کامران غنی صباؔ اور ان کا شعری مجموعہ’پیامِ صبا‘

انوار الحسن وسطوی

کامران غنی صباؔ بحیثیت شاعر ، ادیب اور صحافی سرزمین بہار کے لیے کسی تعار ف کے محتاج نہیں ۔ ان کے تعارف کے لیے انھیں نہ دادا، نانا کے حوالے کی ضرورت ہے اور نہ ابو، امی کے حوالے کی۔ کامران غنی اس معاملہ میں بے حد خوش قسمت ہیں کہ ان کی دادیہال اور نانیہال دونوں شروع سے علمی و ادبی گھرانہ رہا ہے۔ صحافت کا سرمایہ جہاں انھیں دادیہالی ورثہ میں ملا ہے وہیں شاعری ان کا نانیہالی ترکہ ہے۔ کامران غنی صباؔ کے والدِ گرامی مشہور صحافی ڈاکٹر ریحان غنی کو کون نہیں جانتا۔ وہ اپنی تحریر کی بے باکی، حق گوئی اور اپنی دو ٹوک صحافت کے لیے پوری ریاست میں جانے اور پہچانے جاتے ہیں ۔ کامران غنی کے دادا محترم سید نعمان غنی دیوروی مشہور مذہبی کالم نویس تھے۔ اسلامیات پر ان کی تین کتابیں منظر عام پر آئیں اور مقبول ہوئیں ۔ سب سے بڑھ کر تو کامران غنی کے پردادا مولانا سید شاہ عثمان غنیؒ کی شخصیت تھی جو ایک متبحّر عالم دین کے ساتھ ساتھ ایک نڈر اور بے باک صحافی اور ایک بڑے مجاہدِ آزادی تھے۔ محض 26 سال کی عمر میں 1924 ء میں وہ امارت شرعیہ کے پہلے ناظم اور امارت شرعیہ کے ترجمان ہفت روزہ ـ’’امارت‘‘ کے مدیر مقرر کیے گئے تھے۔ 1926ء میں برٹش حکومت کے خلاف ہفت روزہ ’’امارت‘‘ میں لکھے اپنے ایک اداریہ کے سبب انگریزی حکومت کے ذریعہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دئیے گئے۔

یہ تذکرہ قبل آ چکا کہ کامران غنی صبا کو شعر و شاعری کا سرمایہ اپنی نانیہال سے ورثے میں ملا ہے۔ موصوف کو اپنے نانا محترم پروفیسر حکیم سید شاہ علیم الدین بلخی ندوی(سجادہ نشیں خانقاہ بلخیہ فردوسیہ، فتوحہ) اور اپنے دو ماموں ڈاکٹر سید مظفر بلخی اور سید نصر الدین بلخی فردوسی جیسے شعرا کی تربیت خاص حاصل رہی، جس کے سبب ان کے شعری و ادبی ذوق کو جلا ملی۔ کامران غنی کی والدہ محترمہ سیدہ سلمیٰ بلخی صاحبہ (اسسٹنٹ ٹیچر جالان ہائی اسکول، پٹنہ) گرچہ شاعرہ تو نہیں ہیں لیکن شعر فہمی کا گہرا ادراک رکھتی ہیں ۔ ایسی ذی علم اور ذی فہم خاتون کی گود میں پرورش پانے والے لڑکے کو یقینا ’’کامران ‘‘ ہونا ہی تھا جو ہو کر رہا۔ کامران غنی کی عمر ان کے تعلیمی اسناد کے مطابق ابھی محض ۲۸ سال ہے۔ اس چھوٹی سی عمر میں موصوف نے جو شہرت اور مقبولیت حاصل کی ہے وہ دیگر نوجوانوں کے لیے یقینا قابلِ رشک ہے۔ آن لائن میڈیا اور ادبی صحافت سے وابستگی کے سبب موصوف نہ صرف برصغیر کے ادبا و شعرا کے درمیان جانے پہچانے جاتے ہیں بلکہ دیگر ممالک کے شائقین اردو شعر و ادب بھی ان کے نام اور کام سے واقف ہیں ۔ کامران غنی صبا کی ادبی صحافت سے دل چسپی کو دیکھتے ہوئے جاپان سے شائع ہونے والے آن لائن اخبار ’’اردو نیٹ جاپان‘‘ کا انھیں مدیر اعزازی بنایا گیا۔ اردو کے مقبول روزنامہ ’پندار‘ پٹنہ کے ادبی ایڈیشن ’گوشۂ ادب‘ کے انچارج ہونے کے ساتھ ساتھ وہ سہ ماہی ’دربھنگہ ٹائمز‘ اور سہ ماہی ’تحقیق‘ دربھنگہ کے معاون مدیر کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ کولکاتہ سے شائع ہونے والے ادبی ماہنامہ ’کائنات ‘ کے چیف ایڈیٹر جناب خورشید اقبال نے جناب صباؔ کی ادبی و صحافتی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے انھیں اپنے رسالہ ’کائنات‘ کا ایسو سی ایٹ ایڈیٹر مقرر کر رکھا ہے۔ کامران غنی صباؔ نے یہ مقام راتوں رات نہیں حاصل کیا ہے۔ اس مقام پر پہنچنے میں ان کی مشقت کا بڑا عمل دخل ہے۔ کسی شاعر نے صحیح کہا ہے :

نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا

سو بار جب عقیق کٹا تب نگیں ہوا

کامران غنی کو شعر و شاعری کا ذوق ہائی اسکول کی تعلیم کے زمانہ میں ہی شروع ہوا اور کالج کی تعلیم کا زمانہ آتے آتے وہ پورے اعتماد اور صحت کے ساتھ اشعار موضوع کرنے لگے۔ جلد ہی ان کی نظمیں اور غزلیں ملک و بیرون ملک کے مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہونے لگیں ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جس زمانہ میں موصوف جواہر لال نہرو یونیورسٹی، دہلی میں ایم اے کے طالب علم تھے تو ان کی ایک غزل میں نے ماہنامہ ’’آجکل‘‘ دہلی میں پڑھی تھی۔ اس غزل کو دیکھ کر میں نے یہ اندازہ لگالیا تھا کہ اگر موصوف کا شعری ذوق برقرار رہا تو ایک دن وہ دنیائے شاعری میں اپنی شناخت بنانے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ میرا یہ قیاس صحیح ثابت ہوا، اس کی مجھے بے حد خوشی ہے۔ میں اس یادگار اور تاریخی واقعہ کا بھی عینی شاہد ہوں جب کامران غنی صبا نے ۲۰۱۳؁ء میں بہار اردو اکادمی کے مشاعرہ میں پہلی دفعہ اپنی غزل سنائی تھی۔ انھیں اس موقع پر بے حد داد و تحسین سے نوازا گیا تھا۔ کسی مشاعرہ میں اپنی غزل سنانے کا گرچہ ان کے لیے یہ پہلا موقع تھا لیکن اس موقع سے ان کا اعتماد قابلِ دید تھا۔ انھوں نے جس خوش الحانی اور ترنم سے اپنا کلام سنایا، اس منظر کو دیکھ کر بے ساختہ ذہن میں یہ شعر آ گیا   ؎

اس غیرتِ ناہید کی ہر تان ہے دیپک

شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو

  کامران غنی صباؔ نے قلیل مدت میں ہی اپنا اتنا شعری سرمایہ اکٹھا کر لیا کہ اردو دنیا کو ’’پیامِ صبا‘‘ کا تحفہ دینے کے لائق ہو گئے۔ میں اس تاریخی لمحے کا بھی گواہ ہوں جب حکومت بہار کے اردو ڈائرکٹوریٹ کے زیر اہتمام 25 مارچ 2017 کو منعقدہ تقریب ’’جشنِ بہار‘‘ کے موقع پر مسٹر کامران غنی صباؔ اپنے شعری مجموعہ ’’پیام صبا‘‘ کی اشاعت کے لیے وزیر اعلیٰ بہار مسٹر نتیش کمار کے ہاتھوں کرشن میموریل ہال پٹنہ میں بیس ہزار روپے کے چیک سے نوازے گئے تھے۔ تقریب میں موجود ہزاروں شائقین اردو شعرو ادب نے اس موقع پر اپنی تالیوں کی زبردست گڑگڑاہٹ کے ذریعہ اپنے اس جواں سال شاعر کا استقبال کیا تھا۔

 ’’پیامِ صبا‘‘ کامران غنی صباؔ کا پہلا شعری مجموعہ ہے جو المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ ، دربھنگہ کے زیر اہتمام گزشتہ دنوں شائع ہو کر منظر عام پر آیا ہے۔ پیش نظر کتاب میں حمد، نعت،منقبت کے علاوہ بیس نظمیں اور اٹھائیس غزلیں شامل ہیں ۔ نظموں کے حصے میں زیادہ تر آزاد نظمیں ہیں ، چند معریٰ نظمیں بھی ہیں ۔ کامران غنی کی شعری تخلیقات سے قبل کتاب میں ان کی شخصیت اور شاعری کے تعلق سے اردو شعرو ادب کی دس شخصیات کے خیالات کو جگہ دی گئی ہے۔ ان میں ڈاکٹر اقبال واجد(گیا)، ڈاکٹر عبد الرافع (نئی دہلی)، ڈاکٹر منصور خوشتر(دربھنگہ)، نسترن احسن فتیحی(علی گڑھ)، ڈاکٹر احسان عالم(دربھنگہ)، سیدہ تسکین(کراچی)، حسیب اعجاز عاشر(دبئی) سیدہ زہرہ عمران(لاہور) اور سلمان فیصل (نئی دہلی) کے ساتھ ساتھ راقم السطور کی بھی ایک مختصر تحریر شامل ہے۔ صرف ایک تحریر کو چھوڑ کر ساری تحریریں صباؔ کی ایک نظم ’مجھے آزاد ہونا ہے‘ سے متاثر ہو کر لکھی ہوئی ہیں ۔ اس نظم میں ایسی کشش اور جاذبیت ہے کہ پہلی قرأت میں ہی قاری کو متاثر کرتی ہے اور اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ زبان و بیان کی پختگی اور فکر کی بلندی سے مملو اس نظم کو میں اعلیٰ درجہ کی تخلیق تسلیم کرتا ہوں ۔ ڈاکٹر منصور خوشتر(مدیر دربھنگہ ٹائمز) نے اپنی تحریر میں اس نظم کی قرأت کے بعد اپنی کیفیت کا اظہار ان الفا ظ میں کیا ہے:

’’نظم کی پہلی قرأت نے ہی مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ نظم گرچہ خود کلامی کے انداز میں لکھی گئی ہے لیکن نظم کی قرأت کیجیے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے قاری کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگا دیا ہے۔ نظم سوالیہ انداز میں شروع ہوتی ہے (کہاں تک بھاگ پائو گے) اور ’’مجھے آزاد ہونا ہے ‘‘ کے عزم پر ختم ہو جاتی ہے۔ نظم کی مکمل قرأت کے بعد قاری کے ذہن میں پے در پے کئی سوالات جنم لینے شروع ہو جاتے ہیں ۔‘‘(پیام صبا، صفحہ۲۷)

 اپنی اس نظم کی تخلیق کے تعلق سے کامران غنی صباؔ اپنے ’حرفِ آغاز‘ میں خود رقمطراز ہیں :

’’گزشتہ سال نہ جانے کس کیفیت کے زیر اثر میں نے ایک نظم کہی تھی جس کا عنوان تھا ’’مجھے آزاد ہونا ہے۔‘‘اس نظم کو توقع سے کہیں زیادہ پسند کیا گیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس نظم کی تخلیق کے بعد میں خود بھی گوشۂ عافیت میں چلا گیا تھا۔ میں نے فیس بک، واٹس ایپ وغیرہ سے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی تھی لیکن سوئے اتفاق کہ جس نظم کی تخلیق کے بعد میں نے گوشۂ تنہائی اختیار کرنا چاہا وہی نظم مجھے پھر سے ’انجمن ‘ میں لے آئی۔‘‘(پیام صبا۔ صفحہ۱۱)

  ’’پیام صبا‘‘ میں مضامین کے بعد کلامِ صباؔ کی کہکشاں سجی ہوئی ہے، جس کی شروعات ایک خوب صورت حمد سے ہوئی ہے۔ یہ حمد ’’التجا‘‘ کے عنوان سے ہے۔ شاعر نے اپنی اس حمد میں اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے باری تعالیٰ سے معافی کی درخواست کی ہے۔ اس حمد کے مطالعہ سے جواں سال شاعر کامران غنی صباؔ کے ایمان کی پختگی اور ان کے عقیدۂ توحید کی عکاسی ہوتی ہے۔ شاعر کے اس وصف کا اندازہ ہمیں ان کے ’’انتساب‘‘ کے کلمات سے بھی ہوتا ہے جس میں انھوں نے خدائے بزرگ و برتر کا شکریہ ان الفاظ میں ادا کیا ہے:

خدائے برتر کے نام جس نے

ذہن کو فکرِ رسا عطا کی

قلم کو جس نے وقار بخشا

کلام کو اعتبار بخشا

حمد کے بعد اس شعری مجموعہ میں چار نعتیں ہیں ۔ نعت نبیؐ لکھنا جہاں سعادت کی بات ہے وہیں تلوار کی دھار پر قدم رکھنے کے مترادف بھی ہے۔ نعت کہنے میں تھوڑی سی چوک سے ایمان کے برباد ہو جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ جو لوگ توحید اور رسالت کے مرتبہ کی سمجھ سے نابلد ہوتے ہیں ، ان کی نعت گوئی ثواب کے بجائے عذاب کا ذریعہ بن جاتی ہے۔کامران غنی صباؔ کو اللہ نے نعت گوئی کی دولت سے سرفراز کیا ، اس کے لیے وہ اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکریہ ادا کریں کم ہے۔ کامران غنی کی نعتوں کے مطالعہ

سے جہاں ان کے جذبۂ عشقِ رسولؐ کا اندازہ ہوتا ہے وہیں ان کے راسخ العقیدہ ہونے کا بھی ثبوت ملتا ہے۔ کامران غنی نے اپنی کم عمری میں عشق رسولؐ کے تعلق سے اتنا عمدہ اور اعلیٰ شعر کہہ دیا ہے، جس کا جواب نہیں   ؎

مری زندگی کا ہر اک عمل شہ انبیا کا ہو آئینہ

نہ ہو اتباعِ نبیؐ اگر تو عبث ہے دعویٔ عاشقی

 ’’پیام صبا‘‘ میں شامل نظموں کی فہرست میں ’’مجھے آزاد ہونا ہے‘‘(جس کا ذکر قبل کیا جا چکا) کی طرح ’’فنا آغوش‘‘ بھی بہت عمدہ اور اعلیٰ نظم ہے جس میں شاعر نے موت کی حقیقت کو اپنے مخصوص انداز میں پیش کیا ہے۔ نظم کا پہلا بند یوں ہے   ؎

فنا ایسی حقیقت ہے

نہیں کچھ اختلاف اس میں

نہ مذہب کا، نہ دھرتی کا

نہ گورے کا، نہ کالے کا

نہ کمزور اور جیالے کا

مگر کیا اس حقیقت سے پرے بھی کچھ حقیقت ہے؟

 آزاد نظم ہونے کے باوجود اس میں بے حد روانی ہے۔ پوری نظم شروع سے اخیر تک مربوط اور مسلسل ہے۔ مصرعوں کی ترتیب اور بندشوں کے در و بست سے شاعر کی پختگی کا اندازہ لگتا ہے۔

  ’’فنا آغوش‘‘ کے علاوہ شعری مجموعہ کی جو نظمیں قاری کو متاثر کرتی ہیں ان میں ’’امی کے نام‘‘،’’مرا وجود‘‘،’’جنت کے پھول‘‘،’’محبت اک عبادت ہے‘‘،’’ عید کا چاند‘‘،’’ ایک باپ کی بیٹے کو نصیحت‘‘ اور ’’شاعرو! صوفیو! عقل والو! اٹھو‘‘ قابل ذکر ہیں ۔

  پیش نظر مجموعے میں کل ۲۸ غزلیں شامل ہیں ۔ ان غزلوں کے مطالعہ سے شاعر کے زبان و بیان کی بے ساختگی اور بلند خیالی کے ساتھ ساتھ ان کی گہری بصیرت، بالغ نظری، ان کے تجربات و مشاہدات اور محسوسات کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ شاعر گرچہ ابھی جواں سال ہے لیکن ان کی غزلوں کو پڑھ کر کلاسکی دور کی شاعری کا گمان ہوتا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں   ؎

درد ہے، غم ہے، مصیبت ہے، جفائیں ہیں صباؔ

اور کیا چاہیے اس دل کو بہلنے کے لیے

۔۔۔۔۔

ہاں یہ منظور ہے نیزے پہ سجا دو لیکن

سر جھکے گا نہیں باطل کی حمایت کیسی

۔۔۔۔۔

تم چاہو جسے قتل کرو حق ہے تمہارا

آئے گا مرے سر پہ ہی الزام مری جاں

۔۔۔۔۔

کبھی تو ہوگا گزر کوچۂ وفا سے صباؔ

سجائے رکھا ہے اُن کے لیے دریچۂ غم

۔۔۔۔۔

بس اتنی ضد تھی مصلیٰ بچھا کے پینا ہے

پلٹ کے میری انا میکدے سے آئی ہے

۔۔۔۔۔

میں اپنی آنکھوں کو رکھتا ہوں باوضو ہردم

کہ تیرا ذکر مقدس کتاب کی مانند

۔۔۔۔۔

قاتل بھی ہم کو دیکھ کے حیران رہ گیا

مقتل میں سر کے بل گئے اور بے خطر گئے

۔۔۔۔۔

غمِ الفت، شبِ فرقت، نگاہِ یاس اور حسرت

صباؔ تیری رفاقت میں بجز غم کیا ملا مجھ کو

۔۔۔۔۔

تم رات گئے کس کو پکارو ہو سرِ راہ

دن میں بھی یہاں کوئی مسیحا نہیں آتا

 کامران غنی صباؔ بلاشبہ ایک کامیاب شاعر ہیں۔ ان کی نظمیں ہوں یا غزلیں قاری کو متاثر کرتی ہیں۔ ان کا کلام دیکھ کر انھیں کوئی نومشق اور نووارد نہیں کہہ سکتا۔ ان کی شاعری میں زبان و بیان کی پختگی اور فکر کی جو بلندی ہے وہ انھیں اپنے ہم عمر شعرا کی صف میں ممتاز کرتی ہے۔ آثار و قرائن بتاتے ہیں کہ وہ بہت جلد عصر حاضر کے معروف شعرا ء کی صف میں شمار کیے جائیں گے بلکہ شاعر ساز شخصیت کے طور پر بھی اپنی حیثیت مسلّم کرانے میں کامیاب ہوں گے۔ ان کے پہلے شعری مجموعہ ’’ پیام صبا‘‘ کی اشاعت پر میں انھیں مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ان کے روشن مستقبل کے لیے دعا گو ہوں ۔

تبصرے بند ہیں۔