کسی کی یاد میں خود کو بھلائے بیٹھے ہیں
ہادی ایلولوی
کسی کی یاد میں خود کو بھلائے بیٹھے ہیں
لبوں پہ جعلی ہنسی بھی سجائے بیٹھے ہیں
۔
وہ دنیا والوں کو دہشت کے حامی لگتے ہیں
یہاں جو شمع ِ محبت جلائے بیٹھے ہیں
۔
وطن کی مٹی سے ہم کو بہت محبت ہے
اسی لئے تو لحد میں نہائے بیٹھے ہیں
۔
انہیں سے پوچھ لو لزت وطن پہ مرنے کی
جو تختِ دار پہ سر کو سجائے بیٹھے ہیں
۔
وہ جن کے ہاتھوں میں تلوار ہونی چاہئے تھی
وہ اپنے ہاتھوں میں مہندی رچائے بیٹھے ہیں
۔
ہمارے ملک پہ جن کی بنی حکومت ہے
ہر ایک فرد پہ وہ ظلم ڈھائے بیٹھے ہیں
۔
سبق امن کا سکھادو انہیں ذرا ہادی
جو میرے ملک پہ قبضہ جمائے بیٹھے ہیں
تبصرے بند ہیں۔