قران میں سب سے عظیم قَسم

ندرت کار

ایک آدمی جب عدالت وغیرہ میں گواھی دیتا ھے تو کہتا ھے کہ میں قسم کھاتا (اٹھاتا) ھوں کہ سچ کہونگا، اور سچ کے سوا،کچھ نھیں کہونگا۔

اس تناظر سے ھمیں معلوم ھواکہ، قسم سے مراد، گواھی یا شہادت دینا ھوتا ھے،
آیئے دیکھیں کیہ خدا کس "قسم ” (شہادت) کی بات کررھاھے؟

قرانِ کرم میں جہاں جہاں، قسم، (شھادت) کا ذکر کیا گیا ھے ان میں، ایک گواھی کو۔ ۔۔۔ بھت بڑی قسم سے تعبیر کیا گیا ھے۔
"فلا اقسم بمواقع النجوم۔ ۔۔۔۔ وانہ لقسم لو تعلمون عظیم، ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، "(75۔76 /56)

فلا۔ ۔ پس نھیں، (بات وہ نھیں جو تم سمجھتے ھو) اقسم بمواقع النجوم، ھم شہادت دیتے ھیں،مواقع النجوم کی۔۔ وانہ لقسم لو تعلمون عظیم،۔ ۔۔ اگر تمھیں علم ھوجاۓ کہ یہ”مواقع النجوم "کیا ھیں ؟ تو تم دیکھو گے کہ یہ بھت بڑی قسم (شھادت) ھے۔

سب سے پہلے یہ وضاحت ضروری ھے کہ ان آیات میں جو لفظ” استعمال ھوا ھے اسکے معنی کیا ھیں؟
عموماً، نجوم کے معنی ستارے لیا گیا ھے۔ لیکن ھم سب جانتے ھیں کہ اس میں ستارے، سیارے اور اسکے ساتھ ساتھ ھر قسم کے آسمانی کرے بھی شامل ھیں۔

قران نے 1400 سال پہلے اعلان کیا کہ اگر تمھیں اس بات کا علم ھوجاۓ کہ مواقع النجوم کی ماھیت کیا ھے۔
(یہاں قران (الناس) نوعِ انسانی کو دعوتِ غورو فکر دے رھا ھے)

تو تم دکھوگے کہ یہ ایک عظیم قسم (شہادت) ھے،کائنات کی کسی نہ کسی چیز کے متعلق قسمیں تو بار بار بے شمار جگھوں پر آئیں ھیں،۔لیکن یھاں کھا گیا کہ کہ یہ ایک بڑی عظیم قسم ھے۔ قران نے یھاں علم (تعلمون)کا بھی ذکر کیا ھے۔

ایک علم وہ ھے جو بقول قرانِ انبیاۓ کرام کی وساطت سے وحی ذریعے، نوعِ انسانی تک پہنچایاھے اور دوسرا علم وہ ھے جو بقول قران، "سخر”(تسخیرِ کائنات)کے ذریعۃ انسنوں نے خود حاصل کیا۔

یھی وجہ ھے کہ قران نوعِ انسانی کو بار بار تسخیرِ کائنات پر زور دیتا ھے، اور وہ آیاتِ خداوندی، جو کائنات میں بکھری پڑی ھیں انکا علم حاصل کرنیکیلیئے کہتا ھے۔

چنانچہ مندرجہ بالا آیات میں جس چیز کا خاص طور پر ذکر کیا گیاھے وہ”مـوا قع النــجوم” ھے، یعنی آسمانی کروں کا محلِِّ وقوع،۔۔۔۔اس بات پر زور دیاگیا ھے

اس ضمن میں یہ بات قابلِ غور ھے کہ کوئی کرہ، ایک جگہ ساکن نھیں ھے، ھر کرہ بڑی تیزی سے اپنے اپنے مدار Orbit میں ھر وقت گردش کررھا ھے.اور قران اسے "فلک” سے تعبیر کرتا ھے یہ تیزی سے گردش کرنے کے باوجود،آپس میں متصادم نھیں ھوتے۔

ایک جگہ کہ:
۔۔۔ والشمس والقمر کل فی فلک یسبحون۔ (21/23سورج اور چاند سب اپنے اپنے فلک میں تیر (یسبحون) رھے ھیں۔

چنانچہ موقع النجوم، در حقیقت آسمانی کروں کا محلِِّ وقوع ھے جسے انسانیت کے متلاشیوں (سائنسدانوں) نے اتسخیرِ کاےنات کے ماتحت، اپنی ذاتی سعی و کاوش اور بڑی محنت اور حسنِ خوبی کےکے نتیجے میں،ایک فارمولہ دریافت کیا ھے،جس کے مطابق،تمام اجرامِ فلکی کے درمیان فاصلے مقرر ھیںیہ فارمولہ جو نظامِ شمسی کے سیاروں کے درمیان فاصلوں کے متعلق ھے،در حقیقت،ایک عالمگیر فارمولہ ھے، اس کا نام BODES LAW ھے۔
اسکی ترتیب یہ ھے کہ صفر سے شروع ھوکر،اعدادِترتیب، اس طرح لکھے جاتے ھیں، کہ پہلے 0 پھر3۔ پھر ھر مرتبہ اس عدد کو دگنا کرتے جائیں یعنی 0۔0 – 3۔ – 6۔ وغیرہ

ان اعداد کے حساب سے زمین کو نمبر 1 پر رکھا جاۓ تو، اور باقی سیارون کو بالترتیب، نمبر دیئے جائیِ۔

مثلا! زمیں کا عدد 1 مریخ کا 1.6 مشتری کا 2.8، زحل کا 5.2 وغیرہ۔

گویا ھر سیارے کے مدار یا فلک کا فاصلہ ساتھ والے سیارے کے مدار سے اسی فارمولہ کے مطابق ھوگا
یہ فارمولہ اسقدر صحیح ھے کہ سیاروں کے باھمی فاصلہ میں ذرہ بر فرق نھیں۔

اب ذرا غور کیجیئے کہ آسمان پر اربوں کی تعداد میں ستارے سیارے اور دیگر کرے موجود ھیں اور انکے مداروں کے فاصلے ایک ایسی خاص ترتیب سے اپنی اپنی جگہ قائم ھیں جس میں زرہ بھر فرق، یا خلل نھیں اور دوسری جانب اس بات پر غور کیجیئے کہ قرا نے 1400 سال پہلے کہا ھم قسم کھاتے ھیں مواقع النجوم کی، اور اگر تمھیں اس بات کا علم ھوجاۓ کہ مواقع النجوم کیا ھیں تو تم دیکھو گے کہ یہ ایک عظیم قسم ھے۔

اس کے زندگی بخش اور اٹل قوانین، ایک کتاب کے اندر اس طرح محفوظ پڑے ھیں جس طرح موتی، سیپ کے اندر محفوظ ھوتے ھیں۔ اب سوال یہ ھے کہ، خدا یہ شھادت دیکر کس بات کو واضح کرنا چاھتا ھے؟

اس سوال کا جواب خدا اس سے اگلی آیات می دےرھا ھے،

"انہ لقران کریم”

ھم یہ قسم، بیشک یہ ثابت کرنے کیلیئے کھاتے ھیں کہ قران "کریم” ھے،قران تم پر کرم کرنیوالا ھے۔ تمھیں زندگی کی منفعت بخشیوں سے مالامال کرنے والا ھے۔

"فی کتاب مکنون:”

"لا یمسہ الا المطھرون”

لیکن اسکے حقائق سے وھی لوگ صحیح معنوں میں مستفید ھوسکتے ھیں،جن کے قلب و دماغ کو پاکیزگی میسر ھو، یعنی انسان کے خود تراشیدہ تصورات (اصول) و توھمات سے مغلوب نہ ھوں۔

"”تنزیل من رب العلمین”

یہ قران اس ھستی کی طرف سے، ھستہ آھستہ اترا ھے۔ جس نے تمام کائنات (عالمین) کی ھر شے کی پرورش کی ذمہ داری اسکے نقطہء آغاز سے لیکر اسکے نقطہء تکمیل (ربوبیت) تک کیلیئے رکھی ھے۔

اور اللہ، اس قسم کی شھادتیں دینے کے بعد،منکرین کو چیلنج دیتا ھے کہ،

الذی خلق سبع سموات طباقا ما ترای فی خلق الرحمٰن من تفوت

فارجع البصر ھل ترای فطور

ثم ارجع البصر کرتین ینقلب الیک البصر خاسا و ھم حسیر (67/3)

(تم اگر دیکھنا چاھو کہ اس خدا کا پروگرم،کس حسن و خوبی سے چل رھا ھے اور اسکی صفاتِ رحمت و قدرت، کس حسن و خوبی سے بیک وقت کار فرما ھیں تو کائنات کی اس مشینری پر غور کرو)

اس نے فضا کی پہنائیوں میں مختلف کروں کو اس طرح بنایا ھے کہ وہ ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ھیں(یعنی ان میں باھمی تصادم نھیں ھوتا)تم یھاں سے وھاں تک جاؤ،تمھیں خداۓ رحمٰن کی تخلیق کردہ کا ئنات میں کھیں بے ترتیبی نظر نھیں آۓ گی، کھیں عدمِ تناسب نظر نھیں آۓ گا، بار بار نگاھ کو لوٹا کر دیکھو، خوب جانچ پڑتال کرکے غور کرو، تمھیں کھیں بھی کوئی دراڑ یا درز نظر نھیں آۓ گی، کوئی شے بے جوڑ نھیں ھوگی، تم دوبارہ (سہ بارہ) نظر کو لوٹا کر دیکھو،تمھاری نگاھ ھر بار تمھارے پاس ناکام اور تھک کر لوٹ آۓ گی، کوئی اختلال یا فطور نظر نھیں آۓ گا۔
ثــــــــــــــــــــــــــــــــــم تــــتـــــــــــفــــــــــــــــــــــکـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــروا

تبصرے بند ہیں۔