افسانہ ’ایک ماں‘ کا سماجی اور نفسیاتی مطالعہ

ابرا ہیم افسر

 توصیف بریلوی کامختصر افسانہ ’’ایک ماں ‘‘، ارمغانِ سر سید (علی گڑھ طلبا کی میگزین )میں شائع ہوا ہے۔ اس  افسانے کے مطالعے کے بعد قاری کواپنے عہد کی مکمل ترجمانی اس میں نظر آتی ہے۔ live in relationshipمیں ساتھ رہ رہے لڑکے اور لڑکی کے ارد گرد گھوم تی اس کہانی میں صرف دو کردا ر زن اور دو کردار حیوان(کتیا اور اس کے پلّے) ہیں ۔ کہانی علامتی اور سائنٹفک انداز میں لکھی گئی ہے۔ کہانی کی ابتدا ایک لڑکی کے سڑک پر دودھ پلا رہی کتیا کے نظارے سے ہوتی ہے۔ یہی وہ پل ہوتا ہے جب لڑکی اپنے اندر پل رہے بچے کی پرورش کا آہنی عزم کرتی ہے۔ یہ فیصلہ ایک ماں کے مضبوط اورمصمم ارادوں کو ظاہر کرتاہے۔ یہ آہنی ارادے ایک ترغیب ہے زندگی کو خوش نما بنانے کی، اُسے اپنے طریقے سے جینے کی اور اپنے ہم نوا کی آزمائش کی۔ کیوں کہ ماں بننے کا خواب ہر عورت دیکھتی ہے اور اس خواب کو شرمندہ ء تعبیر کرنا بھی چاہتی ہے۔

 توصیف بریلوی نے اپنی کہانی میں ایسے سماج اور طبقے کو موضوعِ افسانہ بنایا ہے جو بغیر شادی کیے ہوئے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ ایسے لوگ معاشرے میں اپنے تشخص کو برقراراور اپنے وجود کوبنائے رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں ۔ کیوں کہ جب لڑکی اپنے پیٹ میں پل رہے بچے کو اس دنیا سے روبرو کرانے کے ارادے سے اپنے ساتھی کو مطلع کرتی ہے تو اُس کا ساتھی لڑکی کو گندی اور بھدّی بھدّی گالیوں سے نوازتا ہے۔ لڑکی کے کردار پر اُنگلی اُٹھاتا ہے۔ لڑکی کو بد چلن اور آوارہ ثابت کرنے کی حت الامکان کوشش کرتا ہے۔ ساتھ ہی  امیر لڑکوں کو اپنے جال میں پھنسانے کی چال قرار دیتا ہے۔ لڑکا، لڑکی کو اپنے پیٹ میں پل رہے بچے کا Abortionکرانے کا نا معقول مشورہ بھی دیتا ہے۔ لیکن لڑکی پرلڑکے کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ لڑکا، لڑکی کو صرف اورصرف موج مستی کا سامان ہی سمجھتاہے۔ وہ لڑکی کو آزادانہ اور عیش و عشرت بھری زندگی گزارنے کی صلاح دیتا ہے۔ وہ اسے یا دلاتا ہے کہ ہماری Life Styleاور Living standerdاورStatusنئے زمانے کی رفتار سے قدم ملا کر چلنے والا ہے۔ ہم لوگ Late Night Partyکرتے ہیں ، Strip Clubsمیں جاکر Loud Dance اورWineکے ساتھ رات بسر کرتے ہیں ۔ ایسے میں یہ بچہ پیدا کرنے کی بات درمیان میں کہاں سے آ گئی۔ اسی نوک جھونک میں لڑکی کے اندر ایک ماں کی مامتا اور ماں بننے کی تڑپ و چاہت ہلورے مارنے لگتی ہے۔ لڑکی اپنے بچے کو اس دنیا میں لانے کے لیے بے قرار ہے۔ وہ اپنے ساتھی کو خوب کھری کھری باتیں سناتی ہے۔ لڑکی کے الفاظ میں ۔

’’مجھے افسوس ہے کہ میں نے تمہیں پہچاننے میں بھول کر دی۔ لیکن تم گھبراؤ نہیں نہ تو میں تمہاری دولت  میں حصہ لینے آؤں گی اور نہ ہی مجھے تم سے کسی طرح کی کوئی اُمید ہے۔ میں اپنے بچے کو خود پال سکتی ہوں ۔ کوئی جان ور بھی اپنے بچے کو نہیں گراتاتو میں انسان ہو کر ایسا کیسے کر سکتی ہوں ؟اب میں ’’ایک ماں ‘‘ ہوں ۔ میں کسی Statusکی محتاج نہیں تم اپنے Statusکاپٹّہ اپنے گلے میں ڈال کر گھومو۔ ‘‘

  توصیف بریلوی نے افسانے میں فنی مہارت کا استعمال کرتے ہوئے Live in Relationshipکی خامیوں کو قاری کے سامنے رکھا ہے۔ موجودہ دور میں یہ ایک اعلا و مہذب معاشرے کی وبا ئی بیماری ہے۔ ہندوستان میں میں بھی اس بیماری کا شکار وہ لوگ ہو رہے ہیں جو اپنے آپ کو ModernاورHigh Fighمعاشرے کے علم بردار کہتے ہیں ۔ مغربی تہذیب کے پرستاروں اور نمائندوں کے یہاں یہ فعل ایک معمولی کام سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ایسے ناجائز رشتوں سے پیدا ہونے والے بچوں کو وہ اپنانے سے کتراتیاور بچتے ہیں ۔ اپنی بد چلنی، فحش کاری کو نئے نئے نام دے کر سماج کے سامنے ملمہ چڑھاکر پیش کرتے ہیں ۔ حیرت اورافسوس کی بات تو یہ ہے کہ سماج کا ایک با صلاہیت ذہین طبقہ یعنیDoctorsبھی اس بیماری کا علاج بڑے فخر سے کرتے ہیں ۔ آج بڑے شہروں کے یتیم خانوں میں نا جائز بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہمیں دکھائی دیتی ہے۔ سڑکوں پر رکھے ڈسٹ بِن اور ہسپتالوں کے کچرے کے ڈبّے چیخ چیخ کر معاشرے کی کی اس تلخ حقیقت کو بیان کرتے ہیں ۔ Live in Relationshipہمارا کلچراور ہماری تہذیب نہی ہے۔ اس طرح سے(بغیر شادی کے) ساتھ رہنے والوں کے درمیان نا جائز تعلقات بننا ایک عام بات اور فطری عمل ہے۔

 توصیف بریلوی اپنے افسانوں میں سماج کے اُن خفی گوشوں کو سامنے لانے کی سعی کرتے ہیں جو قاری کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں ۔ مغربی کلچر پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن آج جس طرح سے نئی نئی سوسائٹیز وجود میں آ رہی ہیں اُن پر نئے لکھنے والوں میں توصیف بریلوی فوقیت بنائے ہوئے ہیں ۔ افسانہ ’’ایک ماں ‘‘اس کی عمدہ مثال ہے۔ ماں کے پاکیزہ اور مقدس جذبات ہر عورت میں ہونا ایک قدرتی عمل ہے۔ اسقاطِ حمل ماں کے نزدیک ایک گناہِ عظیم ہوتا ہے۔ لیکن جدید طرزِ حیات نے اس فطری عمل کو بھی معدوم کر کے رکھ دیا ہے۔ اُردو شاعری میں تو ’’ ماں ‘‘کی  پاکیزگی، عظمت اور حرمت سے متعلق بہت سے اشعار موجود ہیں ۔ اُردو افسانوں میں بھی ’’ماں ‘‘ کے پاکیزہ رشتوں کوصفحہ قرطاس کی زینت بنایا گیا ہے۔ اس لیے اُردو افسانہ بھی ماں کے پاک دامنی سے مالا مال ہے۔ پریم چند کا افسانہ ’’حجِ اکبر‘‘اس کیبہترین مثال ہے۔ کہ صرف دودھ پلانے کے فرض کی خاطر اپنا حج بچے کے لیے قربان کر دیا جاتا ہے۔ توصیف بریلوی نے بھی اپنے قلم کا استعمال کرتے ہوئے ایک کتیا اور اس کے پِلّوں کو ایک لڑکی کے ’’ماں ‘‘بننے کے خواب کی تعبیرکو پورا کیاہے۔ ان کی یہ افسانوی مساعی لائق تحسین ہے۔

’’ماں ‘‘کے مقدس رشتے کے تقدس کو افسانہ نگار نے اپنے افسانے میں شروع سے آخر تک بنائے رکھا ہے۔ افسانے میں کہیں بھی جھول نظر نہیں آتا۔ قاری شروع سے آخر تک ایک ہی نشست میں افسانہ ختم کرنا چاہتا ہے۔ افسانہ نگار کا سب سے بڑا فنی کمال یہ ہے کہ اس نے کرداروں کے نام’’وہ‘‘کی علامت پر تخلیق کیے ہیں ۔ مکالمہ نگاری کرداروں کے منھ سے بولتی ہوئی نظر آتی ہے۔ انگریزی کے جملے کہانی کی ڈیمانڈ ہیں ۔ یہ مکالمے قاری کو کہانی کے کہانی پن سے روشناس کرا تے ہیں ۔ کہانی میں جس ماحول کا تذکرہ کیا گیا ہے اُس کے مطابق کہانی میں کلب، شراب، اور رقص کی تعریف و توصیف خوب کی گئی ہے۔ کہانی کا بہ غور مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ افسانہ نگار نے افسانہ تخلیق کرنے سے قبل Live in Relationshipکا مطالعہ ضرور کیا ہوگا۔ نو جوانی کے تمام مسائل پر توصیف بریلوی خوب دست رس رکھتے ہیں ۔ یہاں میں توصیف بریلوی کی توجہ افسانے کے ایک جملے ’’دھوپ دھیرے دھیرے اُگ رہی تھی ‘‘کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں ۔ فاضل افسانہ نگار کیا بتانا چاہیں گے کہ دھوپ پیڑ سے اُگتی ہے یا زمین سے۔ یہ جملہ محاوروں کہ اعتبار سے غلط ہے۔ دھوپ سے متعلق محاورے جو لغت میں موجود ہیں اس طرح ہیں ، دھوپ آنا، دھوپ اُترنا، دھوپ اُٹھانا، دھوپ اُداس ہونا، دھوپ پڑنا، پھیلنا، دھوپ جلانا، دھوپ ٹلنا، دھوپ چڑھنا، دھوپ چھپنا، دھوپ چھوڑنا، دھوپ لینا، دھوپ نکلنا وغیرہ وغیرہ۔ جملہ اگر’’دھوپ اُگنے‘‘ کی بجائے اگر’’دھوپ اُترنا‘‘ ہوتا تو بہتر تھا۔

بہر حال !افسانہ نگار کو میں افسانہ ’’ایک ماں ‘‘ کی تخلیق کے لیے مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔ ساتھ ہی توصیف صاحب نے اپنے افسانے میں جمالیاتی پہلوؤں کو بھی ملحوظ رکھا ہے۔ ماں کی اپنے بچے سے والہانہ محبت جمالیات کا ہی حصہ مانا جاتا ہے۔ اُمید کرتا ہوں کہ قارئین کے ذہنوں کے نہاں خانوں میں عرصہء دراز تک اس افسانے کی بازگشت سنائی دیتی رہے گی۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    سارے رشتے پیدا ہونے کے بعد بنتے ہیں لیکن اس زمین پر ایک ایسا رشتہ بھی ہے جو ہمارے پیدا ہونے سے نو ماہ پہلے بن جاتا ہے___
    وہ بس وہی کھاتی ہے جس سے ہمیں نقصان نہ ہو,وہ بڑے سے بڑے درد میں بھی عذاب بھگت لیتی ہے مگر درد مارنے کی دوا نہیں کھاتی کہ کہیں وہ دوا ہم کو نہ مار دے, ہم اس کی پسند کے کھانے چھڑا دیتے ہیں,ہم اس پر نیند حرام کر دیتے ہیں,وہ کسی ایک طرف ہو کر چین سے سو نہیں سکتی ، وہ سوتے میں بھی جاگتی رہتی ہے ، 9 مہینے ایک عذاب سے گزرتی ہے ،گرتی ہے تو پیٹ کے بل نہیں گرتی پہلو کے بل گر کر ہڈی تڑوا لیتی ہے ہمیں بچا لیتی ہے ،
    اس نے ابھی شکل نہیں دیکھی,لوگ شکل دیکھ کر پیار کرتے ہیں وہ غائبانہ پیار کرتی ہے، لوگ تصویر مانگ کر سلیکٹ کرتے ہیں,دنیا کا کوئی رشتہ اس خلوص کی مثال پیش نہیں کر سکتا ، خدا کو اس پر اتنا اعتبار ہے کہ اس کو اپنی محبت کا پیمانہ بنا لیا اور جنتی ہے تو قیامت سے گزر کر جنتی ہے اور ہوش آتا ہے تو پہلا سوال ہماری خیریت کا ہی ہوتا ہے___
    خدا کے بعد وہ واحد ہستی ہے جو عیب چھپا چھپا کر رکھتی ہے ، ہماری حمایت میں وہ عذر تراشتی ہے کہ ہمارے باپ کو مطمئن اور ہمیں حیران کر دیتی ہے ، باپ کھانا بند کرے تو وہ اپنے حصے کا کھلا دیتی ہے ، باپ گھر سے نکال دے تو وہ دروازہ چوری سے کھول دیتی ہے____
    خدا کے سوا کوئی ہمارا اتنا خیال نہیں رکھتا جتنا ماں رکھتی ہے ,خدا نے بھی جنت اٹھا کر اس ماں کے قدموں میں رکھ دی ،
    اللہ پاک سب کی ماؤں کو لمبی زندگی دے جن کے مائیں فوت ہیں انہیں اللہ پاک جنت فردوس عطا کریں…..

تبصرے بند ہیں۔