کسب حلال کی اہمیت

 مولانا شمس الہدی قاسمی

(جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا، مہاراشٹرا)

اسلام کی خوبی یہ ہے کہ انسانی زندگی کے تمام تر گوشوں  کے حوالے سے واضح ہدایات پیش کرتا ہے، اب وہ چاہے سماجی ہو، معاشی ہو، روحانی ہو یا پھر اخلاقی گوشے ہوں۔ خالق کائنات کی عبادت کرنا یا پھر اس پاک ذات کے ذکر وفکر میں مشغول رہنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ "دنیا” کو ایک کنارے کردیں اور گوشہ نشیں ہوجائیں یا پھر جنگل میں جاکر زندگی بسر کرنے لگیں۔ اسلام نظام زندگی کے حوالے سے ایک واضح تصویر پیش کرتا ہے۔ حضرات انسان کو اس کے مطابق جینے اور زندگی گزارنے کی رہنمائی کرتا ہے۔ جہاں اسلام میں یہ ہدایت محفوظ ہے کہ حضرات انسان وجنات کو صرف اللہ جل شانہ کی عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے، وہیں اسلام انسان کے کندھے پر جائز طریقے سے حلال رزق کمانے کی بھی ذمہ داری عائدکرتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے: ترجمہ:  پھر جب نماز  پوری ہوجائے؛ تو زمین میں منتشر ہوجاؤ، اور اللہ کا فضل تلاش کرو، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، تاکہ تمھیں فلاح نصیب ہو۔ (سورۃ الجمعہ)

ایک دفعہ کی بات ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں کچھ حضرات نماز سے فراغت کے بعد، مسجد کے کونے میں بیٹھ کر، اپنی ان مرادوں کے پوری ہونے کا انتظار کر رہے تھے جن کے حوالے سے انھوں نے اپنے پاک پرور دگار سے دعا کی تھی۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس کا علم ہوا کہ کچھ لوگ دعا کے بعد مسجد میں امید لگائے بیٹھے ہیں ؛ تو آپ رضی اللہ عنہ ان پر کوڑے برسانے کو تیار ہوگئے اور ان کو قرآن کریم کی آیت: ﴿فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللهِ کی یاد دہانی کرائی۔ اس کا ترجمہ ابھی آپ نے پچھلے پیرا گراف میں ملاحظہ فرمایا۔

تقوی اور روحانیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دنیوی زندگی کو خیر باد کہہ کر، اسباب اور ذرائع کو پس پشت ڈال کر، اللہ تعالی یا کسی اور پر اعتماد کرلیا جائے۔ اسلام نے کبھی بھی تنگ دستی اور غربت وافلاس کی حوصلہ افزائی نہیں کی ہے؛ بل کہ اس نے اس کا بہترین حل پیش کیا ہے۔ اسلام میں زکوٰۃ کا نظام ہے۔ زکوٰۃ اسلام کے پانچ ستون میں سے ایک ہے۔ زکوٰۃ اس وقت تک ایک مسلمان پر واجب نہیں ہوسکتی جب تک کہ آپ شریعت مطہرہ کے ذریعے بیان کردہ "نصاب یا مال مقررہ”  کے مالک نہ بن جائیں۔ یہ بھی بدیہی بات ہے کہ مال ودولت بغیر مخلصانہ کوشش اور مستقل تگ ودو کے حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ حج پر بھی غور کیجیے! حج بھی اسلام کے پانچ ستون میں سے ایک ہے۔ اس کی ادائیگی کے لیے بھی مال کی ضرورت ہے۔ بغیر مال کے آپ حج بھی ادا نہیں کرسکتے ہیں۔ یہ اسلامی فرائض مسلمانوں سے اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کسب حلال کی میں لگے رہیں۔ اس حقیقت کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ آج متعدد خیراتی ادارے اور تنظیمیں عام طور پر اہل خیر کے تعاون سے ہی اپنے مختلف عظیم تعلیمی ورفاہی سرگرمیوں کو منظم طریقے سے انجام دیتے ہیں۔

حضرت شقیق بلخی رحمہ اللہ کی ایک مشہور کہانی کا ذکر یہاں کرنا فائدہ سے خالی نہ ہوگا۔ ایک بار حضرت بلخیؒ تجارتی سفر پر جانے والے تھے اور چند مہینوں بعد واپسی کا ارادہ کر رہے تھے؛ لہذا بلخیؒ نے ان سے ملاقات کرنا چاہا۔ ملاقات کے بعد، انھوں نے اپنے سفر کا آغاز کیا، مگر غیر متوقع طور پر صرف چند دنوں بعد لوٹ آئے۔ جب ابراہیمؒ نے ان کو مسجد میں دیکھا؛ تو تعجب سے ان سے پوچھا کہ وہ سفر تجارت سے کیوں واپس چلے آئے؟ بلخیؒ نے جواب دیا کہ ان کو راستے پر ایک عجیب وغریب واقعہ کے مشاہدہ کا موقع ملا؛ لہذا انھوں نے گھر واپسی کا ارادہ کرلیا۔ جب وہ بیابان میں آرام کرنے کے لیے اپنا خیمہ کھڑا کرچکے تھے؛ تو انھوں نے ایک پرندہ کو بغیر آنکھوں کے دیکھا جو اڑ بھی نہیں سکتا تھا۔ بلخیؒ نے مزید کہا: "میں نے سوچا کہ یہ پرندہ کیسے اپنی زندگی اس صحرا میں گزارتا ہے؟ اسی دوران میں نے ایک دوسرے پرندہ کو دیکھا کہ وہ اپنی چونچ میں کچھ لیے ہوئے پہلے والے اندھے پرندہ کے پاس آیا اور جو کچھ خوراک تھی اسے اس کے سامنے رکھ کر  چلتا بنا۔ دوسرے پرندہ اس کے پاس آیا جب تک کہ وہ پرندہ اس سے آسودہ ہوچکا تھا۔ ” پھر بلخیؒ نے ابراہیمؒ سے کہا: "اگر اللہ تعالی صحرا میں پڑے ایک اندھے پرندہ کو خوراک مہیا کرسکتا ہے؛ تو وہ عظیم ذات ہم انسانوں کو کیسے بھول جائے گی! اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ رزق کی تلاش میں اِدھر اُدھر کی ٹھوکڑیں کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اپنے سفر کو اسی وجہہ سے موقوف کرکے، گھر واپس آگیا۔ "

حضرت ابراہیم ؒ نے حضرت شقیق بلخیؒ سے کہا کہ انھوں نے اس پرندہ کے واقعہ سے جو نتیجہ نکالا ہے، اس سے ان کو بڑی مایوسی ہوئی کہ انھوں نے کیسے ایک معذور، اندھے پرندے کی طرح بننا تو پسند کیا، مگر اس پرندہ کی طرح بننا پسند نہیں کیا جس نے خود اپنے کھانے کا انتظام کیا اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے معذور پرندے کے کھانے کا بھی انتظام کیا۔ انھوں نے ان کو یہ بھی یاد کرایا کہ "اوپر والا ہاتھ، نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے”۔ حضرت بلخیؒ نے ابراہیمؒ کو بغور سنا اور ان کو ہاتھوں کو بوسہ دیا اور کہا کہ آپ نے میری آنکھیں کھول دی۔ اس کے بعد، حضرت بلخیؒ نے پھر اگلے دن سفر تجارت شروع کیا۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا: قریب ہے کہ فقر کفر کا سبب بنے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود کفر اور غربت وافلاس سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے۔ غربت وافلاس کی وجہہ سے لوگ بڑے بڑے گناہ اور بد اعمالیوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔ تنگ دستی کی وجہہ سے معاشرہ بد اخلاقی اور بے ایمانی کا شکار ہوجاتا ہے۔

آج بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کو ایک بامقصد اور منظم زندگی گزارنی چاہیے اور ہمیں سماج کی ترقی کے لیے اعلی تعلیمی اہلیت کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے جو زندگی کے ہر موڑ پر کام آسکے اور ہمیں معاشرہ میں دوسروں کے لیے مشعل راہ ہونا چاہیے۔ ہمیں کسب رزق حلال کے لیے دنیوی اعتبار سے مکمل ہم آہنگ ہوکر جائز اور قانونی ذرائع کو اختیار کرنا چاہیے اور ہمیں کسی بھی میدان میں کام کرنے میں تکلف نہیں کرنا چاہیے۔ جس طرح سے حکومتی ادارے مسلمانوں کے تعلیمی اور معاشی پس ماندگی کی رپورٹ پیش کر رہے ہیں، ہمیں اس پر سنجیدگی سے غور وفکر کرکے اپنا لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے ہیں ؛ تو ہماری صورت حال دن بہ دن اور بدترین ہوتی چلی جائے گی۔

 ہمیں اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے بالآخرہمارا مقصد ہمیشہ رضائے الہی ہونا چاہیے۔ زندگی کے ہر مور پر، ہمیں اپنی ہدایت ورہنمائی کے لیے خدائی احکام سے روشنی حاصل کرنی چاہیے۔ ہم تجارت کے میدان میں بھی قدم رکھتے ہیں ؛ تو ہمارا رول موڈل ہمارے پیارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی ذات بابرکات ہونی چاہیے، تب ہی ہم دنیا وآخرت میں کام یابی حاصل کرسکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔