کسب حلال کے ساتھ پاکیزہ رزق کا حصول

ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری

          دین اسلام نے روزی کمانے سے متعلق چند قیود و حدود مقرر فرمائے ہیں جن کی رعایت کرنے سے انسان کی روزی میں برکت اور انسانی معاشرے میں خوشحالی آتی ہے۔ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں اشیاء خورد و نوش میں ظاہری صفائی و نفاست کا خاص خیال رکھا جانے لگا ہے لیکن باطنی خرابیوںکی طرف آج بھی بہت کم توجہ دی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ آج بھی بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو حلال و حرام میں تمیز نہیں کرتے۔ دولت جمع کرنے کو اپنی زندگی کا بنیادی مقصد سمجھتے ہیں اسی منفی ذہنیت اور سوچ کا نتیجہ ہے کہ دنیا میں امیر و غریب کے درمیان کا فاصلہ روز افزوں بڑھتا ہی جارہا ہے جو جرائم کی شرح اور فتنہ و فسادکے واقعات میں اضافہ کی بنیادی وجہ ہے۔ تو دوسری طرف دین اسلام کی انسانیت نواز تعلیمات ہیں جو اپنے پیروکاروں کو نہ صرف حلال و حرام میں تمیز کرنا سکھاتی ہیں بلکہ حلال ذرائع سے رزق کمانے کا سلیقہ بھی سکھاتی ہیںجسے پاکیزہ رزق کہا جاتا ہے۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ جو چیز شرعاً حلال اور طبعاً مرغوب ہو اس کو طیب کہتے ہیں۔ جو لوگ حلال و پاکیزہ غذا کے حصول میں مصروف و منہمک رہتے ہیں اللہ تعالی انہیں مستجب الدعوات بنادیتا ہے۔ علاوہ ازیں حلال و طیب خوراک انسان کو اعمال صالحہ کی طرف مائل کرتی ہے جس کے بغیر حیاتِ طیبہ کا تصور کرنا بھی محال ہے۔ انسانی وجود جسم و روح کا مرکب ہے اسی لیے اس کے لیے لازم ہے کہ وہ حلال و طیب غذا و اشیاء استعمال کرے اور جو لوگ حلال و پاکیزہ غذا استعمال نہیں کرتے وہ بدنی و روحانی امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے قرآن مجید نے ہمارے لیے حلال و پاکیزہ رزق کو لازم قرار دیا ہے۔ اسی آیت پاک کے دوسرے حصے میں قرآن مجید نے ہمیں خطوات الشیاطین سے اجتناب کرنے کا حکم بھی فرمایا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حلال اور پاکیزہ رزق سے وہی محروم رہتا ہے جو شیطان اور جو شیطانی طریقۂ واردات کی اتباع و پیروی کرتے ہیں اس طرح وہ جسمانی و روحانی فوائد سے محروم ہوکر دنیاوی نقصان اور اخروی خسران کے حقدار بن جاتے ہیں۔

حلال اور طیب کا بنیادی فرق یہ ہے کہ حلال حرام کے مقابل اور طیب خبیث کی ضد کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ حلال و طیب کا دوسرا فرق یہ ہے کہ لفظ حلال کسی شئی کے شرعی حکم کو ظاہر کرتا ہے جبکہ لفظ طیب کسی شئی کی حقیقت کو واضح کرتا ہے۔ حلال اور طیب کے فرق کو اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ہر طیب حلال ہے لیکن ہر حلال طیب نہیں ہے مثال کے طور پر میوہ جات کا استعمال حلال ہے لیکن زیادہ دن گزرنے کے بعد میوہ جات خراب ہونے شروع ہوجاتے ہیں اب ان کا استعمال طیب نہیں رہتا اگرچہ وہ حلال ہیں۔ امام راغب اصفہانی کے مطابق طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس اور نفس دونوں لذت وفرحت حاصل ہو۔ اور شریعت کی رو سے ’’الطعام الطیب‘‘ یعنی پاکیزہ کھانا اس کو کہا جاتا ہے جو جائز طریق، جائز جگہ اور جائز اندازہ سے لیا جائے۔ یہ عمل انسان کے حق میں دنیا و عقبی دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگا ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان دہ ثابت ہوں گی۔مسلم معاشرے پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہعموماً مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ حلال اور طیب ہم معنی الفاظ ہیں جبکہ یہ قرآن مجید کی دو مختلف اصطلاحیں ہیںجو مختلف معنی و مفہوم کے اظہار کے لیے مستعمل ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ  آج ہم رزق حلال کے حصول کے لیے ضرور فکرمند نظر آتے ہیں لیکن بہت کم لوگ ایسے ہیں جو پاکیزہ رزق کے حصول پر اپنی توجہات مرکوز کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بازار میں دستیاب ہونے والی اشیاء پر حلال لکھا ہوا ہوتا لیکن اسی شئی پر حلال و طیب لکھا ہوا آج تک نہیں دیکھا۔ طیب وہ چیز ہے جو حلال ہو اور حلال ذرائع سے حاصل ہوئی ہو اس لحاظ سے پاکیزہ رزق کے معنی یہ ہوئے کہ جو حلال بھی ہو حلال ذرائع سے حاصل کیا گیا ہو۔ مسلمانوں کا مذہبی فریضہ ہے کہ وہ پاکیزہ رزق کی اہمیت کا اندازہ کریں، اس کے حصول کے لیے عملی جدو جہد کریں اور دوسرے کے لیے نمونہ عمل بنیں لیکن افسوس صد افسوس ہم ایسا کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔ سرکاری و خانگی ملازمت حاصل کرنے اور بالخصوص پیشہ تدریس سے وابستہ ہونے کے لیے مسلمان اپنی صلاحیت کا لوہا منوانے کے بجائے سفارشوں کا سہارا لینے لگے ہیں جس کی وجہ سے معیار بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ اس طرح کی ملازمت حاصل کرنے کے بعد جو رزق ہمارے گھر میں آرہا ہے کیا وہ پاکیزہ رزق کے زمرے میں آسکتا ہے؟ جو لوگ سفارش کے ذریعہ ملازمت حاصل کرتے ہیں وہ نہ صرف ایمانی حرارت اور روحانی طاقت کو کمزورکرلیتے ہیں بلکہ طلباء کے مستقبل کو بھی تاریکی میں ڈھکیلنے کے مرتکب بھی بن جاتے ہیں چونکہ پیشہ تدریس کا حق ادا کرنے کے لیے ذاتی و علمی صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں جو کسی سفارش سے حاصل نہیں ہوتی

۔ اسی طرح مسلم مینجمنٹ کے تحت چلائے جانے والے اکثر دواخانوں میں یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ ان کا معاہدہ ایسے مراکز سے ہوتا ہے جو ایم آر آئی (Magnetic Resonance Imaging)، سی ٹی سکین (Computed Tomography Scan) اور دیگر ایکسرے وغیرہ کی خدمات انجام دیتے ہیں جس کے ذریعہ مریض کے دماغ، سر پر لگنے والی چوٹ اور بدن کے دیگر اندرونی اعضاء و اجزاء کے مسائل کی تشخیص کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ یقینا اشدضرورت پڑنے پر ڈاکٹر کو ایسے مراکز سے رجوع ہونے کی صلاح مریض کو دینی چاہیے تاکہ اس کا بروقت صحیح علاج ہوسکے لیکن اکثر ایسا ہورہا ہے کہ ان مراکز سے محض کمیشن حاصل کرنے کے لیے بعض ڈاکٹرغیر ضروری معائنہ تجویز کریتے ہیں جس سے مریض بالخصوص غریب و نادار کا مالی استحصال ہورہا ہے۔ ایم آر آئی، سی ٹی سکین اور ایکسرے وغیرہ نکالنے والے حضرات ڈاکٹر کو دیئے جانے والے کمیشن کا فیصد بھی مجبور و بے بس مریض سے وصول کرتے ہیں۔ ذاتی مفادات پر مبنی ایسے معاہدات کے ذریعہ حاصل ہونے والی رقومات کیا پاکیزہ رزق کے دائرے میں آتی ہیں ؟جس مسلمان کو راستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹانے کا حکم دیا گیا ہے وہ حصول دنیا کے لیے کسی کو مالی مشکلات میں مبتلاکیسے کرسکتا ہے؟۔ علاوہ ازیں ہمیں بتایاگیا کہ کسی مومن کا ایمان پایہ تکمیل کو اس وقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہ پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہو۔کیا کوئی مسلمان اس بات کو پسند کرے گا کہ اس کا مالی استحصال ہو! پھر ہم دوسروں کا مالی استحصال کیسے کرسکتے ہیں؟

  یہی حال مسلم مینجمنٹ کے تحت چلائے جانے والے تقریباً اسکولوں کا بھی ہے جہاں نہ صرف اولیاء طلباء سے فیس وصول کی جاتی ہے بلکہ ان کے لیے لازمی قرار دیا جاتا ہے کہ وہ مخصوص دکان سے ہی بچہ کا یونیفارم، کتابیں، کاپیاں اور دیگر اسٹیشنری سامان خریدیں چونکہ ان مخصوص دکانداروں سے اسکول کے انتظامیہ کا معاہدہ ہوا ہوتا ہے۔ اب اگر وہ دکاندارزیادہ قیمت کا بھی مطالبہ کرے تو اولیاء طلباء وہ ادا کرنے کے لیے مجبور ہوجاتے ہیںچونکہ اسکول کے انتظامیہ ان پر پابندی عائد کی ہوئی ہوتی ہے کہ اشیاء اسی مخصوص مقام سے خریدیں۔ اس طرح کی کمائی کو پاکیزہ رزق نہیں کہا جاسکتا چونکہ یہ بندہ مومن کی ایمانی حرارت اور ارتقاء روحانیت کے لیے مضرت رساں ہے۔جبکہ حلال و پاکیزہ رزق سے بندہ مومن کے ایمان کو جلا و حرارت ملتی ہے۔ اسی حلال و پاکیزہ رزق کے اثرات کے باعث اس کو حلاوت ایمانی نصیب ہوتی ہے، وہ جادۂ حق پر چلنے میں دلچسپی لینے لگتا ہے، اس کے قوائے عملیہ میں چستی، پھرتی آجاتی ہے، اس کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہوجاتا ہے، اس کی قوت پرواز میں اضافہ ہوجاتا ہے، وہ نیک اعمال کی طرف فطری طور پر مائل ہوجاتا ہے، اس کے دل میں نور، کشادگی اور طمانیت پیدا ہوتی ہے، اس کے کردار میں بلندی و پختگی آجاتی ہے، اس کے لہجہ میں نرمی و ملائمت آتی ہے، اس کے اخلاق و خصائل میں نکھار آجاتا ہے، وہ بدنی و روحانی خطرات و امراض سے بچ جاتا ہے، وہ شیطان کی ہمراہی سے بہ آسانی کنارہ کش ہوجاتا ہے، وہ تدریجی انحرافات و بے ہودہ خرافات سے مامون ہوجاتا ہے، وہ گناہوں کی آلودگی سے محفوظ ہوجاتا ہے،اس کی دعائیں قبولیت کا درجہ حاصل کرلیتی ہیں۔ اللہ تعالی کے فرائض یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کے بعد مسلمان پر سب سے اہم فریضہ اور مستقل عبادت کسب حلال ہے۔ حلال رزق کمانے والا اللہ کا دوست ہوتا ہے۔

 آج مسلم معاشرے میں بہت سے جعلی پیر ایسے ہیں جو اللہ کے ولی ہونے کا دعوی کرتے ہیں لیکن مریدوں سے امیدیں وابستہ رکھتے ہیں اور مختلف بہانے سے مریدوں سے نذرانے بٹورتے ہیں۔ جبکہ صوفیا کرام اور بزرگان دین کے مسندِ عروج پر متمکن ہونے کے احوال کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان مبارک ہستیوں کا ہمیشہ یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ نذرانے قبول کرنے سے انکار کرتے رہے اور رزق حلال کے لیے تگ و دو میں نہ صرف خود ہمیشہ مصروف رہے بلکہ اپنے متبعین کو بھی اسی کی تلقین کرتے رہے۔ قرآن مجید متعدد مقامات پر مسلمانوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ کسب حلال کے ساتھ پاکیزہ رزق کھائو۔ حلال و پاکیزہ رزق کی تلاش میں مشغول رہنے والا دنیا میں کامیاب اور آخرت میں سرخرو رہتا ہے۔حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے رسول رحمتؐ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی طیب ہے اور طیب ہی کو قبول فرماتا ہے اور اللہ تعالی نے مسلمانوں کو اس چیز کا حکم دیا جس کا حکم اس نے اپنے رسولوں کو دیا تھا پھر آپؐ نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی ’’اے نبیوا! طیب اور لذیذ چیزیں کھائو اور نیک عمل کرو ‘‘۔ کاملین و صلحاء امت کے مطابق اکل حلال اور صدق مقال کے ذریعہ ہی بندہ مومن کی دعائوں میں اثر پیدا ہوتا ہے اور اس کی برکتوں سے وہ  ولایت کا مرتبہ پالیتا ہے۔دین اسلام کی ان انسانیت نواز تعلیمات کو بالائے طاق رکھ کر مذکورہ بالا واقعات میں جس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرکے دنیا کمائی جارہی ہے اس سے دنیا تو سنوار سکتی ہے لیکن آخرت نہیں۔ اسی لیے قرآن مجید نے مسلمانوں کو متعدد بار حلال و پاکیزہ رزق استعمال کرنے کا حکم دیتا ہے۔ عربی زبان میں طیب کے معنی ایسا کام جس کے کرنے سے خوشی محسوس ہو کراہیت نہ ہو۔ مسلمان ایسی غذا استعمال کریں جو حلال ہو، مرغوب ہو اور اس کے استعمال کرنے میں کسی قسم کی کوئی کراہیت نہ ہو یعنی وہ غذا تمام ظاہری، باطنی، جسمانی اور روحانی نجاستوں، گندگیوں اور مضرت رسانیوں سے پاک ہو۔ شرعاً جو چیز حلال ہوتی ہے وہ پاک ہی ہوتی ہے ا س کے باوجود رب کائنات بطور تاکید رزق حلال کے ساتھ طیب کا بھی اضافہ فرمایا تاکہ انسان کو پاکیزہ رزق کی اہمیت کا اندازہ ہوجائے۔ رسول اکرمؐ نے مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ وہ ہر روز صبح میں یہ دعا مانگیں اے اللہ ہم تجھ سے نفع مند علم، پاکیزہ رزق اور تیری بارگاہ میں شرف قبولیت حاصل کرنے والا عمل کا سوال کرتا ہوں۔ یہ وہ دعا ہے جس میں دنیا و آخرت کی تمام خوشیاں سمٹتی ہوئی ہیں۔ لیکن اس کے حصول کے لیے منجملہ اقدامات کے ایک یہ ہے کہ ہم ہمیشہ حلال و پاکیزہ رزق حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ چونکہ بندہ مومن تمام اشیاء کے حصول میں نہ صرف تصور حلال کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے بلکہ اس بات کا بھی اہتمام کرتا ہے اس کے حصول کے ذرائع بھی پاکیزہ ہوں اسی لیے اس کا پورا وجود انسانی معاشرے کے لیے اطیب بن جاتا ہے حدیث شریف میں اسی طرف اشارہ کیا گیا کہ مومن اپنے عمل کی وجہ سے اطیب اور کافر اپنے عمل کی وجہ سے خبیث (گندہ ) ہوتا ہے۔

 دین اسلام نے ماکولات و مشروبات اور دیگر اشیاء کے استعمال کرنے میں بنیادی طور پر دو شرطیں لگائیں ہیں یعنی وہ حلال اور طیب ہوں۔ اسلامی تعلیمات میں ظاہری و باطنی نفاست و پاکیزگی کی کیا اہمیت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جو اشیا انسانی جسم و روح کے لیے نقصان دہ ہوں یا انسانی طبیعت پر گراں گزرتی ہوں اسے مکروہ قرار دے کر ان کے استعمال سے منع فرما دیا گیا جیسے لہسن گرچہ حلال ہے لیکن اس کو کچا استعمال کرنے سے روحانی مخلوق ملائکہ کو تکلیف و اذیت پہنچتی ہے اسی لیے کچا لہسن کھاکر مسجد آنے سے منع کردیا گیا۔ مذکورہ بالا قرآنی ہدایت کے مطابق غذا حلال ہونے کے ساتھ طیب بھی ہونا چاہیے لیکن اس جانب ہماری توجہ بہت کم جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ مہنگی مگر کم غذائیت اور زیادہ کیلوریز کی حامل فرائز، پیزا، برگر، چپس یا زیادہ تلی ہوئی اشیاء وغیرہ بچوں و نوجوانوں کی پسندیدہ و مرغوب غذابن چکی ہے جسے عرف عام میں فاسٹ فوڈ اور جنک فوڈ کہا جاتا ہے۔ اگر ان غذائوں کو شرعی معیارات کے مطابق بنایا جائے تو یہ غذائیں حلال ہیں لیکن طیب نہیں۔ اسلام نے اشیاء کے استعمال کے لیے حلال کے ساتھ طیب کی شرط اس لیے لگائی ہے چونکہ حلال سے انسان کے ایمان اور طیب سے انسان کے جسم کی حفاظت ہوتی ہے۔ فاسٹ فوڈ اور جنک فوڈ بظاہر نفیس اور لذیذ ہونے کے باوجود انسانی صحت کے لیے غیر صحت بخش ہے اسی لیے حلال ہونے کے باوجود طیب نہیں ہے اسی لیے مسلمانوں کو اس طرح کی غذائوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔

ماہرین صحت کے مطابق ایک وقت کے کھانے میں 600کیلوریز ہونی چاہیے جبکہ فارسٹ فوڈ میں 751 کیلوریز ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں فارسٹ فوڈ اور جنگ فوڈ بہت ساری جسمانی بیماریوں جیسے کینسر، قبض، بلڈ شوگر، بلڈ پریشر، سوجن، ٹائپ 2 ذیابیطس، دل کی بیماری، وزن میں اضافہ، دمہ، الرجی، قلبی، تنفسی، تولیدی، مرکزی اعصابی نظام، دماغ کی بھوک لگنے کی حس، ذہنی نشو و نما اور جسمانی صلاحیتوں کو متاثر کرنے کا سبب بن سکتا ہے اسی بنا پر فارسٹ فوڈ یا جنک فوڈ حلال کی حیثیت سے تصدیق شدہ ہونے کے باعث حلال تو ہوسکتا ہے لیکن طیب نہیں۔ مسلمانوں کو ایسی غذا استعمال کرنی چاہیے جو ان کے عقول اور اخلاق کے لیے مفید ثابت ہوتی ہو۔آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآن ﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائیں۔آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔

تبصرے بند ہیں۔