کتاب زندگی: میرے مطالعہ کی روشنی میں

عبدالرحیم 

(نمتعلم ایل، ایس ، ایم ، یو دربھنگہ)

میرے سامنے نوجوان عالم دین میرے دوست مولانا محمد نظر الہدیٰ قاسمی ویشالوی کی مرتب کردہ ان کی پہلی کتاب”کتاب زندگی”ہے ، نام سے ہی ظاہر ہے کہ کتاب زندگی میں کسی کی زندگی کی داستان کو محفوظ کیا گیا ہے، حقیقت بھی یہی ہے ، مشہور ماہر تعلیم الحاج ماسٹر محمد نور الہدی رحمانی صاحب کی پوری زندگی اور ان کے حیات و خدمات کارنامہ کو جمع کر دیا گیا ہے، یہ کتاب ٣٩٨صفحات پر مشتمل ہے، کمپوزنگ کا کام مولانا محمد نظر الہدیٰ قاسمی نے خود انجام دیا ہے، اور اسے نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی ویشالی کے زیر اہتمام دی پرنٹو اسٹیشنرس دریا پور ، پٹنہ سے شائع کروایا گیا ہے، آپ بھی اسے بہ آسانی نور اردو لائبریری حسن پور گنگھٹی ، الھدی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ آشیانہ کالونی حاجی پور، مکتبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ، دارالعلوم سبیل السلام صلالہ، حیدرآباد سے محض دوسو روپے قیمت دے کر حاصل کرسکتے ہیں، مہنگائ کے اس بھیڑ بھاڑ میں قیمت مناسب ہے، سرورق بہت عمدہ ہے۔

سب سے پہلے کتاب کا انتساب والدین کے محبتوں کے نام کیا ہے، جو بڑی سعادت کی بات ہے، پھر مرتب نے” مجھے بھی کچھ کہنا ہے”عنوان کے تحت اپنی بات رکھی ہے، اپنی تدریسی اور خانگی مصروفیات سے وقت نکال کر دادا جان کوخراج عقیدت پیش کرنے کی کوشش کی ہے، اس کے بعد اجمالی سوانحی خاکہ پیش کیا ہے، پھر خاندانی شجرہ نسب بھی مرتب نے پیش کیا ہے، جو اب اس مادیت کے دور میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے، اس کے بعد سات ابواب میں کتاب کو مرتب نے سمیٹا ہے۔

"باب اول”میں الحاج ماسٹر محمد نور الہدی رحمانی کے لائق و فائق فرزند ارجمند مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ و جھاڑکھنڈ نے اپنے والد ماجد کی پوری زندگی کو "ابا جی شجر سایہ دار”عنوان کے تحت جمع کیا ہے، جو ٤٣صفحہ پر مشتمل ہے، جو چھوٹے بڑے ٦٠عنوان کے تحت لکھے گئے ہیں، اور مفتی صاحب نے اپنے والد ماجد کی پیدائش سے لے کر موت تک کی آخری لمحات تجہیز و تکفین پھر تعزیتی کلمات سب کو پیش کرنے کی مکمل کوشش کی ہے، سب سے طویل مضمون حضرت مفتی صاحب کا ہی ہے، ان سب کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بہت ساری صفات و خصوصیات حضرت مفتی صاحب کے والد ماجد میں موجود تھی، صفحہ نمبر ٥٠پر مفتی صاحب نے ابا جی کی شاعری کے متعلق لکھا ہے کہ ابا جی ایک زمانہ میں شاعری بھی کرتے تھے، مگر وہ دور طالبعلمی کا تھا ، مہوا اسکول کے صدر مدرس ماسٹر ضیاء الرحمن صاحب کو یہ بھنک لگ گئی کہ نور الہدی اب شاعری بھی کرتا ہے، ایک طمانچہ مار کر فرمایا کہ برباد ہوجائے گا، ابا جی نے پھر شاعری کا خیال بھی دل سے نکال دیا، تمام ذخیرے تلاشے م گر سب برباد ہوگۓ، صرف ایک منظوم دعوت نامہ حاصل ہوسکا جو ابا جی نے اپنے والد منشی علی حسن کی طرف سے اپنی شادی کے موقع پر لکھا تھا ، جس کو صفحہ نمبر ٥١پر مفتی صاحب نے پیش کیا ہے، جس کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اگر ماسٹر صاحب شعر و شاعری جاری رکھتے تو اچھے شاعر بھی بن سکتے تھے، باب دوم میں احوال و آثار کے تحت ٦٠لوگوں کے مضامین ہیں، جن میں بیشتر مضامین بیٹے، بہو، پوتے، پوتیاں، اور دو پرپوتی سعیدہ سراج، عائشہ سراج "میرے پرداداایک آئیڈیل شخصیت”میرے پردادا:ایک صاحب علم نیک انسان”شامل ہے، ان کے علاوہ دیگر اہم شخصیات کے بھی مضمون اس باب میں شامل ہے۔

پروفیسر معراج الحق برق، سابق صدر شعبہ، فارسی آرڈی اس کالج، مظفرپور، الحاج محمد انوار الحسن وسطوی”آسمان ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے”الحاج محمد انوار الحسن وسطوی صاحب ماسٹر محمد نور الہدی رحمانی کے شاگردوں میں سے ہیں ، اس کتاب کی ترتیب اور اشاعت میں ان کی دعائیں نیک مشورہ کا بڑا دخل ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو صحت و تندرستی کے ساتھ درازی عمر عطا فرمائے، ان کا مضمون صفحہ نمبر ١١١پر ہے، مولانا محمد نظام الدین اسامہ ندوی ، قمر حاجی پوری، ڈاکٹر ممتاز احمد خاں، مولانا آفتاب عالم مفتاحی، حکیم محمد شبلی قاسمی، ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق، مولاناانواراللہ فلک ، سید ابو طلحہ، ابو صالح، مفتی عبد القیوم جمالی قاسمی، مفتی عالمگیر قاسمی شامل باب ہیں، حالانکہ ان سب لوگوں کے مضامین کو ایک الگ باب اور گھر کے لوگوں کے لئے ایک الگ باب کیا جاسکتا تھا، جس سے کتاب کا معیار شاید اور بلند ہوجاتا، راقم کا بھی مضمون اسی باب میں صفحہ نمبر ١٤٩پر شامل ہے، گھر کے لوگوں میں بیٹے، بہو، اور پوتے ، پوتیاں، پرپوتیاں سب نے ماسٹر صاحب کی محبت میں اچھا لکھنے کی کوشش کی ہے اور بہت حد تک کامیاب بھی ہیں، ایسا بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے کہ کسی شخصیت پر مضامین گھر کے لوگوں اور اہل تعلق یعنی باہر کے لوگوں سب سے مضامین لکھوانا بہت مشکل کام ہے، حقیقت یہ ہے کہ الحاج ماسٹر محمد نور الہدی رحمانی کی شخصیت ہی کچھ ایسی انمول تھی کہ”ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم”سب کو ان کی محبت نے لکھنے پر مجبور کیا۔ یہ باب صفحہ نمبر ٢٩٩پر مولانا  محمد قمر عالم ندوی کا حاصل کیا ہوا خط”حضرت امیر شریعت رابع کا خط دادا جان کے نام "پر اختتام کو پہونچتا ہے۔ تیسرے باب میں منظوم خراج عقیدت ہے جو حسن نواب حسن۔

مولانا مظاہر عالم قمر، نئ نسل کے ابھرتے ہوئے شاعر صحافی، ادیب کامران غنی صبا نے پیش کیا ہے، جو صفحہ نمبر ٣٠٩پر درج ہے، باب چہارم میں تعزیتی مکتوبات ہیں جو ماسٹر محمد نور الہدی رحمانی کے انتقال کے بعد ھدی خاندان کے نام خطوط کے ذریعے مولانا محمد قاسم مظفر پوری، مولانا مظاہر عالم، مولانا محمد نظام الدین اسامہ ندوی، مولانا سراج اکرم قاسمی، مولانا محمد نعمت اللہ، محفوظ عالم، صفی اختر ، مولانا اظہار الحق قاسمی بحرین وغیرہ نے لکھے ہیں شاملِ باب ہیں۔

بانچویں باب میں تعزیتی بیانات ہیں جو صفحہ نمبر ٢٤٢پر ختم ہوجاتا ہے، اس کے بعد چھٹے باب میں ماسٹر محمد نور الہدی رحمانی کے مضامین و مقالات بعنوان داستان ناتمام، میری شریک حیات، وصیت نامہ، حاجی پور تاریخ کے آئینے میں، ظفر کی بیٹی، انسان، یہ سب معلوماتی مضامین اس باب میں شامل ہے، ساتواں اور آخری باب میں ماسٹر صاحب کے دستاویزات جن میں اردو انگریزی تحریر کے نمونے ، اسلامیہ کالج سیوان کا انٹرویو، آدرش ہائ اسکول سراۓ سے سبکدوشی کے وقت پیش کیا گیا سپاس نامہ شامل ہے، پی ایچ ڈی کے متعلق نگراں ڈاکٹر محمد سلیمان کا تصدیق نامہ، اور حج پاسپورٹ کے عکس کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ انسانوں کی عمر سے زیادہ کتابوں کی عمر ہواکرتی ہیں، میں بہت بہت مبارک بادی پیش کرتا ہوں مولانا محمد نظر الہدیٰ قاسمی صاحب کو کہ انہوں نے اپنے دادا جان کے بکھرے ہوئے یادوں کو جمع کر کے ضائع ہونے سے بچالیا، آنے والی نسلوں کے لئے ماسٹر محمد نور الہدی رحمانی کی شخصیت کو سمجھنے کا سامان فراہم کردیا۔ میں دعا گو ہوں کہ زور قلم اور زیادہ ہو، کتاب اور صاحب کتاب  دونوں کوخدا مقبول عام کرے آمین۔

تبصرے بند ہیں۔