کرچیاں میرے خوابوں کی‎

اویس علی

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے "عرفت ربی بفسخ العزائم ”  میں نے اپنے رب کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے ہی پہچانا ہے ، انسان کتنے ہی نقشے بناتا ہے لیکن رنگ بھرنے سے پہلے ہی وہ نقشے خاک میں مل جاتے ہیں، ایک باغباں محنت و جانفشانی سے اپنے گلستاں  کو پروان چڑھاتا ہے لیکن بہار کی شادابیوں سے پہلے ہی اس پر خزاں کی ویرانیاں مسلط ہو جاتی ہیں ، روزانہ طلوع آفتاب کے ساتھ کتنے ہی خوابوں کی کرچیاں اس عالم رنگ و بو میں بکھر جاتی ہیں ، میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔

عمر رواں کا سولہواں سال تھا،  پہلی مرتبہ بیت بازی میں شرکت کا موقع مل رہا تھا ،اکثر وقت لائبریری میں ہی گزرتا ، ایک صبح شعر و ادب کے خانہ میں کتابیں دیکھ رہا تھا کہ اس دشمن جاں سے ملاقات ہوئی ،  عجیب سحر زدہ شخصیت تھی ، خوبصورتی تو بلا کی تھی لیکن معلوم ہوتا تھا کہ چودھویں کے چاند کو گہن لگ گیا ہو ، میں نے ہمت کرکے پوچھا کہ حضور ہوا کیا ہے؟
جواب آیا

"میرا حال پوچھ کے ہم نشیں میرے سوز دل کو ہوا نہ دے
بس یہی دعا میں کروں ہوں اب کہ یہ غم کسی کو خدا نہ دے”

مجھے حیرت ہوئی کہ بھلا ایسا کیا ہوسکتا ہے ؟ میری عقل نارسا میں تو کچھ نہیں آ رہا ؟
ارشاد ہوا

"ابھی تیرا دور شباب ہے ابھی کیا حساب و کتاب ہے ابھی کیا نہ ہوگا جہان میں ابھی اس جہاں میں ہوا ہے کیا ؟”

عرض کی کہ نام تو بتا دیں

آواز آئی

"یہی ہم نوا یہی ہم سخن یہی ہم نشاں یہی ہم وطن
میری شاعری ہی بتائے گی میرا نام کیا ہے پتہ ہے کیا؟ "

تجسس پر تجسس آخر کار ہمت کرکے ایک غزل کی فرمائش کر ہی دی
لب کچھ اس طرح وا ہوئے

مری شاعری میں نہ رقص جام نہ مے کی رنگ فشانیاں
وہی دکھ بھروں کی حکایتیں وہی دل جلوں کی کہانیاں
یہ جو آہ و نالہ و درد ہیں کسی بے وفا کی نشانیاں
یہی میرے دن کے رفیق ہیں یہی میری شب کی روانیاں
یہ مری زباں پہ غزل نہیں میں سنا رہا ہوں کہانیاں
کہ کسی کے عہد شباب پر مٹیں کیسی کیسی جوانیاں
کبھی آنسوؤں کو سکھا گئیں مرے سوز دل کی حرارتیں
کبھی دل کی ناؤ ڈبو گئیں مرے آنسوؤں کی روانیاں
ابھی اس کو اس کی خبر کہاں کہ قدم کہاں ہے نظر کہاں
ابھی مصلحت کا گزر کہاں کہ نئی نئی ہیں جوانیاں
یہ بیان حال یہ گفتگو ہے مرا نچوڑا ہوا لہو
ابھی سن لو مجھ سے کہ پھر کبھو نہ سنو گے ایسی کہانیاں

غزل کیا تھی مرغ نیم بسمل کی آواز تھی ، پھر ایک سوال زبان پر آگیا کہ حضور کا مشغلہ کیا ہے ”
ارشاد ہوا
” جہاں غم ملا اٹھایا پھر اسے غزل میں ڈھالا
یہی درد سر خریدا یہی روگ ہم نے پالا”
کلام میں اتنا درد آخر آیا کیسے؟
جواب ملا
"وہ جو شاعری کا سبب ہوا وہ معاملہ بھی عجب ہوا
میں غزل سناوں ہوں اس لیے کہ زمانہ اس کو بھلا نہ دے”
آگے ارشاد ہوا کہ

یہ 28 اکتوبر سنہ 1946 کی تاریخ تھی میں اپنی آبائی بستی سے دور تھا خبر آئی کہ بستی میں ہندو مسلم فسادات شروع ہوگئے ہیں، ہزار کوششوں کے باوجود وہاں نہ پہنچ سکا جب پہنچنے کا انتظام ہوا تو ایک قاصد نے خبر دی کہ میاں اب کہاں جا رہے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ بستی ختم ہوگئی۔۔۔۔۔۔سب مکان جل گئے ۔۔۔۔۔۔۔سب شہید ہو گئے ۔۔
دوسرے دن ایک ملٹری ٹرک کچھ زخمیوں کو کیمپ لایا میں نے پورے میں افراد خانہ کو تلاش کیا لیکن کوئی نا ملا آخر کار تیسرے روز ایک ٹرک لے کر ملٹری والوں کے ساتھ بستی پہنچا سامنے ہی جامع مسجد پر نظر پڑی  گویا مسجد پکار پکار کر رہی ہو ۔۔۔۔۔۔آنے والوں دھیرے آو ۔۔۔۔۔بلکہ نہ آو ۔۔۔۔
آہستہ خرام بلکہ مخرام
زیر قدمت ہزار جاں است

کیوں آتے ہو ۔۔۔۔۔وہیں سے سنو ۔۔۔۔۔  بتاؤں گی ۔

ہوشیاروں کو نہیں معلوم راز فصل گل
مجھ سے پوچھوں میں اسی موسم میں دیوانہ بنا۔

میرے پتھر کی دیواروں میں شرارے رقصاں ہیں ، میں تمہیں زبان دوں گی ، لیکن تم کیا سمجھوگے اور کیا سمجھاوگے؟

ادا کیوں کر کرینگے چند آنسو دل کا افسانہ
بہت دشوار ہے جتنا سمجھنا اتنا سمجھنا

تین دن تک میرا پہلو ہمیشہ آباد رہا میرے ہم نشیں سر وتن کے نذارانے پیش کرتے رہے ۔
وہ آگے مزار دکھ رہا ہے نا اس کے پاس ایک کنواں ہے اس کو کنواں نہ کہو وہ گنج شہیداں ہے
خبر دار سنبھل کر قیامت گزر جائے لیکن اف نہ کرنا کیونکہ آگے جاکر تمہیں کہنا ہے

"غزل جو سنتا ہے میری عاجز وہ مجھ کو حیرت سے دیکھتا ہے
کہ دل پر گزری کیا قیامت مگر جبیں پر شکن نہیں ہے”

ہاں اسی گنج شہیداں میں تمہاری پیاری اماں بھی ہیں اور تمہاری منی بھی ۔۔۔۔دیکھو دیکھو اماں کہ رہی ہیں کلیم تم آگئے ؟ تم آگئے ہو تو جی چاہتا ہے چھدے ہوئے سینے اور کٹی ہوئی گردن سے تمہیں گلے لگالوں ، لیکن یہ آداب فنا کے خلاف ہے ،جاو بیٹا اب میں تمہارے خیالوں اور نگاہوں میں رہوں گی ، تم کم سخن تھے اب سخنور ہوگے ، میری خاک اس کنویں میں تمہاری آواز سنے  گی
اور تم کہوگے

درد مند عشق ہیں غم سے نہ گھبرائنگے ہم
شاعری کرتے رہینگے اور مرجائنگے ہم
اب کے پھر برسات میں گنج شہیداں پر چلیں
آسماں روئے گا اور اپنی غزل گائنگے ہم۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔
۔۔۔۔ہاں تو بیت بازی والے صاحب
سمجھ میں آیا شاعری کا سبب

ابھی میں کچھ کہتا کہ لائبریرین نے آواز دی ، "وقت ختم ہوگیا ”
، میں نے کتاب "وہ جو شاعری کا سبب ہوا”  اشو کروائی اور اپنے روم پر آگیا ، کلام دیکھنا شروع کیا تو محسوس ہوا کہ ان کی شاعری میں دکھ ہے،  درد ہے ، محبت ہے، سوزدروں ہے ، کسک اور چوٹ سے بجنے والا ساز ہے  ، نہ تصنع ہے نہ آورد ہے ، نہ عشق کی مصنوعی دیوانگی ہے، جو کچھ ہے آپ بیتی ہے ، کچھ غزلوں میں تو یوں  لگتا ہے جیسے کسی بسیط و عریض صحرا میں کوئی زخمی فرشتہ فریاد کر رہا ہے، سسکیاں بھر رہا ہے

کلیم عاجز سے عشق کی جڑیں روز بروز مظبوط ہوتی جا رہی تھیں روزانہ رات کو ان کا کلام ضرور پڑھتا اور آتش شوق کو ذرا سکون پہنچاتا ۔ جنوری 2015 کا مہینہ اپنے اختتام کو تھا اگلے مہینہ کی آخری تاریخوں میں امتحان مکمل ہوجانے تھے ، گھر والوں سے مشورہ کے بعد عظیم آباد سفر کا مکمل ارادہ تھا دن دھیرے دھیرے گزر رہے تھے  کہ 16 فروری کی ایک درد انگیز صبح کو یہ خبر سنی کہ حضرت عاجز اس دار فانی سے کوچ کر گئے ، خبر تھی کہ ایک زہر آلود چھری جو میرے حلقوم میں گڑ گئی ملاقات کے راز و نیاز کے سارے خواب کرچی کرچی ہوگئے اور ذہن میں دور کہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد گرامی گونج رہا تھا کہ عرفت ربی بفسخ العزائم۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔