کتاب ‘جدید ہندی شاعری’ کی رسم رو نمائی

جاوید رحمانی

انجمن ترقی اردو (ہند) کے زیر اہتمام اردو گھر نئی دہلی میں خورشید اکرم کی ترتیب دی ہوئی کتاب جدید ہندی شاعری کی رسم رو نمائی کے موقع پر مشہور دانشور و نقاد پروفیسر شمیم حنفی نے کہا کہ یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ اردو اور ہندی خانوں میں بٹی رہی۔ ان دیواروں کو ٹوٹنا چاہئے اور یہ کتاب اس جانب ایک بڑا قدم ہے۔

 انہوں نے کہا کہ زبانوں کے بیچ فرق سیاست نے پیدا کیا ہے اور جب  زبان اور ادب سیاست کا حصہ بن جائیں تو بڑی تباہی آتی ہے۔ شمیم حنفی نے  مزیدکہا کہ اس کتاب میں شامل نظموں کی سب سے بڑی خوبی  یہ ہے کہ یہ اتنی آسان زبان میں ہے کہ اس میں اردو نظمیں بھی ملا دی جائیں تو یہ آ پس میں گھل مل جائیں گی۔ اس موقع پر  ہندی کے مشہور نقاد پروفیسر وشوناتھ ترپاٹھی نے کہا کہ وہ پابند شاعری کے بہت قائل رہے ہیں لیکن شاعری اب اپنے ارتقا کے اس درجے میں پہنچ گئی ہے کہ بحر سے آزاد شاعری پڑھ کر بھی مہا کاویہ کا احساس ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کو اپنا وجود بچائے رکھنے کے لئے شاعری کی بہت ضرورت ہے ۔

 سیاست اور سماج میں شاعری کی کمی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمیں یہ لکھنا پڑ رہاہے کہ اب صبح سیرکرنا خطرناک ہے۔ مشہورہندی شاعر جناب منگلیش ڈبرال نے کہا کہ اس طرح کے کاموں سے دو زبانوں کے بیچ کی دوری کم ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کتاب کو دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ یہ ہندی شاعروں کا نہیں ہندی نظموں کا انتخاب ہے اور جس میں پورے طور پرخورشید اکرم کی اپنی پسند کا دخل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہندی  میں دوسری زبانوں سے قبولیت کا رجحان کم ہو گیا ہے اور یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔

 انہوں نے کہا کہ ہم زبان کے پھیلائو اور اس کی گہرائی پر بات کرنے کی بجائے اگر صرف اس بات پر خوش ہو جاتے ہیں کہ اقوام متحدہ میں ایک جملہ ہندی کا بول دیا گیا یا امریکہ کے صدر نے نمستے کہہ دیا تو یہ ہماری ذہنی قلاشی ہے۔ اردو شاعر فرحت احساس نے کہا کہ یہ کتاب اس یقین کے ساتھ شائع کی گئی ہے کہ اس کے پڑھنے والے اب بھی موجود ہیں۔ لیکن سوال یہ کہ اس کو پڑھے گا کون۔ کیونکہ اس وقت انسان کے پاس سوچنے، سمجھنے اور اپنے آپ کو محسوس کرنے کا وقت نہیں ہے، پھر شاعری جو لفظ کے وسیلے سے سامنے آتی ہے اس کے ساتھ زندگی بسر کرنے میں بڑے محالات ہیں۔ پھر بھی ہمیں کچھ حد تک اس بات کا اطمینان ہے کہ اب بھی شاعری کو پڑھنے والے لوگ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج کی دنیا میں ہر چیز کو vulgarise کر دیا گیا ہے اور جو چیز سب سے زیادہ اس کو جھیل رہی ہے وہ شاعری کی روح ہے۔ ہندی شاعرہ  انامیکا نے کہا کہ   اس طرح کی کتابوں اور اس طرح کی محفلوں کی بہت ضرورت ہے جہاں ہم  ایک دوسرے کو سنیں اور ایک دوسرے سے سیکھیں، انہوں نے امید جتائی کہ اگلی بار جب ہم یہاں جمع ہوں تو تو اس طرح کہ ایک انتخاب اردو شاعری کا ہندی میں اور اور ایک اور انتخاب ہندی کا اردو میںچھپے۔ جلسے کے آغاز میں خورشید اکرم نے کتاب کی اشاعت کی غرض وغایت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہندی نظم کے بیش بہا خزانے سے تھوڑی سی ایسی نظموں کا انتخاب کرنے کی کوشش کی ہے جس سے اردو نظم استفادہ کر کے اپنے آپ کو مزید وسعت دے سکتی ہے۔  نظامت کے فرائض ڈاکٹر نجمہ رحمانی نے انجام دیے۔

اس موقع پر انامیکا سمیت ہندی کے شاعر ونود بھاردواج، مدن کشیپ، ومل کمار، سنجے چترویدی، پرتاپ سوم ونشی بھی موجود تھے جن کی نظمیں کتاب میں شامل ہیں۔ اردو ادب و صحافت کی کئی مشہور ہستیاں خالد جاوید، ای ٹی وی اردو کے سینئر ایڈیٹر تحسین منور ،احترام اسلام،معین شاداب، سہارا اردو ٹی وی کے چیف لئیق رضوی،انجمن ترقی اردو (ہند) کے  میڈیا کورڈی نیٹر جاوید رحمانی، صدائے انصاری کے ایڈیٹر اطہر انصاری ، ماہنامہ ا ٓجکل ہندی کے سینئر ایڈیٹر راکیش رینو، پروفیسر توحید خان، ڈاکٹر سرور الہدیٰ، افتخار عالم، محمد عارف خان، اختر زماں، ناصر عزیز اور کئی دیگر جلسے میںموجود تھیں۔

تبصرے بند ہیں۔