کربلا کے شہید ( پہلی قسط)

عبد العزیز

سن 60ہجری تھی اور رجب کا مہینہ۔ خبر ملی کہ امیر معاویہؓ فوت ہوگئے اور ان کی جگہ یزید تخت نشین ہوا ہے۔ اس نے زمام اقتدار سنبھالتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ مدینہ کے گورنر کو حکم بھیجا کہ وہ حضرت حسین ؓ اور عبد اللہ بن زبیرؓ سے بیعت لے۔ گورنر نے حضرت حسینؓ کو طلب کیا۔ انہوں نے کہا مجھ جیسا آدمی خفیہ بیعت نہیں کرسکتا، عامّۃ النّاس کو طلب کیجئے جو سب کی رائے ہوگی وہی کیا جائے گا۔ گورنر نے معاملے اگلے روز پر اٹھا رکھا اور حضرت حسینؓ اسی رات مدینہ منوّرہ سے نکل کر مکہ چلے گئے۔ حضرت حسینؓ کو امیر معاویہؓ کی زندگی ہی میں کوفے سے خط آتے رہتے تھے، لیکن آپ ہمیشہ انہیں انتظار اور صبر کی تلقین فرمایا کرتے۔ اب کوفہ والوں کو خبر ملی کہ امام حسینؓ نے بیعت نہیں کی اور مکہ تشریف لے گئے ہیں تو ایک اجتماع کرکے انہیں کوفہ تشریف لانے کی دعوت دی، اتفاق رائے سے جو خط اس مقصد کیلئے لکھا اس کا مضمون یہ تھا:
’’اللہ آپ پر سلامتی نازل فرمائے۔۔۔ ہم بغیر امام کے ہیں۔ آپ تشریف لائیں تاکہ آپ کی مدد سے ہم حق پر مجتمع ہوجائیں۔ امیر کوفہ نعمان بشیرؓ سرکاری محل میںہیں ان کے پیچھے نہ ہم جمعہ کی نماز پڑھتے ہیں نہ عید کی اگر ہمیں آپ کی تشریف آوری کا پتہ چل جائے تو ہم انہیں شام کی حدود میں ڈھکیل دیں گے۔ والسلام علیک و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ یا ابن رسول اللہ و علیٰ ابیک من قبلک۔‘‘
عبد اللہ بن مسمع ہمزانی اور عبد اللہ بن وال خط لیکر روانہ ہوگئے ابھی دوروز ہی گزرے تھے کہ کوفہ کے عمائد نے ڈیڑھ سو خط تین اور قاصدوں کے ساتھ حضرت حسینؓ کی خدمت میں بھیجے اس کے بعد بھی بے تابی اور بے صبری کا یہ عالم کہ دو روز ٹھہر کر تین اور قاصدوں کے ہاتھ ایک خط اور لکھا:
’’لوگ آپ کا بے چینی سے انتظار کررہے ہیں۔ وہ آپ کے سوا کسی کی حکومت قبول نہیں کرسکتے۔ جس قدر جلد ممکن ہو تشریف لے آئیں۔‘‘
اس خط کے بعد ایک اور خط لکھا گیا:
’’زمین سر سبز ہوچکی ہے۔ پھل پک چکے ہیں۔ آپ کی مدد کیلئے لشکر تیار ہے ۔ تشریف لے آئیے۔‘‘
حضرت حسینؓ کی خدمت میں اہل کوفہ کے خطوط کا تانتا بندھ گیا تو آپ نے اصحاب رائے سے مشورہ کے بعد کوفے ہی کے دو آدمیوں کے ہاتھ، جو کوفہ سے زین کے سرسبز ہونے اور پھل پک جانے کی خبر لے کر آئے تھے ایک خط لکھا:
’’مجھے تمہاری خواہش کا علم ہوا۔ میں اپنے چچا زاد بھائی اور معتمد علیہ مسلم ابن عقیلؓ کو تمہارے پاس بھیج رہا ہوں اور انہیں تمام حالات کی تحقیق کرکے مطلع کرنے کی ہدایت کردی ہے۔اگر پتہ چلا کہ کوفہ کے خواص و عوام واقعی میری خلافت کے خواہش مند ہیں جس کا اظہار انہوں نے اپنے خطوں میںکیا ہے، تو میں انشاء اللہ جلد تمہارے پاس پہنچ جاؤں گا۔ حقیقت یہ ہے کہ امام وہ ہونا چاہئے جو کتاب اللہ پر پوری طرح عمل کرتا ہو، عادل ہو اور دین حق کا فرمانبردار ہو۔‘‘
تلواروں کی دھار اور کوڑوں کی مار:
مسلم بن عقیلؓ کوفہ پہنچے تو مختار بن عبد ثقفی ؓ کے ہاں ٹھہرے۔ان کے آنے کی خبر سنتے ہی پورا کوفہ ٹوٹ پڑا۔ چند روز کے اندر اندر 18ہزار آدمیوں نے ان کے ہتھ پر حضرت حسینؓ کی بیعت کرلی۔ مسلم نے یابس بن ابی شبیبؓ کے ہاتھ خط بھیج دیا کہ 18 ہزار اشخاص بیعت کرچکے ہیں آپ بلا خط تشریف لے آئیے۔ اہل عراق آپ کے حامی ہیں۔
بنو امیہ کے حامیوں نے پرچے دوڑائے کہ مسلم بن عقیل ؓ کھلے بندوں حضرت حسینؓ کی بیعت لے رہے ہیں۔لیکن کوفہ کے گورنر نعمان بن بشیرؓ کوئی کاروائی نہیں کررہے ان کی کمزوری سلطنت کیلئے خطرناک ثابت ہوگی۔ چنانچہ یزید نے انہیں معزول کرکے عبید اللہ ابن زیاد کو کوفہ کا گورنر بنادیا۔ ابن زیاد نے کوفہ پہنچتے ہی لوگوںکوجمع کیا اور تقریر کی اور کہا کہ جو میرے احکامات سے سرتابی کریگا، میں اسے تلوار کی دھار اور کوڑوں کی مارہ کا مزہ چکھاؤں گا اور دوستوں پر باپ کی سی شفقت و مہربانی کروں ____ اس تقریر عام کے بعد اس کے شہر کے تمام سر بر آوردہ اشخاص کو گورنر ہاؤس میں طلب کیا اور حکم دیا کہ ان کے محلوں میں جو بھی پردیسی، خارجی اور مشتبہ لوگ ہیں انہیں پکڑ کر میرے پاس لے آؤ۔ اگر کسی نے میری عددل حکمی کی اور محلہ میں امیر المؤمنین کے خلاف کوئی قدم اٹھایا تو میر محلہ کو اس کے گھرکے دروازے پر پھانسی دے دی جائے گی۔ اور اس کے محلہ کے لوگوں کے وظیفے بند کر دیے جائیں گے……قید و بند، پھانسی اور معاشی مار دینے کی دھمکیاں جس نے بھی سنیں بجھ کر رہ گیا، مسلم بن عقیلؓ کو ابن زیاد کی آمد اور اس کے اقدامات کا پتہ چلا تو وہ مختار بن ابی عبید کے گھر سے نکل کر کوفہ کے ایک معزز شخص ہانی بن عروہ مراوی کے ہاں جاکر چھپ گئے۔ ابن زیادہ نے جاسوسوں کاجال پھیلا دیا اور ایک جاسوس نے مسلم ؓ کی پناہ گاہ کا کھوج گایا۔ ہانیؔ کو گرفتار کرلیا گیا۔ لیکن انہووں نے اپنے مہمان کو ابن زیاد کے حوالہ کرنے سے صاف انکار کریا…… ہانیؔگرفتار ہوئے تو مسلم بن عقیلؓ ان کے گھر سے نکل آئے۔ چار ہزار آدمی ان کے پرچم تلے جمع ہوگئے۔ لیکن ابن زیادکی دھمکیوں اور پر فریب چالوں کے آگے کوئی نہ ٹک سکا۔ ہجوم ابن زیاد کے سپاہی دیکھتے ہی چٹ گیا۔ صرف چالیس آدمی ساتھ رہ گئے اور پھر وہ بھی غائب ہوگئے۔ مسلمؓ نے ایک بوڑھی عورت کے گھر میں پناہ لی۔ ابن زیاد نے اعلان کردیا تھا کہ مسلمؓ جس کے گھر سے بر آمد ہوں گے اسے سخت سزا دی جائے گی اور جو انہیں گرفتار کرکے لائے گا اسے انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی گھروں کی تلاشی کا حکم دیا گیا۔ اس اعلان سے خوفزدہ ہوکر بوڑھی عورت کے لڑکے نے ابنؔ زیا کو جابتایا۔ ابنؔ زیاد نے محمدؔ بن اشعث کوگرفتاری کیلئے بھیج دیا۔ مسلمؔ بن عقیلؓ محصور ہوکر دیر تک لڑتے رہے لیکن جب سپاہی مکان پر آگ اور پتھر برسانے لگے تو وہ باہر نکل آئے اور گلی ہی میں دشمن سے مقابلہ شروع ہوگیا۔ محمد بن اشعث نے کہا:
’’بے فائدہ جان نہ گنوائیں، میں آپ کو امان دیتا ہوں۔ سپر ڈال دیں۔‘‘
مسلمؔ بن عقیل ؓ زخموں سے چور ہوچکے تھے اور دیوار سے ٹیک لگائے کھڑے تھے، جواب میں نہایت بہادرانہ رجز پڑھا۔ محمد بن اشعث نے یقین دلایا کہ آپ کے ساتھ کوئی فریب نہ کیا جائے گا،مقابلہ چھوڑ دیجئے۔ دوسرے لوگوں نے بھی سلامتی کا یقین دلایا۔مسلمؔ ؓ نے کہا : ’’اگر مجھے امان دیتے تو کبھی اپنے آپ کو تمہارے حوالہ نہ کرتا۔‘‘ خچر پر سوار ہوتے ہی سپاہیوں نے گھیر لیا اور ان کے ہاتھ سے تلوار چھین لی۔مسلمؓ صورت حال فوراً بھانپ گئے۔ آنکھوں سے آنسو بھر آئے اور کہا :’’یہ پہلا دھوکا ہے۔‘‘محمد بن اشعث نے پھر اطمینان دلایا۔ عمر و بن عبید اللہ سلمی نے طعنہ دیا کہ خلافت کے مدعی کو مصائب سے گھبراکر رونا نہ چاہئے۔ مسلمؔ ؓ نے کہا : ’’میں اپنے لئے نہیں روتا بلکہ اپنے گھر والوں کیلئے روتا ہوں جو تمہارے یہاں آرہے ہیں۔ حسینؓ کیلئے روتا ہوں، آل حسین ؓ کیلئے روتا ہوں۔‘‘ پھر محمد بن اشعث سے کہا : ’’میں سمجھتا ہوں تم مجھے نہیں بچا سکتے، اللہ کی مشیت یہی تھی۔ تم سے ہوسکے تو میرے بعد حسینؓ کو میری حالت کی خبر کرکے یہ پیغام بھجوادیان کہ وہ اپنے اہل بیعت کو لے لوٹ جائیں اور کوفے والوں پر ہر گز اعتبار نہ کریں۔‘‘ محمد بن اشعث نے وعدہ کیا کہ وہ یہ پیغام حضرت حسینؓ کو ضرور پہنچا دے گا۔… مسلم بن عقیلؓ ، ابن زیاد کے دربار میںلائے گئے تو ابن زیاد کے تیور سخت بگڑے ہوئے تھے۔ محمد بن اشعث نے کہا :’’یا امیر! میں انہیں امان دے چکا ہوں۔‘‘ تو وہ پر برس پڑاـ ’تم امان دینے والے کون ہوتے ہو، میں نے تمہیں اسے گرفتار کرکے لانے کیلئے بھیجا تھا، نہ کہ امان دینے کیلئے۔‘‘ مسلمؓ نے زندگی کے آخری لمحات میں اپنے قریبی عزیز عمرو بن سعدؓ کو وصیت کی کہ میں نے کوفہ میں سات سو درہم قرض لئے تھے میریے بعد میری زرہ اور تلوار بیچ کر انہیں ادا کرنا اورمیری لاش لیکر دفن کردینا۔ حسینؓ آرہے ہوں گے انہیں لوٹا دینا…… اس کے بعد ابن زیاد سے بڑی تلخ و تند باتیں ہوئیں۔ جواب سے عاجزآکر ابن زیاد بے قابو ہوگا اور ان پر اور حسین ؓ اور علیؓ پر گالیوں کی بوچھاڑ کردی اور حکم دیا کہ انہیں محل کی بالائی منزل پر لے جاکر قتل کردو اور دھڑنیچے پھینک دو۔ حکم کی تعطیل ہوئی، تلوار گردن پر پڑی تو مسلم ؓ کی زبان پر تکبیر استغفار اور درودو سلام جاری تھا۔ دھڑمحل کے باہر پھینک دیا گیا۔ لیکن کوفے کو ضمیر موت کی نیند سوچکا تھا…
فرض کی پکار:
ادھر حسینؓ مکے میں مسلم ؓ کے پیغام کے منتظر تھے، ان کا قاص پہنچا، سارا شہر آپ کا منتظر ہے، خط پاتے ہی حضرت حسینؓ نے سفر کی تیاریاں شروع کردیں، ہوتے ہواتے خبر پھیل گئی۔ مکہ اور مدینہ کے لوگ کوفیوں کی غداریوں اور بے وفائیوں سے باخبر تھے۔ حضرت علیؓ اور حضرت حسنؓ کے ساتھ انہوں نے جو کچھ کیا تھا وہ بھی ان کی نظر میں تھا، اس لئے جس نے بھی سنا حسینؓ کوفہ جارہے ہیں، بے چین ہوگیا… اور روکنے کی کوشش کی۔ سب سے پہلے عمرو بن عبد الرحمن ؓ آئے اور عرض کیاــ: ’’میں نے سنا ہے آپ عراق جارہے ہیں، اگر یہ صحیح ہے تو آپ ایسے شہر میںجارہے ہیں جہاں دوسرے کی حکومت ہے اور وہاں اس کے امراء و عمال موجود ہیں۔ جن کے قبضے میںبیت المال ہے۔ عوام دنیا اور دولت کے بندے ہیں اسلئے مجھ کو خوف ہے کہ جن لوگوں نے آپ کی مدد کا وعدہ کیا ہے وہی آپ سے لڑیں گے۔‘‘ حضرت حسینؓ نے اس مخلصانہ مشورہ کا شکریہ ادا کیا۔ پھر عبد اللہ بن عباس آئے اور پوچھا:’’ابن عم، لوگوں یہ خبرگرم ہے کہ آپ عراق جارہے ہیں، کیا یہ صحیح ہے؟‘‘ فرمایا:’’ ہاں عراقیوں نے شامی حاکم کو قتل کرکے شہرپر قبضہ کرلیا ہو اور اپنے دشمنوں کو وہاں سے نکال دیا ہو تو بخوشی تشریف لے جائیے، لیکن اگر معاملہ برعکس ہے، شامی حاکم موجود ہے اس کے احکام نافذ ہوتے ہیں اور اس کے عمال خراج وصول کرتے ہین تو ان لوگوں نے آپ کو محض جنگ کیلئے بلایا ہے، مجھے یقین ہے، وہ آپ سے دھوکا کریں گے اور آپ کو بے یار و مددگار چھوڑدیں گے، جب حکمراں انہیںجنگ کیلئے بلائیں گے، تو آپ کے سب سے بڑے دشمن ثابت ہوںگے۔‘‘
’’میں استخار ہ کروں گا اور دیکھوں گا کہ کیا جواب ملتا ہے؟‘‘
ابن عباس ؓ کے بعد ابن زبیرؓ آئے اور کہا: ’’آپ حجاز یںمقیم رہ کر لوگوں کو اپنی خلافت کی دعوت دیجئے اور اہل عراق کو کہئے کہ وہ آکر آپ کی مدد کریں، ہم لوگ بھی آپ کی ہر قسم کی مدد کریں گے۔‘‘ حضرت حسینؓ نے فرمایاـ: ’’میں نے اپنے والد بزرگوار سے رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان سنا ہے کہ حرم کا ایک مینڈھا ہے جس کی وجہ سے حرم کی حرمت زائل ہوجائے گی،میں وہ مینڈھا بننا نہیں چاہتا۔‘‘
اگلے روز ابن عباس پھر آئے اور کہا ـ:’’ابن عم!میرا دل نہیںمانتا جس راستے پر آپ جارہے ہیں مجھے اس میںآپ کی ہلاکتکا خوف ہے ، عراقی فریبی ہیں آپ ان کے پاس بالکل نہ جائیں،مکے ہی میںرہئے آپ اہل حجاز کے سردار ہیں۔ ہاں وہواقعی آپ کو بلانا چاہتے ہیں توانہیں لکھیئے کہ پہلے اپنے دشمنوں کو نکالو، پھر میں آؤں گا۔ یہاں سے جانا ہی چاہتے ہیں تو یمن چلے جائیے وہ ایک وسیع ملک ہے، وہاں قلعے اور گھاٹیاں ہیں، بالکل الگ تھلگ مقام ہے، لوگ آپ کے باپ کے حامی ہیں۔ وہاں بیٹھ کر اپنی یہ دعوت پھیلا سکیں گے اور آسانی سے اپنا مقصد حاصل کرسکیں گے۔ حضرت حسینؓ نے فرمایا :’’میں جانتا ہوں ، آپ میرے سچے بہی خواہ ہیں لیکن اب میں پختہ عزم کرچکا ہوں۔‘‘ ابن عباسؓ نے فرمایا: ’’اگر نہیںمانتے تو کم از کم اہل و عیال کو ساتھ نہ لے جائیے، مجھے ڈر ہے کہ عثمانؓ کی طرح آپ بھی بال بچوں کے سامنے ذبح کردیئے جائیں گے۔‘‘
لیکن حضرت حسینؓ جو فیصلہ کرچکے تھے، اس پر پہاڑ کی طرح قائم تھے۔ ابن عباسؓ کی کوئی کوشش کارگر نہ ہوئی۔ پھر حضرت ابوبکر بن حارث ؓ آئے اور عرض کی: ’’آپ کے والد ماجد صاحب اقتدار تھے، ان کی طرف مسلمانوں کا عام رجحان تھا، ان کے احکامات پر سرجھکاتے، شام کے سوا تمام ممالک اسلامیہ ان کے ساتھ تھے۔ اس اثر وا قتدار کے باوجود جب وہ معاویہؓ کے مقابلے میں نکلے تو دنیا کی طمع میںلوگوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا، اور ساتھ چھوڑنے ہی پر اکتفا نہ کیا، بلکہ ان کے سخت مخالف ہوگئے اور خدا کی مرضی پوری ہوکر رہی۔ ان کے بعد عراقیوں نے آپ کے بھائی کے ساتھ جو کچھ کیا وہ بھی آپ کے سامنے ہے۔ ان تجربات کے بعد بھی آپ اپنے والد کے دشمنوں کے پاس اس امید کے ساتھ جاتے ہیں کہ وہ آپ کا ساتھ دیں گے۔ شامی بہت زیادہ ہوشیار اور مضبوط ہیں۔ لوگوں کے دلوں میں انکا رعب ہے۔ آپ کے پہنچتے ہی کوفیوں کو لالچ دے دے کر آپ سے توڑ لیں گے اور یہ سگ دنیا سے جا ملیں گے۔ اور آپ کی محبت کے دعوے اور جان لڑادینے کے وعدے بالائے طاق رکھ کر آپ کے دشمن بن جائیں گے۔‘‘مگر ابو بکر بن حارث کا یہ پر زور استدلال بھی حضرت حسینؓ کے عزم راسخ کو نہ بدل سکا۔ آپ نے فرمایا:
’’خدا کی مرضی پوری ہوکر رہے گی۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور دوسرے اصحاب نے بھی روکنے کی کوشش کی لیکن حضرت حسینؓ کو احساس فرض پکار رہا تھا۔ خلافت راشدہ، اور شخصی دخاندانی امریت میں بدل دی گئی تھی اس تبدیلی کو خاموشی سے قبول کرنے کا مطلب یہ تھا کہ اسے ہمیشہ کیلئے سند جواز عطا کردی جائے۔ ملوکیت اور شخصی حکومت کے حامی استدلال کریں گے کہ اگر یہ طرز حکومت کتاب و سنت کے خلاف تھا تو جب نظام خلافت راشدہ تبدیل کیا جارہا تھا تو اس کے لاف کیوں ایک آواز بھی بلند ہوئی تھی اور حضرت حسین ؓ سے زیادہ اور کس پر یہ فرض عائد ہوتا تھا کہ وہ مسلمانوں پر مسلط کئے جانے والے قیصر و کسریٰ کے اس طرز حکومت کے خلاف آواز بلند کرتا۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنے کسی بہی خواہ کے مشورے اور دلیل سے کوئی اثر نہ لیا۔
حضور رسالت مآب کا حکم:
آخر حضرت حسینؓ اپنے اہل بیت کیساتھ مکہ سے روانہ ہوگئے۔ صفاح کے مقام پر پہونچے تو مشہور شاعر فرزدق ملا، جو کہ عراق سے آرہا تھا، اس سے عراق کے حالات پوچھے اس نے کہا : ’’آپ نے ایک باخبر شخص سے حال دریافت کیا ہے۔ لوگوں کے دل تو آپ کے ساتھ ہیں لیکن تلواریں بنو امیہ کے ساتھ ہیں، قضائے الٰہی آسمان سے اترتی ہے، خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’تم نے سچ کہا : للہ الا مریفعل مایشاء و کل یوم ر بنا فی شان۔ اگر خدا کا حکم ہمارے حق میں ہوا تو اس کی اس نعمت پر ہم اس کے شکر گزار ہوں گے۔ شکر گزاری میں وہی مددگار ہے اور اگر خدا کا فیصلہ ہمارے خلاف ہوا، تو بھی ہماری نیت، حق اور تقویٰ ہے۔‘‘
فرزدق سے گفتگو کے بعد قافلہ آگے بڑھا۔ کچھ دور گئے تھے کہ عبد اللہ ابن جعفرؓ کا خط ملا، لکھتا تھا:’’ میں خدا کا واسطہ دیتا ہوں، میرا یہ خط ملتے ہی فوراً لوٹ آئیے۔ مجھے ڈر ہے کہ جہاں آپ جارہے ہیں وہاں آپ کی ہلاکت اور آپ کے اہل بیت کی بربادی ہے اگر خدا نخواستہ آپ ہلاک ہوگئے تو دنیا تاریک ہوجائے گی۔ آپ ہدایت یا بوں کا علم اور مومنوں کا آسرا ہیں۔ سفر میں جلدی نہ کیجئے خط کے بعد میں بھی پہونچتا ہوں۔‘‘
خط بھیج کر عبد اللہ بن جعفرؓ مکہ کے گورنر عمر وبن سعیدؓ سے ملے، اور کہا اپنی جانب سے بھی ایک خط لکھ کر حسینؓ کو واپس بلائیے۔ عمر و بن سعیدؓ نے کہا آپ مضمون لکھ دیں میں اس پر مہر لگادوں گا۔ عبد اللہ ؓ نے عمرو کی طرف سے مندرجہ ذیل خط لکھا:
’’میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کے اس راستے سے پھیر دے۔ جس طرف آپ جارہے ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ آپ عراق جارہے ہیں۔ میں خدا کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ افتراق و انشقاق سے باز آجائے۔ اس میں آپ کی ہلاکت ہے۔ میں آپ کے پاس ، عبد اللہ بن جعفرؓ اور اپنے بھائی کو بھیجتا ہوں۔ ان کے ساتھ لوٹ آئیے میں آپ کو امان دیتا ہوں، آپ کے ساتھ صلہ رحمی اور بھلائی سے پیش آؤں گا۔ آپ کی مدد کروں گا۔ آپ میرے پڑوس میں نہایت اطمینان اور راحت کے ساتھ رہیں گے۔ میری اس تحریر کا اللہ تعالیٰ وکیل اور شاہد ہے۔‘‘
عمر نے اپنی تحریر اپنی مہر ثابت کردی۔ عبد اللہ بن جعفرؓ اور یحیٰ بن عمر دونوں اسے لیکر حضرت حسینؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے خط پڑھا اور فرمایا:
’’میں نے خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی ہے۔ اس میں آپ نے مجھے حکم دیا ہے میں اس حکم کی تعمیل کروں گا۔ خواہ اس کا نتیجہ میرے موافق نکلے یا مخالف ۔ عبد اللہ اوریحییٰ نے پوچھا: ’’وہ کیا خواب تھا؟‘‘ فرمایا : ’’میں نے اسے نہ تو کسی سے بیان کیا ہے اور نہ مرتے دم تک بیان کروں گا۔‘‘
پھر امام حسینؓ نے عمر بن سعیدؓ کے خط کا جواب لکھا: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتاہے، نیک عمل کرتا ہے اور اپنے اسلام کا معترف ہے وہ خدا اور رسول ؐ سے اختلاف کیونکہ کرسکتا ہے۔ تم نے مجھے امان، بھلائی اور صلہ رحمی کی دعوت دی ہے، سنو! بہترین امان اللہ تعالیٰ ک امان ہے۔ جو شخص دنیا میں خدا سے نہیں ڈرتا ۔ خدا قیامت کے دن اسے اپنے سایہ امان میں جگہ نہیں دے گا۔ اس لئے میں دنیا میں خدا کا خوف چاہتا ہوں۔ تاکہ قیامت کے دن اس کے امان کا حقدار بنوں۔ اگر یہ خط واقعی تم نے میرے ساتھ صلہ رحمی اور نیکی کرنے کی نیت سے لکھا ہے تو اللہ تمہیں دنیا و آخرت دونوں میں جزائے خیر دے۔‘‘
(جاری)

تبصرے بند ہیں۔