کجریوال عروج و زوال کے درمیان

حفیظ نعمانی

سیاست میں کوئی ہمیشہ ایک مقام پر نہیں رہتا، وہ یا تو اوپر جاتا ہے یا غلطی کرے تو نیچے آجاتا ہے۔ پانچ برس پہلے سیاست کے میدان میں کجریوال نام کا کوئی کھلاڑی نہیں تھا۔ جس وقت کانگریس کی حکومت پر بی جے پی ہر طرف سے حملے کررہی تھی اس زمانہ میں ونود رائے نام کے ایک بیوروکریٹ نے 2G  والے معاملہ میں ٹیلی کام کے وزیر اے راجہ پر بدعنوانی کا الزام لگایا اور پوری اپوزیشن کو کانگریس کے خلاف متحد کردیا۔ دوسری طرف اس نے اننا ہزارے کو اُکسایا جو لوک پال بل پاس کرانے کا دبائو ڈالنے لگے۔

جس وقت حکومت کے وزیروں سے اننا ہزارے اپنی ٹیم کے ساتھ مذاکرات کررہے تھے اس وقت ان کی ٹیم میں ان کے ہی قد کے ایک جوان بھی ان کے ساتھ ہوتے تھے اور میڈیا سے وہی بات کرتے تھے۔ ہم جیسے خانہ قید لوگ بعد میں جان سکے کہ یہ اروند کجریوال ہیں اور انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کے اک بڑے افسر تھے جو نوکری پر لات مارکر بدعنوانی کے خلاف لڑنے آئے ہیں اور اننا ہزارے کے ترجمان بنے ہوئے ہیں۔

کجریوال اننا ہزارے کی بھوک ہڑتال میں اتنا سامنے رہے کہ ہر کوئی ان کو جان گیا۔ بھوک ہڑتال ختم ہونے کے بعد انہوں نے اننا ہزارے پر زور ڈالا کہ لوہے کو لوہا ہی کاٹتا ہے۔ آپ کو سرگرم سیاست میں آکر ان بدعنوان پارٹیوں سے مقابلہ کرنا چاہئے۔ لیکن وہ اس پر تیار نہیں ہوئے اور کجریوال ان کو چھوڑکر سرگرم سیاست میں کودے اور صرف چند سال میں اُلٹ پلٹ کر دہلی کے صوبائی الیکشن میں انہوں نے ایسی چھلانگ لگائی کہ اسمبلی کی 70  سیٹوں میں 67  سیٹیں جیت کر پورے ملک کی نظروں میں آگئے۔ اور اس کے بعد انہوں نے اپنا نشانہ وزیراعظم کو بنایا اور یہ بھول گئے کہ وہ دہلی ریاست کے پورے وزیر اعلیٰ نہیں آدھے ہیں اور آدھی حکومت وزیراعظم کے پاس ہے۔ اروند کجریوال اپنی مقبولیت کو ہضم نہ کرسکے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اوپر جاتے جاتے نیچے آنے لگے۔

اس وقت ان کے ہاتھ میں راجیہ سبھا کی تین سیٹیں تھیں پہلے تو انہوں نے چاہا کہ ریزرو بینک کے سابق گورنر، بی جے پی کے بہت بڑے مگر مودی کے مخالف لیڈر یشونت سنہا اور دوسرے بڑے لیڈر سابق وزیر اور بہت محترم صحافی ارون شوری کو دے دیں لیکن شاید سیاسی عمر کا فرق آڑے آیا ہو کیونکہ کجریوال ان دونوں کے سیاسی پوتوں کی برابر ہیں اس لئے انہوں نے تحفہ قبول نہیں کیا۔ ان کے کہنے کے مطابق اسی درجہ کے دوسرے حضرات کو بھی پیشکش کی اور وہاں بھی انکار ملا تو ایک ٹکٹ تو اپنے بہت محنتی ساتھی سنجے سنگھ کو دے دیا اور دو ٹکٹ انہوں نے دو ایسے حضرات کو دیئے جن کا سیاست یا حکومت سے کوئی تعلق کبھی نہیں رہا۔ اور دونوں گپتا ہیں اور شہرت یہ ہے کہ بہت دولتمند ہیں۔

ان کے اس اعلان سے پورے میڈیا میں، ان کی پارٹی میں اور ملک میں شور ہوگیا کہ اروند کجریوال نے ٹکٹ فروخت کردیئے۔ اور ان کے وہ ساتھی جو اب ان سے الگ ہیں انہوں نے بھی کہہ دیا کہ ہم کجریوال کے بارے میں سب کچھ مان سکتے تھے مگر یہ نہیں مان سکتے تھے کہ وہ بک گئے لیکن اب ہم حیران ہیں کیونکہ جن دونوں گپتا کو ٹکٹ دیا ہے ان سے دولت کے رشتہ کے علاوہ دوسرا رشتہ نہیں ہوسکتا تھا۔ پوری دنیا کو سیدھا راستہ دکھانے والے حضرت رسول اکرمؐ نے فرمایا تھا کہ تہمت کی جگہ سے بچو، آپؐ نے یہ نہیں فرمایا کہ تمہت سے بچو اس لئے کہ تہمت سے اگر بچنا آسان ہوتا تو کجریوال بچ جاتے اب ہر طرف سے ان کے اوپر جو تہمت لگ رہی ہے کہ انہوں نے پیسے لے لئے۔ وہ اس لئے ہے کہ وہ تہمت کی جگہ سے نہیں بچے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ شراب کا سب سے بڑا سوداگر اور 9 ہزار کروڑ روپئے ہندوستان کے بینکوں کا لے کر لندن میں جاکر بیٹھ جانے والے وجے مالیہ نے پانچ کروڑ میں کرناٹک میں راجیہ سبھا کی سیٹ خریدی تھی اور یہ تو بار بار ہوا ہے کہ کسی مخالف لیڈر کو راجیہ سبھا میں ہرانا ہے تو حکومت نے ٹاٹا برلا یا امبانی گروپ کے کسی فرد کو نوٹوں کے بورے لے کر بھیج دیا اور ووٹ خریدلئے۔ یہ بات اروند کجریوال کو معلوم تھی اس کے بعد بھی انہوں نے تہمت سے بچنے کی فکر نہیں کی اور کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ پنجاب میں بری طرح ہارنے اور اس کے بعد ہر جگہ قسمت آزمانے اور ہر جگہ خالی ہاتھ رہنے کی وجہ سے انہوں نے اپنے سیاسی بڑھاپے کا انتظام کرلیا ہوگا۔

بہرحال یہ اچھا نہیں ہوا کیونکہ جس کجریوال نے بدعنوانی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ سے سیاست شروع کی اس کجریوال پر ایسے وقت بدعنوانی کا الزام لگے جب وہ نیچے کی طرف آرہے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اب سیاست کے میدان سے واپسی کی تیاری کررہے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ ملک کی بدنصیبی ہوگی۔ کیونکہ ایک انکم ٹیکس افسر جو بدعنوان سے جنگ کرنے کے لئے ہی نوکری چھوڑکر آیا تھا اور بدعنوانی سے لڑی جانے والی جنگ میں حصہ لینے کی وجہ سے مقبول ہوا وہ خود بدعنوانی کا شکار ہوکر سیاست کے میدان سے باہر چلا جائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔