کسی کے پاس بھی اب دل نہیں ہے

ذوالفقار سیفی

کسی کے پاس بھی اب دل نہیں ہے

کوئی بھی پیار کے قابل نہیں ہے

۔

اسے تو نیند بھی آتی بہت ہے

نیا ہے عشق میں بسمل نہیں ہے

۔

کتاب زیست کی تعلیم مت دو

قضا سے کوئی بھی غافل نہیں ہے

۔

وفا کے لفظ سے تصویر جاناں ؟

بنانے کا کوئی حاصل نہیں ہے

۔

ضرورت جب پڑے ہم کو پکارو

کوئی بھی کام ہو مشکل نہیں ہے

۔

اجالوں کے لیے تھوڑا اندھیرا

ترے رخسار پر تو تل نہیں ہے

۔

بھنور میں چھوڑ دے تم کو اکیلا

وہ سیفی ہے کوئی بزدل نہیں ہے

تبصرے بند ہیں۔