کرکے برباد مجھے پیار جتانے والا

احمد علی برقی ؔاعظمی

کرکے برباد مجھے پیار جتانے والا

میرا قاتل ہے وہی اشک بہانے والا

۔

وقت اب اس کو بتادے گا یہ آنے والا

خوش رہے گا نہ مجھے چھوڑ کے جانے والا

۔

خود بھی گِر سکتا ہے نظروں سے گِرانے والا

کرکے بدنام مجھے نام کمانے والا

۔

کامرانی کا جو ہے جشن منانے والا

خود نہ جل جائے مرے گھر کو جلانے والا

۔

کر سکا جو نہ وفاؤں کامری پاس و لحاظ

وہ کسی کا بھی نہیں ساتھ نبھانے والا

۔

غمزہ و ناز و ادا سے نہ رجھائے مجھ کو

اور جھانسے میں نہیں اس کے میں آنے والا

۔

دل میں کچھ اور ہے اس کے تو زباں پر کچھ اور

سامنے مجھ سے ہے جو ہاتھ ملانے والا

۔

دیکھتا کیوں نہیں آئینے میں اپنا چہرہ

مسخ تصویر مری سب کو دکھانے والا

۔

ناخدا سے یہ کہو خیر منائے اپنی

موجِ طوفاں میں ہے اللہ بچانے والا

۔

ہیں سبھی پیٹ کے بندے یہ رکابی مذہب

وقت پر کام نہیں کوئی بھی آنے والا

۔

کہتے ہیں قادرِ مطلق جسے دنیا والے

ہے وہی صفحۂ ہستی سے مٹانے والا

۔

وقت یکساں نہیں رہتا ہے سبھی کا برقیؔ

خود کو محفوظ نہ سمجھے وہ ستانے والا

تبصرے بند ہیں۔