کام یاب کون؟

ہرشخص کے دل میں فطری خواہش پائی جاتی ہے کہ وہ ایک کام یاب انسان کی حیثیت سے زندگی گزارے۔

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

جموں و کشمیر کے کچھ نوجوان ‘البیان’ کے نام سے ایک آن لائن پروگرام چلاتے ہیں، جس میں درسِ قرآن، درسِ حدیث اور دینی موضوعات پر تقریریں ہوتی ہیں۔ اس میں مرد حضرات اور خواتین دونوں شریک ہوتے ہیں۔ آج انھوں نے خواہش کی کہ میں بعد نمازِ فجر آن لائن منعقد ہونے والے اس پروگرام میں ‘کام یابی کا قرآنی تصور’ کے عنوان پر ان کے سامنے کچھ باتیں رکھوں۔ میری گفتگو کے نکات درج ذیل تھے :

* ہرشخص کے دل میں فطری خواہش پائی جاتی ہے کہ وہ ایک کام یاب انسان کی حیثیت سے زندگی گزارے۔

* مختلف انسانوں نے کام یابی کے الگ الگ معیارات اور پیمانے بنا رکھے ہیں۔ وہ مال ودولت کی فراوانی، آسائشوں کے حصول، خوب صورت بنگلے، لکژری گاڑیوں، حاضر باش خدمت گزار، جاہ و منصب، سماج میں عزت، تجارت کی ترقی، بینک بیلنس، جسمانی صحت، ذہنی سکون اور بچوں کی ترقی وغیرہ کو کام یابی کا پیمانہ قرار دیتے ہیں۔

* انسان کی ایک فطری خواہش یہ بھی ہوتی ہے کہ اس نے کام یابی کا جو معیار مقرر کیا ہے وہ اسے ہمیشہ حاصل رہے۔

* قرآن مجید نے زندگی کا وسیع تصور پیش کیا ہے۔ اس کے نزدیک زندگی کے دو مرحلے ہیں : ایک دنیوی، دوسرا آخروی۔ دنیوی زندگی عارضی ہے اور اخروی زندگی دائمی۔ دنیوی زندگی دار العمل ہے اور اخروی زندگی دار الجزاء۔ دنیا میں ہر شخص آزمائش کی حالت میں ہے۔ مال دار بھی، غریب بھی، حاکم بھی، محکوم بھی، صحت مند بھی، مریض بھی۔ یہاں جو اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارے گا مرنے کے بعد اخروی زندگی میں اس کا اجر پائے گا۔ قرآن کہتا ہے کہ حقیقی کام یابی اخروی زندگی کی کام یابی ہے۔

آخر میں میں نے بتایا کہ قرآن میں تفصیل سے ان لوگوں کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں جو اس کی نظر میں کام یاب ہیں :

﴿۱﴾ وہ صرف اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے :

” مومن مردوں اور مومن عورتوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انھیں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان سدا بہار باغوں میں ان کے لیے پاکیزہ قیام گاہیں ہوں گی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں اللہ کی خوش نودی حاصل ہوگی۔ یہی بڑی کام یابی ہے۔”(التوبۃ:72)

﴿۲﴾ وہ اللہ کے رسول پر ایمان لاتے ہیں اور وہ ان کے سامنے اللہ کی طرف سے جو احکام پیش کرتاہے اس کا اتباع کرتے ہیں:

” لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اورنصرت کریں اور اس روشنی کی پیروی اختیارکریں جو اس کے ساتھ نازل کی گئی ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔ ” (الاعراف:157)

﴿۳﴾ وہ آخرت کی زندگی پر ایمان رکھتے ہیں :

” حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے ان کے لیے ہم نے ان کے کرتوتوں کو خوش نما بنادیا ہے، اس لیے وہ بھٹکتے پھرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے بری سزا ہے اور آخرت میں یہی سب سے زیادہ خسارے میں رہنے والے ہیں۔” (النمل:4۔5)

﴿۴﴾ وہ اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں اوران کے احکام بجالاتے ہیں :

” جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کریں اوراللہ سے ڈریں اوراس کی نافرمانی سے بچیں وہی کام یاب ہیں۔ ” (النور:52)

﴿۵﴾ وہ ایمان لانے کے ساتھ نیک اعمال بھی کرتے ہیں :

” اور جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہوگا اور نیک عمل کرتا ہوگا اللہ تعالیٰ اس کے گناہ دور کردے گا اور اس کو جنت کے ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بڑی کام یابی ہے۔ ” (التغابن: 9)

﴿۶﴾ اللہ تعالی نے انھیں جو کچھ مال و دولت سے نوازاہے اس میں دوسرے انسانوں کا حق پہچانتے ہیں، اسے سینت سینت کر نہیں رکھتے، بلکہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں :

” پس رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق۔ یہ طریقہ بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو اللہ کی خوش نودی چاہتے ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔” (الروم:38)

﴿۷﴾ وہ شیطان کے بہکاوے میں نہیں آتے اور غلط کاموں میں نہیں پھنستے:

” اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو۔ امیدہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی۔” (المائدۃ:90)

﴿۸﴾ وہ اپنے نفس کی پاکی پر توجہ دیتے ہیں، اسے گناہوں سے آلودہ نہیں کرتے اور اللہ کی نافرمانی سے ڈرتے ہیں :

” یقینا فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کودبا دیا۔”(الشمس:9۔10)

﴿۹﴾ وہ خود نیک بنے رہنے پر اکتفا نہیں کرتے، بلکہ دوسروں کو بھی بھلائی کی طرف دعوت دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں :

” تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جولوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔” (آل عمران:104)

قرآن مجید ایک بات یہ بھی کہتا ہے کہ آخرت میں کام یاب ہونے والوں کو جنت میں جو نعمتیں دی جائیں گی وہ ابدی ہوں گی۔ وہ ہمیشہ ان سے شاد کام ہوں گے۔

قابل ِ مبارک باد ہیں وہ لوگ جو دنیا کی عارضی کام یابیوں پر پھولے نہ سمائیں، بلکہ آخرت کی زندگی کو اپنے پیش نظررکھیں، اس کے لیے تیاری کریں اور وہاں کام یابی حاصل کرنے کے لیے قرآن مجید میں جن اوصاف کا تذکرہ کیا گیا ہے، ان کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں۔

تبصرے بند ہیں۔