کرومہربانی تم اہلِ زمیں پر!

مفتی محمدصادق حسین قاسمی

 دنیا میں بسنے والے ان گنت انسان اپنے مفاد کی دوڑ دھوپ میں رہ سکتے ہیں ،اور مادیت کی گہماگہمی میں صبح و شام بسر کر سکتے ہیں، نہ انہیں حالات کی فکر اور نہ گر و پیش کا احساس ۔لیکن ایک مومن دنیا میں انسانیت فراموشی کی زندگی نہیں گذارسکتااور بندگانِ خدا کو بھول کر سفینۂ حیات کو آگے نہیں بڑھا سکتا ،کیوں کہ اس کو جس سانچے میں ڈھا لا گیا، جن تعلیمات سے آراستہ کیا گیا اور جس درد و احساس کی متاع ِ گراں مایہ سے نوازا گیاوہ کبھی اس کو مفادات کی حد تک کوشش کرنے والا اور اپنی ہی زندگی کو چمکا نے والا نہیں بنا سکتی۔ایک مسلمان کو تو انسانی ہمدردی و غم خواری کا خوگر بنایا گیا،دوسروں کے لئے تڑپنے والا اور دوسروں کی مجبوریوں کو سمجھنے والا بنایا گیا۔قرآن و حدیث میں اس کی بہترین تعلیم وتربیت کی گئی،اور ہمدردی و غم خواری کی فضیلتیں بیا ن کی گئیں تاکہ ہر مومن اسی آئینہ میں اپنی زندگی کو سنوارے اور انسانیت کے کا م آکر پروردگار کی خوشنودی حاصل کرنے والا بنے۔

 ہمیں ہمارے دین نے جہاں بہت ساری تعلیمات سے نوازا ہے اور ہمارے نبی ﷺ نے زندگی کے طور طریق سے آگاہ کیا ہے وہیں اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺکا ایک احسان انسانیت پر اور بالخصوص اہل ِ ایمان پر یہ بھی ہے کہ انہیں انسانی ہمدردی وغم خواری ،اخوت اور محبت کی بیش قیمت تعلیمات سے آراستہ کیا ہے۔ ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھنے اور اس کو دورکرنے کی فکر وسعی کرنے کی ہدایات دی ہے۔انسانیت کی خیر خواہی اور بھلائی چاہنے اور راحت رسانی کے لئے تگ ودو کرنے پر اجر وثواب کے بے شمار وعدے فرمائے ہیں ۔اسلام انسانوں کو خود غرضی کی زندگی گزارنے کی بالکل بھی اجازت نہیں دیتا بلکہ اسلام نے دوسروں کے کام آنے کو بہت بڑاکارِ ثواب بتلایا ہے اور دوسرے لئے جستجو کرنے والوں کو عظیم انسان قراردیا ہے۔ہمارے نبی سرور دوعالم ﷺ کی عظیم المرتبت شخصیت نے عملی طور پر انسانیت کی ہمدردی کا بے مثال نمونہ پیش کیا۔ہر پریشان حال کی پریشانی کو دورکرنے، مصیبت زدوں کو آرام پہنچانے،مبتلائے آلام کو راحت دلانے،غریبوں ،مجبوروں ،بیماروں کی مددکرنے میں ہر وقت آگے آگے رہ کر انسانیت کو درس وتعلیم دی کہ بہترین انسان وہ ہے جو مخلوقِ خدا کی خدمت میں لگارہے۔

   اللہ تعالی نے ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے جو رشتہ ہے اس کو بیا ن کرتے ہو ئے فرمایا کہ :حقیقت تو یہ ہے کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں ۔( الحجرات:10)نبی کریم ﷺ نے اپنے مبارک ارشادات میں اس کی مزید اہمیت کو اجا گر کرتے ہوئے فرمایاکہ:ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے تعلق ایک مضبوط عمارت جیسا ہے ،اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط کرتا ہے،پھر آپ ﷺنے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے میں داخل کر کے بتایا ۔( بخاری:461) آپ ﷺنے یہ فرمایا کہ : سب مسلمان ایک جسد ِواحد کی طرح ہیں ،اگر اس کی آنکھ دکھے تو اس کا سارا جسم دکھ محسوس کرتا ہے ،اسی طرح اس کے سر میں تکلیف ہو تو بھی تمام بدن تکلیف میں شریک ہوتا ہے۔(مسلم:4693) مطلب یہ کہ پوری امت مسلمہ گویا ایک جسم و جان والاوجود ہے ،اس کے افراد اس کے اعضاء ہیں ،کسی ایک عضو میں اگر تکلیف ہو تو اس کے سارے اعضاء تکلیف محسوس کرتے ہیں ،اسی طرح پوری ملت اسلامیہ کو ہر مسلمان فرد کی تکلیف محسوس کرنی چاہیئے ،اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا چا ہیے ۔( معارف الحدیث: 6/129)

مولانا ابو الکلام آز ؒ نے اپنے انداز میں فرمایا کہ:میدان جنگ میں اگر کسی ترک کے تلوے میں ایک کانٹا چبھ جائے ،توقسم خدائے اسلام کی کہ کوئی ہندوستان کا مسلمان ،مسلمان نہیں ہوسکتا ،جب تک وہ اس کی چھبن کو تلوے کی جگہ اپنے دل میں محسوس نہ کرے،کیون کہ ملت اسلام ایک جسم واحد ہے اور مسلمان خواہ کہیں ہون ،اس کے اعضاء وجوارح ہیں ۔(خطبات ِ آزاد: 18)اس طرح اسلام نے مسلمانو ں کو ایک لڑی میں پرویا ،اور تمام سرحدوں اور دوریوں کو مٹاکر اخوت و الفت کے کبھی نہ ختم ہونے والے رشتہ میں جوڑا۔

ساری دنیا کی مخلوق خداکی بنائی ہوئی ہے ،تمام انسان اللہ تعالی کے بندے ہیں ،اس بنیاد پر ہر ایک سے محبت کرنا اورہر ایک سے شفقت کا معاملہ کرنا بھی ایمان کی پہچان ہے ،کیوں کہ مومن کسی سے محبت کر تا ہے تو بھی اللہ کے لئے اورکسی سے بغض رکھتا ہے تو بھی اللہ کے لئے۔(بخاری:623) اور انسانی ہمدری و غم خواری بھی اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب دل میں مخلوق کی محبت ہو، اسی کو دلوں میں جا گزیں کر نے کے لئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ:تم زمین والوں کے ساتھ رحم کا معاملہ کرو ،آسمان والا تم پر رحم فر مائے گا۔(ابوداؤد:4292)اور دوسری جگہ فرمایا کہ :اس شخص پر اللہ کی رحمت نہیں ہو تی ،جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا ۔(بخاری:6852)

جب مسلمان ان تما م او صاف کا حامل ہو گا ،وہ آپسی ایمانی رشتہ کو سمجھنے والا ہو،پسند و ناپسند میں یکساں سوچنے والا ہو،اور خلقِ خدا کی محبت بھی دل میں ہو تو پھر یقینا وہ ہمدردی و غم خواری میں برابر شریک رہے گا ،اور اس با ت کا ثبوت دے گا کہ:

 ؎ خنجر چلے کسی پر تڑ پتے ہیں ہم امیر   

  سارے جہا ں کا درد ہمارے جگر میں ہے

اسی کو نبی کریم ﷺ نے اپنے مختلف ارشادات میں بیا ن فرمایا،ایک جگہ فرمایاکہ:ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے،(اس لئے) نہ خود اس پر ظلم کرے ،نہ ظلم کا نشانہ بننے دے،جو کوئی اپنے ضرورت مند بھائی کی حاجت پوری کرے گا،تو اللہ تعالی اس کی حاجت روائی کرے گا،اور جو کوئی کسی مسلمان کو تکلیف و مصیبت سے نجات دلائے گا ،اللہ تعالی ا س کو قیامت کے دن کی مصیبت و پریشانی سے نجات عطا کرے گا،اور جو کسی مسلمان کی پردہ داری کرے گا ،اللہ تعالی قیامت کے دن اس کی پردہ داری کرے گا۔(مسلم:4683)ایک جگہ فرمایا کہ : جس کو مسلمانوں کے مسائل و معاملات کی فکر نہ ہو وہ ان میں سے نہیں (مخلص ایمان والوں میں سے نہیں )(المعجم الصغیر للطبرانی:909)

آپ ﷺنے ہمدردی ہی کی تعلیم دیتے ہو ئے فرمایا کہ :ایک مسلمان کی دعا اپنے بھائی کے حق میں غائبانہ قبول ہوتی ہے،اور ایک فرشتہ اس کے پا س آمین کہتا ہے اور کہتا ہے کہ جو خیر اس نے اپنے بھائی کے حق میں مانگا اللہ اسے بھی عطاکرے۔(ابن ماجہ: 2890) علامہ ابن القیم جوزی ؒ نے لکھا ہے کہ : جس کا ایمان جتنا قوی ہوگا اتنی اس کے اندر ہمدردی زیادہ ہو گی ،اور جس کا ایمان جتنا کمزور ،اس کی ہمدری بھی اتنی کمزور ہوگی،اللہ کے نبی ﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ سب سے زیا دہ ہمدردی و غم خواری کرنے والے تھے۔( المجموع ا لقیم من کلام ابن القیم :1/535)آ پﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ :جو مسلمان کسی مسلمان کو عریانی کی حالت میں کپڑے پہنائے اللہ تعالی اس کو جنت میں سبز جوڑے عطا کرے گا ،جو مسلمان کسی مسلمان کو بھو ک کی حالت میں کھانا کھلائے تو اللہ تعالی اس کو جنت میں پھل اور میوے کھلائے گا،اور جوکوئی کسی پیاسے مسلمان کو پانی پلائے اللہ تعالی اس کو نہایت نفیس شراب ِ طہور پلائے گا جس پر مہر لگی ہوئی ہوگی۔(ترمذی :2386)

لمحہ ٔ فکریہ:

اس وقت ہمارے ملک کے ایک بڑے صوبے بہار میں زبردست سیلاب آیا ہوا ہے ،جس نے قیامت خیز تباہی مچارکھی ہے ،لاکھوں انسان بے گھر ہوچکے ہیں ،بہت سے موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں ،کئی شہر اور دیہات پانی میں ڈوب چکے ہیں ،بہت سے اپنے اپنوں سے بچھڑچکے ہیں ،ہر طرف پانی اور سیلاب کا ہوش ربا منظر ہے ،اور لوگ بنیادی ضرورتوں کے نہ ہونے کی وجہ سے پریشانی کے عالم میں ہیں ، چاروں طرف پانی نے گھیرلیا، بچے ، بوڑھے، مرد عورت سبھی سخت ترین آزمائش سے گزررہے ہیں۔ ایک ایسا تکلیف دہ منظر نگاہوں کے سامنے ہے کہ جس سے انسانیت تڑپ اٹھے اور دلوں میں جذبہ ٔ ہمدردی بے چین ہوجائے۔م ختلف لوگ اور جماعتیں راحت رسانی کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔

بلاشبہ بہار کا یہ سیلاب پورے ملک اور اس کے تمام شہریوں کو غمگین کردیا ہے ،پریشان حال اور مصیبت زدہ لوگوں کی حالت ِ زار نے ہر کسی کو مضطر ب کردیا ہے۔ ان سخت حالات میں ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بساط کے مطابق سیلاب متاثرین کی راحت کے لئے فکر وکوشش کرے ،مشکل کے اس بھنور سے نکالنے اور ان کی مد د کرنے کے لئے ہر ممکنہ تگ ودو میں لگ جائے ،یہ انسانیت کا تقاضا ہے،اخوتِ ایمانی کا مطالبہ ہے اور بلا تفریق مذہب ہمدردی وغم خواری کی پکار ہے۔ہم آگے بڑھیں اور جو ہم سے ہوسکتا اس کو کرنے کے لئے تیار ہوجائیں ،مشکل کی اس گھڑی میں انسانوں کے کام آنے اور انہیں کسی طرح راحت پہنچانے کے لئے میدان ِ عمل میں جدوجہد کریں ۔اللہ ان تمام پریشان حالوں کی مدد فرمائے اور راحت وعافیت نصیب فرمائے۔

 ؎   کروم مہربانی تم اہل ِ زمیں پر

   خدا مہرباں ہوگا عرش ِ بریں پر

تبصرے بند ہیں۔