاگتا ہے جسے بڑی محنت سے وہ تعمیر کرتا ہے۔ رشتے ناطوں کی پرواہ نہیں کرتا جن کی خاطر وہ ہمیشہ مرتا رہتا ہے۔ کسی حقیر سے سہارے کو بھی وہ بڑی چیز سمجھتا ہے کیونکہ وہ انتہائی محتاج ہوتا ہے۔ کیا یہ تصویریں اور یہ مناظر آخرت کے دن کی تصویر یں اور مناظر کی عکاس نہیں ؟ کیا سوجھ بوجھ رکھنے والے انسان کیلئے اس میں کوئی عبرت اور پیغام نہیں کہ کل کو اس صورت حال سے دو چار ہونے سے پہلے آج ہی وہ ان سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرے۔ اس سورہ کی آخری آیات ’’فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ‘‘۔ میں کیا اس صورت حال کی منظر کشی نہیں کی گئی ہے۔ ٹی وی پر ان مناظر کو دیکھ کر کبھی ہمارے دلوں میں بھی یہ احساس جاگتا ہے کہ ایک نہ ایک دن ہمیں بھی اس صورت حال سے دوچار ہونا پڑے گا۔ پھر ہم کیا کریں گے۔

تبصرے بند ہیں۔