کف ِافسوس

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

  پہلی بیٹی کے بعدجب فرحان کے گھربیٹاپیداہواتوساراگھرخوشیوں سے بھرگیا،اوربھرے بھی کیوں نہیں ؟ پیدائش بیٹی کی نہیں، بیٹے کی ہوئی ہے، جسے معاشرہ میں ’’عمدہ مال‘‘ تصورکیاجاتاہے، پھر موقع بھی ایساہے، جس میں ’’ہم دوہمارے دو‘‘ کے نعرہ پرعمل روشن خیالی کااعلی نمونہ قراردیاجاتاہے، یہی وجہ ہے کہ چھَٹی(چھٹے دن بچہ اورزچہ کا غسل اوردوسرے لوازمات)میں خوب اہتمام سے کام لیاگیا، میلاد کا بھی خاص اہتمام کیاگیا، لوگوں نے بھی مبارکبادی دینے میں کنجوسی سے ذرابھی کام نہیں لیا۔

 فرحان کے گھروالے توخوشی کی وجہ سے پھولے نہیں سمارہے تھے، خاص کراس کی بیوی زرینہ توکافی سے بھی زیادہ خوش نظرآرہی تھی، جس کااظہاربیٹے کوچوم چوم کررہی تھی، دراصل اس کی خوشی کی وجہ کچھ اورہی تھی، جس کواس نے من ہی من میں دبارکھا تھا؛ حتی کہ اپنے مجازی خداکے سامنے بھی ظاہرنہیں ہونے دیاتھا، وہ وقت کے انتظارمیں تھی، بالآخروہ آہی گیا، زچگی کے ایام گزرگئے توایک دن بڑی چاؤ سے شوہرکومخاطب کرتے ہوئے کہا:

          ’’اجی! میری ایک خواہش ہے،آپ پوری کریں گے نا؟‘‘۔

          ’’بسروچشم، اظہارتوکرو‘‘، شوہرنے جواب دیا۔

          ’’نہیں، ایسے نہیں، پہلے آپ وعدہ کریں ‘‘، زرینہ نے کنمناتے ہوئے کہا۔

          ’’بولوتوسہی‘‘، فرحان نے کہا۔

          ’’نہیں، آپ وعدہ کریں ‘‘ زرینہ پھرسے کنمنائی۔

  کہتے ہیں کہ عورتوں کے پاس بات منوانے کے سوگرہوتے ہیں، جسے موقع محل کے اعتبارسے وہ استعمال کرتی ہیں، آخرفرحان نے وعدہ کرہی لیا، زرینہ اکدم سے لپٹ گئی اورمارے خوشی کے دوچاربوسے بھی ثبت کرڈالے، پھراپنے شوہرکے گلے میں اپنے بازؤوں کاہالہ بناتے ہوئے کہا:

          ’’میں کہہ رہی تھی کہ اب بس کردیں ‘‘، فرحان نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے پوچھا:

          ’’کیابس کردیں ؟‘‘۔

          ’’یہی بچوں کاسلسلہ‘‘، زرینہ نے بڑے رسان سے جواب دیا۔

فرحان حیرت واستعجاب میں غرق ہوگیا،اوراسے توغرق ہوناہی تھاکہ یہ سب باتیں ابھی تک اس کے خاندان کاحصہ نہیں بنی تھیں، زرینہ اس کے خاندان کی پہلی پڑھی لکھی خاتون نہ تھی،اس کی چچیاں، ممانیاں اوربھابھیاں بھی توپڑھی لکھی تھیں ؛ لیکن ان کے یہاں توابھی تک بچوں کاسلسلہ جاری تھا، ہرایک کے دوسے زائدبچے تھے، تھوڑی دیر تک تواسے سمجھ ہی میں نہ آیاکہ وہ کیا ری ایکٹ کرے؟

  فرحان کی یہ حالت دیکھ کرزرینہ بھی سٹپٹا گئی؛ لیکن پھرخودکوسنبھالتے اورچاہت کی شیرینی گھولتے ہوئے اپنے شوہرسے مخاطب ہوئی:

’’آپ یہ نہ سمجھئے کہ میں بچہ پیداکرنے سے بھاگ رہی ہوں ؛ لیکن صرف بچے پیداکردیناکوئی کمال کی بات تھوڑی ہے، ان کی پرورش اورتربیت کرنا اورپڑھانالکھانا بھی اہم ذمہ داری ہے، اورآپ توجانتے ہی ہیں کہ مہنگائی کے اس زمانہ میں یہ سب کتنامشکل کام ہے، اس پر آپ کی کمائی بھی توبہت زیادہ نہیں ہے، بس میں یہی سب سوچ کر کہہ رہی تھی، ویسے آپ کی مرضی‘‘۔

 لگاوٹ تودشمن کوبھی رام کرسکتی ہے اورفرحان تواس کاشوہرہی تھا، وہ بھی سوچنے لگاکہ زرینہ کی بات توٹھیک ہی ہے، گرانی دن بدن ہوش رباہوتی جارہی، جسے مجھ جیسافردآگے چل کرجھیل نہ سکے گا، اس پرتعلیمی مافیاؤوں کی لوٹ مستزاد، یہ سب سوچ کروہ بھی رام ہوگیا، جس کی خوشی میں مزیدکچھ بوسوں کانقدانعام بیوی کی طرف سے ملا؛ لیکن اس نے ایک شرط رکھی:

          ’’گھرمیں کسی سے ذکرنہ کرنا‘‘۔

 ’’اوکے ڈیر‘‘، بیوی نے جواب دیا، پھرفرحان نے ڈاکٹرکی تگ ودوشروع کی، بالآخرایک لیڈی ڈاکٹرسے کنسلٹ ہوگیااورکچھ دنوں کے بعدوہی ہوا، جوزرینہ کی  خواہش تھی ……  پھردن ہنسی خوشی کے ساتھ گزرنے لگے، بچہ بھی بڑاہونے لگا؛ یہاں تک کہ وہ تقریباً ڈھائی سال کاہوگیا۔

  ایک دن اسے بخارلاحق ہوا، علاج ومعالجہ ہوا؛ لیکن جب مسبب الاسباب ہی نہ چاہے توسبب سے کیافائدہ ہوسکتاہے؟ کسی نے ڈاکٹربدلنے کامشورہ دیااور کسی نے چھاڑپھونک کرانے کا، ڈاکٹربھی بدلاگیااورچھاڑپھونک بھی کرایاگیا؛ حتی کہ سفلی عامل سے بھی رابطہ کیاگیا؛ لیکن ہوتاوہی ہے، جوپیداکرنے والاچاہے۔

  دوتین دن کے بعدبچہ کی سانس اکھڑنے لگی اوردیکھتے ہی دیکھتے اس کی روح قفص عنصری سے پرواز کرگئی۔

 اب وہی گھرماتم کدہ تھا، جوڈھائی سال پہلے جشن کدہ بناہواتھا، ہرایک کی حالت دیگرگوں تھی؛ لیکن میاں بیوی کی حالت ناقابل بیان، شایدانھیں اپنے اس جرم کاخوب احساس ہورہاتھا، جولوگوں کی نگاہوں سے چھپ چھپاکرانجام دیاگیاتھا؛ لیکن اب کف افسوس کے سواان کے پاس کچھ بھی باقی نہ تھا، ’’اب کیاہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔